(اقتصای تعاون اور دوستی(سید وجیہہ حسن

186

ان سطروں کی اشاعت تک 23 مارچ، یوم پاکستان کی پریڈ بحسن و خوبی مکمل ہوچکی ہوگی۔ اِس سال یہ پریڈ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس میں پہلی دفعہ چین کا فوجی دستہ بھی شریک ہورہا ہے۔ اس دستے کی قیادت میجر جنرل لی چن کررہے ہیں۔ اس فوجی دستے کے ساتھ پاکستان پہنچنے پر جنرل لی چن کا کہنا تھا کہ ’’ہم پاک چین دوستی میں موجود گرم جوشی کو محسوس کرسکتے ہیں۔ پاکستان اور چین بہترین ہمسایہ، قریب ترین دوست اور اسٹرے ٹیجک اتحادی ہیں۔‘‘
چین کے فوجی دستے کے علاوہ اس پریڈ میں ترکی کے تاریخی ملٹری بینڈ کو بھی شرکت کرنا ہے، اور سعودی عرب کے اسپیشل فورسز دستے کی شرکت بھی متوقع ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر چینی فوجی دستے کی شرکت چین کی طرف سے اس بات کا اعادہ ہے کہ چین اور پاکستان اب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، پاکستان کو درپیش دفاعی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور عالمی بساط پر موجود قوتیں پاکستان کو کسی طرح بھی تنہا نہ سمجھیں۔
چین نے گوادر کی سیکورٹی کے لیے جنوری میں دو جنگی بحری جہاز پاکستان نیوی کے حوالے کیے ہیں، جس کے بعد پاکستان کی بحریہ کافی حد تک اپنے دفاع میں خودکفیل ہوگئی ہے۔ مارچ کے وسط میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورۂ چین اس لحاظ سے اہم تھاکہ اس دورے میں انہوں نے چینی افواج کی قیادت سے ملاقات کی اور خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر گفتگوکی۔ اسی دورے میں یہ طے پایا ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر بیلسٹک، کروز، طیارہ شکن اور بحری جہازوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت کے حامل میزائل بنائے گا۔ سفارتی محاذ پر چین پہلے ہی پاکستان کے خلاف امریکی اور بھارتی قراردادوں کو سلامتی کونسل کی سطح پر بے اثر کرتا رہا ہے۔
پاکستان غالباً پہلا ملک ہے جس کے معاملات میں چین براہِ راست شریک ہے۔ دفاعی معاملات کے ساتھ ساتھ ملک کی اندرونی امن و امان کی صورت حال پر بھی چین کی نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل باجوہ کے حالیہ دورۂ چین میں چینی افواج کی قیادت نے تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہا اور ملک میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی کامیابیوں پر اطمینان کا اظہار کیا۔
اگرچہ ’سی پیک‘کے حوالے سے ملک کا حکمران طبقہ عوام کو خوش آئند مستقبل اور معاشی ترقی کے خواب دکھا رہا ہے، لیکن اس حکمران طبقے کی ماضی کی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے عوام کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ اس حکمران طبقے نے ملک میں آنے والے اچھے دنوں کے ثمرات کبھی بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیے ہیں۔ بیرونی امداد یا قرضوں کی شکل میں آنے والے ڈالر صرف حکمرانوں کی تجوریاں بھرنے ہی کے کام آتے ہیں۔ عوام کے حصے میں ان قرضوں کی واپسی کے لیے لگائے گئے مزید ٹیکسوں کا بوجھ ہی آیا ہے۔
12 مارچ کو ایکسپریس ٹریبیون (Express Tribune) میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق چین اقتصادی راہداری (CPEC) سے متعلق جن منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے اس کا تخمینہ تقریباً 50 ارب ڈالر تھا۔ اس میں سے تقریباً 75 فیصد تو ملک میں آئے بغیر ہی منصوبوں کی تکمیل کی ذمہ دار کمپنیوں تک پہنچ جائے گا، جبکہ پاکستانی عوام اگلے 30 برسوں میں اس (50 ارب ڈالر) قرضے کو 90 ارب ڈالر کی شکل میں مع سود ادا کریں گے۔ سرکلر ریلوے اور پاکستان ریلوے کو اس منصوبے کا حصہ بنادینے کے نتیجے میں 50 ارب ڈالر کی رقم بڑھ کر 54 ارب ڈالر ہوگئی، جبکہ اسی تناسب سے واپسی کی رقم میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔2020ء کے بعد سے سالانہ 3/4 ارب ڈالر ملکی بجٹ سے نکال کر قرضوں کی واپسی کے لیے دینا ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام اقتصادی راہداری منصوبے کے نتیجے میں کسی بڑی معاشی خوشحالی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں، بلکہ ان کا یہ خوف اپنی جگہ موجود ہے کہ ان قرضوں کی واپسی کا بوجھ بھی انہی کو اٹھانا پڑے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس منصوبے کے طفیل ملک میں امن و امان کی صورت حال نسبتاً بہتر ہوئی ہے، خصوصاً ملک کا معاشی حب کراچی ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی دہشت گردی، لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے کسی حد تک محفوط ہوگیا ہے۔ ملک میں جاری فوجی آپریشن دہشت گردی کی وارداتوں کو کسی حد تک روکنے میں کامیاب ہوا ہے، لیکن ہر تھوڑے دن کے بعد ہوجانے والا دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گردی کو تازہ کمک مستقل مل رہی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آخر ملک میں یہ ہنگامی صورت حال کب تک جاری رکھی جاسکتی ہے؟ کوئی مہذب معاشرہ آخر کب تک فوجی عدالتوں، آپریشنوں اور ماورائے عدالت قتل کو برداشت کرسکتا ہے؟
ملک کا حکمران طبقہ تو اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہے اور اسلام سے اُسے بیر ہے۔ جنرل پرویزمشرف کے دور سے اس نے ملک میں انارکی برپا کی ہوئی ہے۔ نائن الیون کے بعد ملک کے عوام اپنے وسائل امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہیں تھے۔ وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ افغانستان کی اُس وقت کی حکومت کو ختم کرنے کا امریکہ کے پاس کوئی اخلاقی یا قانونی جواز موجود تھا۔ وہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دراصل خطے میں دہشت گردی کے فروغ کی جنگ سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے بیشتر اقدامات کو عوام نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وقت نے ثابت کیا کہ عوام کی رائے ملک کے لبرل حکمران طبقے کی رائے کے مقابلے میں درست تھی۔
ملک میں موجود امن و امان کی صورت حال دراصل عوام کی رائے کے برعکس حکمران طبقے کی جانب سے اپنی رائے کو بزور عوام پر ٹھونسنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ورنہ2001ء سے قبل پاکستان میں کبھی کوئی خودکش دھماکا نہیں ہوا تھا، مذہب کے نام سے منسوب کی جانے والی دہشت گردی کا کوئی سلسلہ 2001ء سے قبل ملک میں موجود نہیں تھا، اور سب سے بڑھ کر افغانستان کی سرزمین 2001ء سے قبل کبھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوئی تھی۔ 2001ء سے قبل ملکِ عزیز میں جامعہ حفصہ اور آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات کے متعلق کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ملک کا حکمران طبقہ آج بھی اپنی سوچ تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے حکمران اپنے ہی شہریوں میں تفریق برت رہے ہیں۔ ایک طرح کے ملزمان کا ماورائے عدالت قتل بھی جائز قرار دے دیا گیا ہے، ان کے لیے علیحدہ عدالتیں ہیں، بنیادی قانونی استحقاق بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔ جبکہ اگر ملزم کی دہشت گردی کا تعلق مذہب سے نہ جوڑا جاسکے تو اسے ایک دو نہیں درجنوں قتل کرنے کے بعد بھی قانون میں تمام تحفظات حاصل ہوتے ہیں، اسے وکیل کرنے کی، ضمانت کروانے کی، مقدمات سے باعزت بری ہونے کی تمام سہولیات میسر ہیں، بلکہ سنگین ترین مقدمات میں ملوث ہونے اور دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے روابط رکھنے کے باوجود ایسے تمام ملزمان ملک کی معزز اسمبلیوں کے رکن بن سکتے ہیں، منسٹر بن سکتے ہیں، شہر کے میئر بن سکتے ہیں۔
ملک میں موجود کوئی قوت حکمرانوں کی منافقانہ پالیسی پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں ایک سوال پاکستان کے قریب ترین دوست چین کے سامنے بھی رکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ آئندہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں مستقل امن ہی چین کے مستقبل کے منصوبوں کی بروقت تکمیل میں مددگار بن سکتا ہے۔ کیا چین پاکستان کے حکمران طبقے کو اس بات پر راضی کرسکتا ہے کہ وہ عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کے بجائے عوام کی امنگوں اور خواہشات کی روشنی میں اپنی پالیسیاں ترتیب دیں؟ اس کے لیے ضروری یہ ہوگا کہ یہ حکمران طبقہ جنرل پرویزمشرف کے دور میں اٹھائے گئے اقدامات پر ندامت و شرمساری کا اظہار کرے، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کو اپنی غلطی تسلیم کرے، ملک کے ہرشہری کو یکساں حقوق دیتے ہوئے برابر کا شہری تسلیم کرے، ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے ملک میں آزاد سیاسی نظام کو پنپنے کا موقع دے۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کو اپنے مسلم اقلیتی شہریوں کے بارے میں قائم عمومی تاثر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہوگی۔ چین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مسلمان حکمرانوں کے برعکس مسلم عوام ایک امت کی طرح سوچتے ہیں۔ دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم کرنے والا عمومی طور پر مسلمان عوام کے دل میں گھر نہیں کرسکتا۔
چین نے اگر یہ دو کام کرلیے تو چین اور پاکستان کی دوستی دو تہذیبوں کی دوستی بن سکتی ہے۔ ڈھائی ارب انسانوں کی دوستی۔۔۔ ورنہ اس اتحاد کا مستقبل بھی پاکستان کے دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ اتحاد سے مختلف نظر نہیں آتا۔
nn

حصہ