تاثیر مصطفی

188

ملک میں اگلے عام انتخابات کے لیے غیراعلانیہ تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس کے لیے اپنی اپنی حکتمع ملی تیار کرلی ہے۔ اگرچہ ابھی اس حکمت عملی کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا لیکن سیاسی جماعتوں کی قیادت کے ذہنوں میں اس حوالے سے ایک واضح نقشہ موجود ہے۔ جس کو سامنے رکھ کر وہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ اور وقت آنے پر اس نقشے کی اپنی پارٹیوں کی سینٹرل ایگزیکٹو یا مجالس عاملہ جیسی فیصلے ساز باڈی سے منظوری لے لیں گی۔ ابھی باقاعدہ منظوری اور اعلان سے سیاسی جماعتیں دو وجوہات سے گریز کررہی ہیں۔ ایک تو سب کو پانامہ کیس کے فیصلے کا انتظار ہے۔ اور دوسرے ابھی سیاسی جماعتیں اپنے پتے شو نہیں کرانا چاہتیں بلکہ پتوں اور ترپ کی چالوں کو فی الحال خفیہ رکھنا چاہتی ہیں اور وقت آنے پر حالات کے مطابق اپنے اپنے پتے شوکرائیں گے اور اپنی اپنی ترپ چال چلیں گی سیاسی وانتخابی صف بندی کے لیے بھی ذہن تیار اور اشارے موجود ہیں لیکن یہ صف بندیاں حکمران جماعت کی حکمت عملی سامنے آنے کے بعد ہی واضح شکل اختیار کرپائیں گی۔
بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پانامہ کیس کا ایسا فیصلہ آسکتا ہے جس میں حکومت 2017 ء ہی میں انتخابات کرانے پر مجبور ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کی خواہش ہوگی کہ وہ بجٹ پیش کرکے منظور کرالے اور بجٹ میں عوا کی توقع سے زیادہ ریلیف دے کر انتخاب جیتنے کی کوشش کرے۔تاہم اگر اس طرح کا فیصلہ نہیں آتا۔ جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو تو پھر انتخابات 2018 ء میں اپنے وقت پر ہوں گے۔ چونکہ 2018 بھی سر پر ہے اس لیے عملاً سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں اترچکی ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے عوامی جلسے‘ وفاق اور پنجاب کی جانب سے نئے منصوبوں کے اعلانات‘ دوسرے صوبوں کے لیے کثیر گرانٹ اور فنڈز کا اجرا اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ شہباز شریف کی جانب سے اشرافیہ پر تنقید اور ماضی کی خرابیوں کی ذمہ داری اس اشرافیہ پر ڈالنا بھی عام آدمی کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور اس کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ خود وزیراعظم نواز شریف بھی اس راستے پر چل رہے ہیں مگر ذرا دھیمے انداز میں۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب اس تنقید میں بھی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے اجتماعات میں لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں لگتا یہ ہے کہ وہ اشرافیہ پر تنقید کے معاملے میں بہت جلد پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھیسٹنے کے محاورے دہرانے لُگیں گے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اور ان کا خاندان نہ صرف اشرافیہ میں شامل ہے(ایسی اشرافیہ جو اقدار میں نہ بھی ہو تو ملکی معاملات پر اثرانداز ہوتی ہے) بلکہ وہ گزشتہ تیس سال سے اقتدار میں رہنے کے بعد بااقتدار اشرافیہ بھی شامل ہوچکے ہیں۔ انہیں قوم کو نیا دھوکہ دینے کے بجائے اپنی اور اپنے طبقے کی زیادتیوں پر معافی مانگنے کے ساتھ اعتراف جرم کے طور پر مستعفی بھی ہوجانا چاہیے لیکن وہ تو اگلی مدت کے وزارت اعلیٰ بلکہ ضرورت پڑنے پر وزارت عظمیٰ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اشرافیہ پر تنقید ان کی نئی انتخابی حکمت عملی ہے۔ جس کے ساتھ وہ انتخابی مہم پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ پنجاب میں ہزاروں نئی اسامیاں پیدا کررہے ہیں پنجاب کے اخبارات آج کل پنجاب حکومت کی کارکردگی ظاہر کرنے والے اشتہارات سے بھرے پڑے ہیں۔ وفاقی حکومت کے لیے اس طرح کے اشتہارات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے بیانات مین بھی تندی و تیزی کے ساتھ امید کا رنگ نمایاں ہورہا ہے اس طرح مسلم لیگ (ن) عملاً؟؟؟؟ لنگوٹ کس کر انتخابی مدیان میں اتر آئی ہے دوسری جانب عمران خان کو دھرنے کے بعد سر پر انتخابی مہم نظر آرہے ہیں۔ وہ جگہ جگہ ورکرز کنونشن بھی کررہے ہیں۔ حکومت اور پیپلزپارٹی پر اس قدر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں کہ عرفان صدیقی جیسے نواز شریف او رمسلم لیگ (ن)کے داعئ مشیر بھی اصل اپوزیشن لیڈڑ انہیں ہی قرار دے رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان او ران ک پارٹی بلدیاتی انتخابات میں تین صوبوں میں واضح شکست اور اس سے قبل آزاد کشمیر میں بھی بڑی ناکامی کے بعد اپنے متوقع امیدواروں اور حلقوں پرسنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور اگلے انتخابات تک پنجاب ‘ سندھ اور بلوچستان میں عمومی طور پر او ران کے شہری حلقوں میں خصوصی طور پربہتر امیداوار لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تیسری جانب پیپلزپارٹی بھی اپنے اندر بعض تبدیلیاں لارہی ہے۔ پنجاب میں وہ زیادہ محنت کرتی نظر آرہی ہے۔ بلاول بار بار لاہور کے چکر لگارہے ہیں جبکہ آصف زرداری آج کل لاہور آکر بیٹھے ہوئے ہیں وہ پارٹی کے مختلف رہنماؤں سے پارٹی کو پنجاب میں متحرک کرنے ‘ اگلے انتخابات میں اچھے امیدوار لانے ‘ پارٹی کے ناراض کارکنوں کو منانے اورپنجاب میں 2013 ء کے مقابلہ میں بہترا نتخابی حکمت عملی اپنانے اوربہتر نتائج لانے کے لیے صلاح مشورے کررہے ہیں۔ جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخوا کی حد تک بہت متحرک ہیں۔ وہ عملاً گزشتہ انتخابات کے ؟؟؟ سے مسلسل رابطہ عوام مہم پر ہیں۔ بہترامیدواروں پر ان کی نظر ہے اور وفاقی حکومت کے تعاون سے وہ تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا سے نکالنے کے لیے منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔ وہ اس میں کتنے کامیاب ہوتے ہین یہ آئندہ آنے والے دن بتائیں گے۔ جماعت اسلامی ملک کے تقریباً تمام قومی و صوبائی حلقوں میں گروپ لیڈرز کے نام سے اپنے امیدوار پہلے ہی میدان میں اتار چکی ہے۔ اے این پی اور بلوچستان وسندھ کی علاقائی جماعتیں اپنی اوپر طاری کردہ ’’حالت جنگ‘‘ کے باعث بہت پہلے سے رابطۂ عوام اور انتخابی مہم پر ہیں۔
ان حالات میں عام انتخابات 2017 ء میں ہوں یا 2018 ء میں اس وقت یہ طے ہورہا ہے کہ آئندہ انتخابات کن ایشوز پر لڑے جائیں گے۔ یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ انتخابات ایشوز پر لڑے بھی جائیں گے یا ماضی کی طرح شخصیات ‘ پیسے‘ اثر و رسوخ ‘ انتخابی سیاست کی مہارت اور تجربے ‘ ذات برادری یا علاقائی نسلی اور مذہبی تعصب او رجوڑ توڑ کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ اگرچہ ہماریس یاست سے ان عناصر کو یکسر خارج کردینا سردست ممکن نہیں ہے لیکن کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کچھ ایشوز یقیناانتخابی فیصل میں انتہائی اہم کردار ادا کریں گے۔ اگرچہ ماضی کے ناداز بھی اپنا کام کریں گے۔

حصہ