فقر و راہبی

297

کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ایک فقر و رہبانی
سکوں پرستی راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
پسند روح و بدن کی ہے وانمود اس کو
کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی!
وجود صیرفی کائنات ہے اس کا
اسے خبر ہے یہ باقی ہے اور وہ فانی
اسی سے پوچھ کہ پیشِ نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی!
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی!
سکون پرستی: آرام طلبی۔ سفینہ: کشتی۔ وانمود: آشکارا کرنا۔ صیرفی: کھوٹا کھرا پرکھنے والا صراف۔ طغیانی: چڑھاؤ، طوفان۔ سلمانیؓ: سلمانؓ سے منسوب یعنی مشہور صحابی حضرت سلمانؓ فارسی۔ سلیمانی: حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب۔ مشہور پیغمبر۔
تمہارے خوشی اور رنج کے قوانین کچھ اورہیں اورہمارے کچھ اور
دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے، اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہوجائیں تو وہ پھول جاتا ہے۔ اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مُردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اس کا سہارا تمام تر مادی اسباب پر ہوتا ہے۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے، اور ناسازگار ہوتے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، اور اِس کام میں اس کا بھروسا اپنی قوت یا مادی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہِ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہورہی ہے۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کرسکتیں، کیونکہ اوّل تو وہ ان کو اپنے حق میں خدا کی طرف سے آزمائش سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گزر جائے۔ دوسرے اس کے پیش نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کرے۔ اس کے سامنے تو رضائے الٰہی کا مقصدِ وحید ہوتا ہے، اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے، بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہِ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کردیا ہو، خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی مرگئی ہو، لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگاری یا ناسازگاری اس کو خوش یا رنجیدہ کرے۔ اس کا سارا اعتماد خدا پر ہوتا ہے جو عالمِ اسباب کا حاکم ہے اور اس کے اعتماد پر وہ ناسازگار حالات میں بھی اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہلِ دنیا سے صرف سازگار حالات میں ہی ہوا کرتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملے سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ تمہاری خوشی اور رنج کے قوانین کچھ اورہیں اورہمارے کچھ اور۔ تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے۔
[تفہیم القرآن، جلد دوم، صفحہ:200]

حصہ