(دبستان کراچی کا نعتیہ منظڑ نامہ(صبیح رحمانی

698

قیامِ پاکستان کے وقت یہاں اُردو کا صرف ایک ہی بڑا مرکز تھا لاہور۔ بیسویں صدی کے شعر و ادب پر نگاہ ڈالی جائے تو پنجاب بالخصوص لاہور کی ادبی فضا میں بہت تنوع نظر آتا ہے۔ خاص طور پر یہ مرکز نئے ادبی رُجحانات کی آبیاری میں بہت آگے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تنوع اور گوناگونی میں بھی ذکرِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کی روشنی سے ضیا بار رُجحانات کے نقوش بھی یہاں کم نہیں تھے۔ اسی شہر میں اقبالؒ کی آواز گونجی :
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے
انہی فضاؤں کی تابانیوں میں مولانا ظفر علی خاں کی نعتوں سے اضافہ ہوا۔
سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایت اولیٰ تمہی تو ہو
یہیں حفیظ جالندھری نے شاہنامۂ اسلام جیسی طویل مثنوی لکھی جس کا بڑا حصہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے ذکرِ مبارک سے متعلق ہے۔ لاہور کے علاوہ بھی اس زمانے میں پنجاب، خیبرپختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کے دوسرے شہروں میں اُردو زبان و ادب اور اس میں ذکرِ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکا چرچا عام تھا۔
پاکستان بننے کے بعد ’’کراچی‘‘ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے دارالحکومت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے پاکستان اور کراچی اپنی اس حیثیت سے محروم ہوگئے۔ کراچی اور سندھ میں قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اُردو شعر وادب اور زبان کا رواج عام تھا۔ اس علاقے میں بھی آزادی کی جنگ اُردو زبان کے ذریعے لڑی گئی۔ پاکستان بننے سے پہلے انجمن ترقی اُردو کی شاخ یہاں 1913ء میں قائم ہو چکی تھی۔ سالانہ مشاعرے پابندی سے ہوتے تھے اور کئی اُردو ماہنامے بھی یہاں سے شائع ہوتے تھے۔ بہرحال اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔
پاکستان بننے کے بعد لاکھوں مہاجرین کے ساتھ اُردو کے نامور اور عہد ساز شعرا بھی کراچی آئے۔ ان کی آمد کا مقصد محض اپنی جان بچانا نہ تھا بلکہ اس نئی اسلامی ریاست کی تعمیر میں عملی اور فکری دونوں سطحوں پر اپنا حصہ ڈالناتھا۔ ان شعرا میں سیماب اکبر آبادی، بہزاد لکھنوی، جوش ملیح آبادی، اکبر وارثی، ضیاء القادری بدایونی، ماہرالقادری، آروز لکھنوی، رئیس امروہوی، نیاز فتح پوری، نہال سیوہاروی اور قمر جلالوی جیسے اساتذہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ اس قافلے میں صبا اکبرآبادی ، رعنا اکبر آبادی، نازش دہلوی، رازمراد آبادی، تابش دہلوی ،نسیم امروہوی، محشر بدایونی، منور بدایونی، اسعد شاہجہانپوری، ارمان اکبر آبادی، شاہ انصار الٰہ آبادی، فدا خالدی دہلوی، ذوالفقار علی بخاری، صبا متھراوی، آلِ رضا اور اقبال صفی پوری بھی شامل تھے۔ یہ وہ شعرا تھے جن کی آوازوں کی طرف قیام پاکستان سے پہلے ہی ادبی دنیا متوجہ ہو چکی تھی۔ نیر مدنی، بہار کوٹی، ادیب سہارنپوری، قمر ہاشمی، اقبال عظیم، ادا جعفری، جلیل قدوائی، جوہر سعیدی، ذہین شاہ تاجی، شاعر لکھنوی،شور علیگ، شیوا بریلوی، محب عارفی، حیدر دہلوی، خالد علیگ، دور ہاشمی، صبا لکھنوی، وجد چغتائی، یاور عباس، ہادی مچھلی شہری، فضل کریم فضلی، کرار نوری، مظہر جلیل شوق، شبنم رومانی، انور دہلوی،انجم فوقی بدایونی،دلاور فگار، شاہ حسن عطا وغیرہ کی شعر گوئی بھی قیامِ پاکستان سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔
یہ چند نام مثال کے طور پر پیش کیے گئے ہیں اور گمان یہی ہے کہ بہت سے اہم نام اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں گے۔
افسر امروہوی، محمودہ رضویہ، محمد ارشاد حسین شاد صابری، علامہ ظہور الحسن درس، احمد خاں جوہر، عبدالحمید کیف، محمد بخش راز، مول چند، سرور علی، محمد عبیداللہ حافظ لاڑکانوی، عزیز سلیمانی، صاحب زادہ محمد علم الدین قادری، آصف جاہ کاروانی اور علی محمد راشدی کے علاوہ کئی اور ادیب و شعرا یہاں پہلے سے موجود تھے اور شعر وادب کی اخبار و جرائد کے ذریعے خدمت کر رہے تھے۔
1947ء کے بعد سندھ کے وہ نوجوان بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ اُردو زبان و ادب کی خدمت کرنے لگے جو پہلے بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ مثال کے طور پر قمر شیرانی اور مسرور کیفی وغیرہ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہا اور اہم نقاد و نثر نگار بھی کراچی آگئے۔ مسلّمہ ادبی رسائل کے مدیر بھی کراچی آئے اور اُنھوں نے ازسرِنو اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان مدیروں اور نثرنگاروں میں شاہد احمد دہلوی، مولانا رازق الخیری، پروفیسر احمد علی، اختر حسین رائے پوری، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، صادق الخیری، سید محمد تقی وغیرہ شامل تھے۔ بہت سے نام ذہن میں آرہے ہیں لیکن میں ان سے صرفِ نظر کرتا ہوں کیوں کہ یہ کراچی کی ادبی تاریخ کا کوئی مطالعہ نہیں بلکہ کراچی کی نعتیہ شاعری کا ایک سرسری جائزہ ہے۔ لیکن اس پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اتنی بڑی ادبی شخصیات کی موجودگی میں کراچی کو ایک ادبی دبستان تو یقیناًقرار دیا جا سکتا ہے۔ مزیدبرآں اس دبستانِ ادب کے خدوخال کو نمایاں کرنے میں ملی جذبات اور نعتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران میں ملّی شاعری نے خاصا فروغ پایااور ملّی شاعری کا تصور بھی اللہ اور رسول اللہ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ حضورہماری شناخت بھی ہیں اور آپ کی محبت ہماے ایمان کی اساس اور ملت کی جان بھی۔
پاکستان آنے والے ابتدائی شعرا میں سیماب اکبرآبادی کا نعتیہ مجموعہ’’ سازِ حجاز‘‘ ان کی نعت گوئی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ وہ ان شعرا میں سے ہیں جنھوں نے کئی اصناف سخن کو نعت گوئی کے لیے کامیابی سے برتا ہے۔ نعت کے حوالے سے دوسرے نمائندہ شعرا میں اکبر وارثی، بہزاد لکھنوی، ضیاء القادری بدایونی، منور بدایونی، شاہ انصار الٰہ آبادی، عنبر شاہ وارثی اور شاہ ستار وارثی کے نام نمایاں ہیں جن کی نعت گوئی میں شخصی جذب و کیف زیادہ نمایاں ہے۔ جبکہ مولانا ماہرالقادری ایک اسلامی تحریک سے وابستہ تھے اور اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرنے والوں میں پیش پیش رہے۔ اس لیے ان کی نعت گوئی میں ایک اجتماعی رنگ غالب رہا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مولانا کے ہاں شخصی سطح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکی یاد اور ذکر نہیں۔
محمدؐ کی نبوت دائرہ ہے نورِ وحدت کا
اسی کو ابتدا کہیے، اسی کو انتہا کہیے
(ماہرالقادری)
شعر و سخن کی مجموعی فضا میں نعت گوئی کا فروغ، دبستانِ کراچی کی اوّلیات میں شامل ہے اُردو شعر و ادب کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں نعت نہ کہی گئی ہو لیکن انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز سے نعت گوئی، محض رسم نہ رہی بلکہ ایک سنجیدہ ادبی کاوش بن گئی۔ ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی نے اُردو نعت گوئی پر اپنے مطالعے میں اس پہلو پر زور دیا ہے۔ ان کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ شہیدی، محسن کاکوروی اور امیر مینائی کے بعد حالی نے نعت گوئی کو زندگی سے متعلق کیا اور اقبال اور ظفر علی خاں نے اسے شعروادب کا عنوانِ جلی بنا دیا ۔ پہلے شعرا اپنے مجموعوں کے ساتھ ایک دو نعتیں بطور تبرک شامل کر لیتے تھے اور آج نعت گوئی ان کے فن کی پرکھ قرار پاتی ہے۔
میں اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ملک کے طول و عرض میں بعض شعرا نے صرف نعت گوئی کو اپنے لیے چن لیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے لیکن اس میں مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ اُردو شاعری میں ان کی حیثیت کے متعلق کچھ کہنا مشکل ضرور ہو گیا ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہماری تاریخ ادب ہی کو لے لیجیے سوائے محسن کاکوروی کے اور کس شاعر کو بطور نعت گو قابلِ اعتنا جانا گیا ہے۔ لیکن جن شعرا نے شاعری کے دوسرے موضوعات کا حق ادا کرتے ہوئے نعت گوئی کے فن میں بھی درجۂ کمال حاصل کیا ان کی قبولیت ہمارے ادبی منظرنامے پر واضح ہے۔ دبستانِ کراچی کی مثال لیجیے، صبا اکبر آبادی، تابش دہلوی، محشر بدایونی،اقبال صفی پوری، وقار صدیقی، حنیف اسعدی، راغب مرادآبادی، سرشار صدیقی، صہبا اختر، اُمید فاضلی، سلیم کوثر، قمر ہاشمی، قمر وارثی، عزیز احسن، اعجاز رحمانی، جمیل نقوی، جاذب قریشی، اختر لکھنوی، افسر ماہ پوری، اقبال حیدر، انعام گوالیاری، اسماعیل انیس، خیال آفاقی، حمیراراحت، خورشید احمر، سید معراج جامی، حیرت الٰہ آبادی، شاعر لکھنوی، صبا متھراوی، سہیل غازی پوری، افتخار عارف، روشن علی عشرت، قمر جلالوی، قیصر نجفی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، قصری کانپوری، مبارک مونگیری، ماجد خلیل، ع س مسلم، منظر ایوبی، جاوید منظر، مہر وجدانی،ناصر کاسگنجوی، مقبول نقش، نگار فاروقی، وسیم فاضلی، کرارنوری، رفیع الدین راز اور شاعر علی شاعر جیسے شعرا نے دیگر موضوعات کے ساتھ اپنے نعتیہ مجموعے بھی پیش کیے اور اس طرح اس مسئلے کے حل کی طرف پیش قدمی کی۔ ناموں کی یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی تھی مگر یہاں مقصود صرف مثال پیش کرنا تھا۔ نعت یقیناًحصول ثواب اور نجاتِ اُخروی کا وسیلہ بھی ہے لیکن آج یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بات یہیں ختم ہو گئی۔ آج نعت گوئی حسن کلام کی بھی آخری منزل کے درجے تک پہنچ چکی ہے۔ بات یہ ہے کہ وہ ذاتِ گرامی جو حسن جمال و کمال اور توازن کی آخری مثال ہے جس نے گفتگو و کلام کے آداب متعین فرمائے۔ اس کا ذکر بھی ذکر کرنے والوں کے کلام کو اسی کے قائم کردہ معیار کے مطابق بنا دیتا ہے۔
نظم ہستی میں توازن کے لیے
ساری دنیا اور تنہا مصطفی
(تابش دہلوی)
اس کو کہتے ہیں تکمیل انسانیت
ساری اچھائیاں ایک انساں میں
(محشر بدایونی)
محتاط ہیں ہم تذکرۂ عشق نبی میں
بے مشورۂ دیدۂ نم کچھ نہیں لکھتے
(وقار صدیقی)
جب عشق نبی سارے مسائل کو بھلا دے
ہے عزم اسی قیمتی ساعت کی طلب میں
(عزم بہزاد)
تقدیر پہ چھوڑا ہے اس ناقۂ ہستی کو
یہ کعبہ ہے وہ طیبہ دیکھیں تو کہاں ٹھہرے
(سرشار صدیقی)
زمانے اپنے زمانوں کی دھوپ چھاؤں کے ساتھ
ہیں سرنگوں تہہ محراب شہر مصطفوی
(سلیم کوثر)
کریں زیارت سرکار کی دعائیں ہم
مگر وہ ہاتھ وہ آنکھیں کہاں سے لائیں ہم
(شبنم رومانی)
ہشیار کہ چھٹ جائے نہ دامانِ محمدؐ
اس راہ میں بھٹکا تو نہ دنیا کا نہ دیں گا
(فداخالدی دہلوی)
بلند جب سے ہے طیبہ میں گنبدِ خضرا
زمیں پہ جھکنا عبادت ہے آسماں کے لیے
(افسر ماہ پوری)
دامن میں آپ کے ہیں دو عالم کی وسعتیں
ہر زاویے سے سورۂ رحمن آپ ہیں
(سحر انصاری)
آپ کے اور محاسن بھی ہیں بے حد و شمار
حسن یوسف، دمِ عیسیٰ، ید بیضا کے سوا
(جمیل نقوی)
(جاری ہے)

حصہ