(میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ۔۔۔۔؟(اُم سمعیہ

257

آج گھر میں بہت رونق تھی، ہر طرف چہل پہل تھی۔ امی کچن میں مصروف تھیں۔ مختلف خوشبوئیں اُٹھ رہی تھیں۔ گھر میں سب تیاری میں مگن تھے۔ دوپہر کے کھانے میں پکنک کا نعرہ بلند ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے تکمیل کے ارادے کو پہنچ گیا۔ کوئی جوتے کا نعرہ مار رہا ہے کہ میرا جوتا کہاں ہے۔۔۔تو کوئی کپڑے تبدیل کرنے باتھ روم کی طرف رواں۔ ابو اپنی گاڑی کی صفائی میں مگن۔ ہر کوئی پکنک کی دھن میں گرفتار۔
میں گھر والوں کی طرح فارغ نہ تھا۔ میٹرک کے امتحان میں چند دن تھے، مگر اِفرا اور عادل کی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی اور میں کپڑے تبدیل کرنے باتھ روم کی طرف چلا۔ ٹھیک پانچ بجے ہم سب تیار ہوکر گاڑی میں کھانے پینے کا سامان رکھنے لگے۔ صرف بیس منٹ کی ڈرائیو پر گلشن پارک تھا۔ سارے راستے پھولوں نے استقبال کیا۔ چوراہے پر لدے پھول مسکرا کر ہر آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کررہے تھے۔ ہم مناظر کو دیکھنے میں محو تھے۔ ڈھلتے سورج سے حسین شام تخلیق ہورہی تھی، مگر سارے رستے اِفرا اور عادل کی نوک جھوک جاری رہی۔ ہم پانچ بج کر بیس منٹ پر پارک کے دروازے پر تھے۔ ٹکٹ لینے کی ذمے داری مجھے سونپی گئی اور ابو گاڑی پارک کرنے چلے گئے۔ آج کچھ زیادہ ہی گہماگہمی تھی، یقیناًآج والدین بچوں کی پڑھائی سے آزادی کا دن منارہے ہیں۔ پیپر میں بچوں کے ساتھ والدین بھی مشکل میں ہوتے ہیں اور آج ایسٹر کا بھی دن تھا۔ یہاں تمام بچے بے حد خوش نظر آرہے تھے۔ کچھ بچوں نے چمکیلے بھڑکیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بچوں کے شور، دھوپ چھاؤں اور پھولوں کی رنگت نے ماحول کو مزید حسین بنادیا تھا۔ میں ان مناظر سے محظوظ ہورہا تھا۔ کبھی اِفرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی، کبھی عادل جھولے کے زور سے دھکے کا مطالبہ کرتا۔ اسی اثنا میں ایک گیند اُچھلی اور تیس فٹ دور کانٹوں میں جا گری۔ زرق برق کپڑوں والی بچی نے اِلتجائی نظروں سے میری جانب دیکھا، جیسے کہہ رہی ہوکہ بھائی جان، مجھے وہ گیند لادیں۔ میں لینے کے لیے دوڑا۔ ابھی میرا ہاتھ کانٹوں میں تھا کہ ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ آگ کے شعلے۔۔۔دھواں ہی دھواں۔۔۔ میں زور سے زمین پر گرا، ہوش و حواس سے بے گانہ۔۔۔کچھ دیر تک ایسے ہی پڑا رہا۔ ہر طرف چیخ و پکار۔۔۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں مَیں اِفرا، عادل اور امی ابو کی تلاش میں دوڑا۔۔۔چیخا۔۔۔ ہر طرف آہ وپکار تھی، سب دیوانہ وار بھاگ رہے تھے، چیخ رہے تھے، قیامت سے کم منظر نہ تھا۔ میں دیوانہ وار اِدھر سے اُدھر بھاگ رہا تھا۔ آگ اور خون کے مناظر میرے سامنے تھے، مجھے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔
میں چیخ رہا تھا: اِفرا۔۔۔عادل۔۔۔
آج اِفرا نے نیا سوٹ پہنا تھا اور انگوٹھی میری لائی ہوئی پہنی تھی۔ بھاگتے بھاگتے اچانک کوئی چیز میرے پاؤں سے ٹکرائی، میں نے دھڑکتی دل سے دیکھا تو اسی انگوٹھی والے ہاتھ پر میرا پاؤں تھا۔ میں نے زوردار چیخ ماری اور اس ہاتھ کو گلے سے لگالیا، مگر اُوندھے منہ زمین پر گرپڑا۔۔۔
جی ہاں سانحہ لاہور سے ہر آنکھ اشک بار ہے ’’میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔؟‘‘ سفاکی کی ایک اور داستان رقم ہوئی۔ ہم بچوں اور اپنوں کے لاشے کب تک اُٹھاتے رہیں گے؟ آخر اس تخریب کاری سے کب نجات ملے گی؟ ہم ان تمام خاندانوں کے دُکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ ہر سانحہ ایک سوالیہ نشان ہمارے لیے چھوڑتا ہے کہ ہمارے حکمراں کیوں اتنے بلند وبانگ دعووں کے بعد عوام کی سیکورٹی میں لاپروائی کرجاتے ہیں؟

حصہ