(ناول(محمد عادل منہاج

246

پھر بھی مقابلے پر اصل میں تو افغان پور کے جاہل لوگ ہیں، جن کا ملک آج بھی پس ماندہ ترین ہے۔ صدر نے کہا۔
سر وہ لوگ جاہل سہی، مگر لڑنے مرنے میں بہت ماہر ہیں۔ وہ تو پہلے بھی ناکارہ بندوقوں کے ساتھ ہمارے مقابلے پر آگئے تھے اور اب تو پاک انہیں تربیت دے رہا ہے اور جدید اسلحہ بھی انہیں وافر مقدار میں مل رہا ہے، صورت حال اتنی آسان نہیں۔ فوج کے سربراہ نے کہا۔
تو پھر یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا، آپ نہیں جانتے کہ اب تو عوام بھی میرے خلاف ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہماری ریاستیں بغاوت پر آمادہ ہیں، اپوزیشن الگ شور مچا رہی ہے۔ یہ سب کچھ بہت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ غم وغصّے سے صدر کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔
سر میرا مشورہ تو یہی ہے کہ افغان پور سے باعزّت واپسی کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ فوج کے سربراہ نے کہا۔
واٹ۔۔۔واپسی ایک سپر پاور کی پسپائی۔۔۔ساری دنیا ہمارا مذاق اڑائے گی۔
آپ سیاسی طور پر کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ شرمندہ ہوئے بغیر ہم وہا ں سے نکل سکیں۔ آپ اشریکا کے صدر سے بات کریں، ورنہ کچھ عرصے بعد اس کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
افسوس، ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا، خیر اب کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ورنہ افغان پور کے ساتھ ساتھ کہیں لاس کی حکومت بھی میرے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ صدر غم سے بڑبڑایا۔
***
اشریکا کے صدر کے سامنے اس وقت اس کی حکومت کے کچھ سینیٹرز بیٹھے تھے۔ سر، آپ جانتے ہیں کہ چند دن بعد سینیٹ میں پھر وہ بل پیش کیا جانے والا ہے، جس کے تحت آپ کو ضمانت دینا پڑتی ہے کہ پاک ایٹمی پروگرام پر عمل نہیں کر رہا۔ ایک سینیٹر بولا۔
یس مسٹر ہڈسن میں جانتا ہوں۔ اشریکا کے صدر نے کہا۔
جناب، ہم چاہتے ہیں کہ اس بار آپ اس بل پر دستخط نہ کریں۔ ہڈسن نے کہا۔
مگر کیوں؟ صدر نے چونک کر کہا۔
وہ اس لیے کہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاک گذشتہ کئی برسوں سے ایٹمی پروگرام پر عمل کر رہا ہے اور آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے اس کی طرف سے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ آپ دھڑا دھڑ اُسے اسلحہ فراہم کررہے ہیں اور اب وہ ایٹمی طاقت سے لیس ہوکر ہمارے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ دوسرا سینیٹر بولا۔
دیکھیں مسٹر جان، آپ جانتے ہیں کہ وہ اسلحہ افغان پور میں استعمال ہورہا ہے، اس لیے اس وقت پاک کی مدد کرنا ہماری مجبوری ہے، ورنہ افغان پور پر لاس کا قبضہ ہوجائے گا، جو ہمیں منظور نہیں۔ اس مرحلے پر ہم پاک کو ناراض نہیں کر سکتے۔ صدر نے وضاحت کی۔
مگر جناب، وہ ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور ایٹمی طاقت بنتا جا رہا ہے۔ اس کا پڑوسی ملک جبرستان بھی ہم سے ناراض ہے کہ ہم پاک کو جو اسلحہ دے رہے ہیں وہ جبرستان کہ خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ جان نے کہا۔
آپ لوگ جبرستان کے ہمدرد ہیں اسے سمجھائیں کہ اب یہ جنگ بس ختم ہی ہونے والی ہے۔ افغان پور میں لاس کا کباڑہ ہو چکا ہے، اس کی معیشت تباہ ہوچکی ہے، اس کی ریاستیں اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہیں، فوج میں بغاوت ہورہی ہے، بس چند مہینوں کی بات ہے پھر لاس کو افغان پور سے نکلنا پڑے گا، اس کے بعد ہمیں پاک کی ضرورت نہیں رہے گی پھر میں اس سے سمجھ لوں گا اور اس کا ایٹمی پروگرام بھی بند کروا دوں گا۔ صدر نے وعدہ کیا۔
بہر حال آپ اس سے سختی سے پیش آئیں، اس کا ایٹمی پروگرام اور آگے نہیں بڑھنا چاہیے ورنہ جبرستان اس پر حملہ کردے گا۔ ہڈسن نے دھمکی دی!!
(جاری ہے)

حصہ