(بچوں کو پر اعتماد بنائیں(محمد علیم نظامی

190

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ 21 ویں صدی ہے، جہاں ٹیکنالوجی کا راج ہے تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں کو ٹیکنالوجی کے بارے میں علم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اعتماد بھی ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے سامنے اظہارِ رائے کرسکیں۔ وہ لوگوں کے سامنے بات کرنے سے گھبرائیں نہیں، ہچکچائیں نہیں۔ اس حوالے سے اسکول میں اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو کلاس میں پُراعتماد بنائیں۔ اس طرح، اساتذہ کو یہ بھی علم ہوسکے گا کہ بچے کیا سوچتے ہیں؟ لیکن یہ ذمے داری صرف اساتذہ پر عائد نہیں ہوتی بلکہ والدین کو بھی یہ کام کرنا چاہیے۔ ہم آپ کو کچھ ایسے طریقے بتارہے ہیں، جن پر عمل کرتے ہوئے آپ اپنے بچوں کو پُراعتماد بناسکتے ہیں:
*بچوں کی باتیں سنیں۔ بہت سارے بچے ایسے ہوتے ہیں جو صرف اساتذہ اور دوستوں کے سامنے ہی نہیں بلکہ خود آپ کے سامنے بھی بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ بطور والدین آپ جو کام کرسکتے ہیں، وہ یہ کہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، اُن کی بات سنیں اور اپنی بات سنائیں۔ ان سے ایسے تعلقات قائم کریں کہ وہ آپ سے ساری باتیں کرسکیں۔
* اگر آپ کا بچہ لوگوں سے گھبراتا ہے تو اُسے لوگوں سے ملوائیں تاکہ وہ اُن کے ساتھ گھل مل سکے اور اس کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ بچوں کو گھر میں قید کرکے نہ رکھیں۔ ان کی خاموشی اور لوگوں سے گھبرانے کی ایک بنیادی وجہ ہر وقت گھر میں رہنا بھی ہوتی ہے۔
* کوشش کریں کہ آپ کا بچہ دن میں کچھ وقت باہر دوستوں کے ساتھ بھی گزارے (دوستوں کا اچھا ہونا ضروری ہے)۔ اس طرح وہ نہ صرف جسمانی طور پر فٹ رہے گا بلکہ لوگوں سے بات کرتے وقت پُراعتماد بھی ہوگا۔
nn
ہاتھی دانیال احمد
ایک ہاتھی اپنی ماں سے بولا
کیوں کر میں نہیں ہوں پتلا
لوگ پسند نہیں کرتے موٹا
ماں اپنے بیٹے سے بولی
شکر کرو تم اپنے رب کا
اس نے دیا ہے تم کو یہ چہرا
ہاتھی بولا ایسا ویسا
ماں نے سنایا اس کو قصہ
کام بڑا انجام بڑا ہے
ہاتھی بولا اپنی ماں سے
آپ کی بات نہ ٹالوں گا
آپ کی بات ہی مانوں گا
nn
مسکرائیے!
استاد نے علی سے پوچھا: ’’آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
علی بولا: ’’میرے ابو وکیل ہیں‘‘۔
استاد نے پوچھا:’’اور عمر آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
عمر نے کہا: ’’سر، میرے ابو ڈاکٹر ہیں‘‘۔
استاد نے کہا: ’’عمران، آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟‘‘
عمران بولا: ’’سر میرے ابو وہی کرتے ہیں، جو امی کہتی ہیں‘‘۔
(مرسلہ۔۔۔ ندا جاوید)
***
ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے ایک مسافر نے جب بل دیکھا تو سر پیٹ کر رہ گیا۔ بل اس کی توقع سے بہت زیادہ تھا۔ مجبوراً ادائیگی کرکے جب وہ جانے لگا تو ہوٹل کے منیجر نے رسماً پوچھا: ’’آپ ہوٹل کے بارے میں کوئی مفید مشورہ دینا چاہیں، تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے‘‘۔
مسافر نے جل کر جواب دیا: ’’آپ نے تختی پر لکھ رکھا ہے کہ آپ کوئی چیز بھول کر تو نہیں جا رہے ہیں! تو اس کے نیچے یہ لکھ دیں کہ آپ کے پاس کوئی چیز باقی تو نہیں رہ گئی ہے!‘‘
(مرسلہ۔۔۔ نبیل خان)
***
دو دوست بہت دن بعد ملے۔ پہلے دوست نے کہا: ’’تمہارے جوتے بہت اچھے ہیں، کب خریدے؟‘‘
دوسرے دوست نے جواب دیا: ’’کیا بتاؤں، آج سے تین برس پہلے خریدے تھے، دو بار مرمت کرائی، تین بار مسجد میں تبدیل کیے، پھر بھی نئے معلوم ہوتے ہیں‘‘۔
(مرسلہ۔۔۔ہما عزیز)
nn
جملوں میں چھپے جانور ڈھونڈلیں مدیحہ عزیز
(1) قاسم چھری سے سیب کاٹ رہا ہے۔
(2) کھانا کھانے کے بعد یامین ڈکار لے رہا ہے۔
(3) گڑیا! دروازہ بند رہنے دو!
(4) رفعت تَلی ہوئی مچھلی سے بہت چِڑتی ہے۔
(5) زیب رانی کے لیے آئس کریم لینے گئی۔
nn

ملک پاک کے صدر اپنے آفس میں بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ کچھ ہی دیر انتظار کے بعد دروازہ کھلا، انہوں نے چونک کر دیکھا اور بولے:
’’آئیے کرنل خرم مراد، میں آپ ہی کا انتظار کررہا تھا۔‘‘
’’خیریت تو ہے سر؟‘‘ خرم مراد بولے۔
’’ہاں سب خیریت ہی ہے، آپ تشریف رکھیں۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ آج کل افغان پور پر لاس کے قبضے کی وجہ سے ہم کتنے پریشان ہیں۔‘‘
’’جی سر، مجھے تمام حقائق کا علم ہے، ہماری سرحدیں اس وجہ سے غیرمحفوظ ہوچکی ہیں۔‘‘
’’اب ایک نئی صورت حال سامنے آئی ہے، آپ جانتے ہیں گزشتہ دنوں اشریکا کے نائب صدر دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں ہماری مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘
’’مدد، کس قسم کی مدد؟‘‘ خرم مراد نے چونک کر کہا۔
’’ہر طرح کی مدد۔۔۔ وہ اپنا جدید ترین اسلحہ تک ہمیں دینے کو تیار ہے، تاکہ ہم افغان پور کے لوگوں کو ٹرینڈ کرکے لاس سے لڑا سکیں۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’مگر اس سے اشریکا کو کیا فائدہ ہوگا؟ معاف کیجیے گا۔۔۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اشریکا ہر کام اپنے مفاد کے لیے کرتا ہے۔‘‘ خرم مراد بولے۔
’’ہاں میں جانتا ہوں، اس میں اُس کا بھی فائدہ ہے۔ اصل میں وہ لاس کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے۔ آپ کو پتا ہی ہے کہ لاس اور اشریکا دونوں سپر پاور ہیں اور دونوں دنیا پر اپنا تسلط چاہتے ہیں، ہمیں اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر ہم اشریکا کی مدد سے لاس کو افغان پور سے نکال دیں تو اس طرح ہماری سرحدیں محفوظ ہوجائیں گی۔‘‘ صدر نے کہا۔
’’جی ہاں، یہ تو ہے، مگر آپ ان سے ہر بات اچھی طرح طے کرلیں کہ لاس کو نکالنے کے بعد وہ کوئی اور مطالبہ نہ کریں۔‘‘ خرم مراد نے کہا۔
’’بالکل، ہم ہر کام سوچ سمجھ کر کریں گے۔ اشریکا تو اس کام کے لیے ہمارے ملک میں اپنے آدمی متعین کرنا چاہتا تھا، مگر ہم نے انکار کردیا کہ وہ ہمیں صرف اسلحہ سپلائی کرے، آگے افغان پور تک ہم خود پہنچائیں گے۔ ہمیں اشریکا کو افغان پور میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔‘‘
’’پھر تو ٹھیک ہے، اس سے ڈیل ہوسکتی ہے۔‘‘ خرم مراد نے کہا۔
’’بس پھر میں ان سے فائنل بات کرتا ہوں اور اس سارے معاملے کا انچارج میں آپ کو بنارہا ہوں۔آج سے یہ مہم آپ کے حوالے ہے۔‘‘ صدر نے کہا اور خرم مراد نے انہیں سیلوٹ کرکے رخصت ہوگئے۔
***
’’اب آپ لوگ اسلحہ کے استعمال میں کافی ماہر ہوچکے ہیں، امید ہے کہ اب آپ لاس کا بہتر طریقے سے مقابلہ کرسکیں گے۔‘‘ خرم مراد بولے۔ ان کے ساتھ اس وقت افغان پور کے بہت سے لیڈر موجود تھے۔
’’ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔ آپ کے ملک پاک کی حمایت اور مدد کی وجہ سے ہمیں لاس کے خلاف بہت اہم کامیابیاں ملی ہیں اور اب اس کے قدم اکھڑنے شروع ہوگئے ہیں۔‘‘ ایک لیڈر نے کہا۔
’’ان شاء اللہ، اور بھی کامیابیاں ملیں گی اور لاس کو جلد ہی افغان پور سے بھاگنا پڑے گا۔‘‘ عامر بن ہشام بولے۔
’’ہم عامر بن ہشام کے بھی شکرگزار ہیں کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں ہمارا ساتھ دینے آئے ہیں۔‘‘ ایک اور لیڈر نے کہا۔
’’دنیا کے کسی بھی حصے میں جب کسی مسلمان پر افتاد پڑے تو باقی مسلمانوں پر اُس کی مدد کرنا فرض ہوجاتا ہے، اور میں تو بحیثیت ایک مسلم اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔‘‘ عامر بن ہشام بولے۔
’’بس اب آپ لوگ لاس کی فوجوں پر پے درپے حملے شروع کردیں تاکہ وہ بوکھلا جائے، اسلحہ آپ کو مسلسل ملتا رہے گا۔ اُمید ہے جلد ہی مزید خوش خبریاں سننے کو ملیں گی۔‘‘ خرم مراد نے کہا۔
***
لاس کے دارالحکومت میں ایک اہم میٹنگ جاری تھی۔ ’’ہمیں افغان پور میں فوجیں داخل کیے کئی برس ہوچکے ہیں، مگر اب تک ہم اس پر قبضہ نہیں کرسکے، ایک سپر پاور فوج مٹھی بھر لوگوں پر قابو نہیں پاسکی، یہ کتنے افسوس کا مقام ہے۔‘‘ لاس کا صدر ناگواری سے کہہ رہا تھا۔
’’سر، آپ تو جانتے ہیں کہ افغان پور تنہا نہیں، پاک اس کی پشت پر ہے اور اسے براہِ راست اشریکا سے اسلحہ مل رہا ہے۔ اگر اشریکا درمیان میں نہ ہوتا تو ہم کئی برس پہلے ہی افغان پور پر قبضہ کرچکے ہوتے، مگر اب ایک طرح سے ہمارا مقابلہ اشریکا سے ہے۔‘‘ برّی فوج کے سربراہ نے کہا۔
(جاری ہے)

حصہ