(نیت شوق(ہاجرہ رحمن

218

میرا تو ہمیشہ سے یہی المیہ رہا کہ جو کام کرنے کے تھے، نہیں کیے، اور جو کام نہیں کرنے تھے وہ بھی نہیں کیے۔۔۔ کردہ اور ناکردہ کے درمیان ایک ایسا طویل سفر درپیش رہا کہ اب پلٹ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے جیسے میں نہیں، کوئی اور ہی اب تک سفر میں تھا۔۔۔ یہ کیا۔۔۔! نہ میری سانس ہی پھولی ہوئی ہے اور نہ ہی آنکھوں میں کوئی تھکاوٹ ہے۔۔۔ جب نوکری کرتی تھی تو خود کو کوستی تھی کہ دنیا اپنے گھر میں رہتی ہے، اُسے سنوارتی بناتی ہے، اور میں دردر کی خاک چھانتی رہتی ہوں۔۔۔ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھی تو بھی دن بھر سوائے دیواروں سے سر ٹکرانے کے، کرتی ہی کیا ہوں۔۔۔! ٹھیک ہی کہتے ہیں میرے شوہر صاحب کہ مجھ میں ’’مَیں‘‘ بہت ہے۔۔۔ بس اپنے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔ کبھی دنیا کی بھی فکر کی، کبھی سوچا کہ کون کون سی دریافتیں کرکے دوسرے ممالک آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں، لوگ کیسی کیسی تعلیم حاصل کرکے لاکھوں کما رہے ہیں، اسٹینڈرڈ بنا رہے ہیں۔۔۔ اور میرا اسٹینڈرڈ۔۔۔ تف ہے مجھ پر۔۔۔ مجھ پر تو یہ لفظ ’’اسٹینڈرڈ‘‘ آکر کچھ لنڈے بازار سے لیا گیا ڈھیلا ڈھالا کوٹ جیسا بن جاتا ہے، اور پھر دور سے ہلکی ہلکی آتی میڈم نورجہاں کی گنگناتی آواز نے باقاعدہ اپنا آپ منوا لیا۔۔۔
گلی گلی میں میری رسوائیوں کا ساتھی ہو۔۔۔
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو۔۔۔
توبہ ہے، یہ شاعر لوگ بھی ناں۔۔۔ ہم جیسے دیوانوں کو اور بھی دیوانہ بنادیتے ہیں۔۔۔ میں نے لاؤنج میں بجنے والے ریڈیو کی آواز ہلکی کردی اور توقع کرتی رہی کہ یہیں کہیں کونے کھدرے سے وہ سر نکالے گا۔۔۔ اس کی یہی پہچان تھی۔۔۔ جہاں ہوتا، اس کا ریڈیو اسی طرح میڈم نورجہاں الاپتا رہتا اور وہ کسی کونے میں گھسا یا پھر کہیں دیوار پر چمٹا کچھ نہ کچھ کررہا ہوتا۔۔۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ میں نے بھی خاموشی سے کچن کا رُخ کیا۔ ساس صاحبہ جلدی جلدی دوپہر کے کھانے کے بعد اٹھائی گئی پلیٹوں سے بچاکھچا کھانا ایک بدرنگی پلیٹ میں ڈھیر کررہی تھیں۔ میں چائے کی رسیا۔۔۔ کیتلی اٹھائی ہی تھی کہ ساس صاحبہ نے جھٹ سے شاید صبح کی بنی ہوئی چائے ایک کپ (جو اپنا رنگ نسل بھول چکا تھا) میں انڈیل لی۔۔۔
’’فیصل کے لیے رکھ رہی ہوں۔۔۔ وہ دوپہر کے کھانے کے ساتھ چائے پیتا ہے ناں۔۔۔‘‘ وہ کچھ توقف کے بعد گویا ہوئیں ’’تمہاری طرح۔۔۔‘‘
ساس صاحبہ نے وہی ٹھنڈی چائے اور پلیٹ پر بچا ہوا کھانا ٹرے میں رکھا اور فیصل کو بآوازِ بلند پکارنے لگیں۔۔۔ وہ اللہ کا بندہ پتا نہیں کہاں سے اچانک نمودار ہوگیا۔۔۔
ساس صاحبہ نے فخریہ ٹرے اُسے تھما دی۔۔۔ میرے گلے میں کچھ اٹک گیا۔۔۔ جیسے دل پر ایک دھچکا سا لگا۔۔۔ میں شرمندگی سے نظریں چرانے لگی۔ وہ کچن میں چوکی گھسیٹ کر کونے میں براجمان بڑے اہتمام سے کھانا جیسا کھانا کھانے لگا۔
’’بھابھی آپ چائے بہت پیتی ہیں، صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتی، ہر وقت چائے۔۔۔ اتنی چائے۔۔۔‘‘ اس نے ایک دو نوالے خاموشی سے کھانے کے بعد کہا۔ میں، جو اب تک چائے دو کپ میں انڈیل چکی تھی، مسکراکر رہ گئی۔ میں نے ایک کپ اس کی طرف بڑھا دیا۔۔۔ وہ دم بخود رہ گیا ’’کیا بھائی صاحب کو دے آؤں۔۔۔؟ پر وہ تو سو رہے ہیں اوپر والے کمرے میں۔ ابھی چند منٹوں پہلے ہی تو دیکھ کر آیا تھا میں۔‘‘
’’یہ تمہارے لیے ہے، گرم اور تازہ۔۔۔‘‘ میں نے ہلکے سے کہا۔
وہ گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور چائے کا کپ لیتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ میں خاموشی سے اوپر جانے کے لیے زینہ چڑھ گئی۔ شام تک ہم واپسی کے لیے نکلے۔ کل پیر ہے اور دو دن سسرال میں گزار کر اب ہم واپس اپنے گھر جارہے تھے۔ راستے میں شوہر صاحب نے بتایا کہ گیلری کی صفائی کے لیے انہوں نے فیصل سے بات کرلی ہے، وہ ایک دو دن میں ہمارے ہاں آئے گا اور گیلری کی صفائی کردے گا۔ انہوں نے مجھے ہدایات دیں کہ اور بھی کچھ کام ہوں تو کروا لوں۔۔۔ مجھے واقعی ایک مددگار کی ضرورت تھی، یوں تو میرے گھر میں کوئی ملازمہ نہیں آتی تھی، میں جب سے نوکری چھوڑ کر بیٹھی تھی گھر کے تمام کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے لگی تھی، مگر ہمارے فلیٹ کی گیلری کچھ اس طرح کی تھی کہ پورا محلہ اس میں جھانک تانک کرتا جاتا تھا، لہٰذا مجھے اکیلے گیلری میں صفائی سے حجاب آتا تھا۔ پھر کچھ چیزیں جو دوچھتی میں پڑی سڑ رہی تھیں اُن کو نکلوا کر کسی کو دینا دلانا تھا، کچھ باہر کے کام۔۔۔ میں دل میں تھوڑی مطمئن ہوگئی۔
فیصل میری ساس صاحبہ کے محلے میں رہتا تھا۔ اس کو کونے والے گھر میں کسی صاحب نے گود لیا تھا مگر بعد میں ان کے انتقال کے بعد سے فیصل کے ساتھ گھر والوں کا رویہ اچھا نہیں تھا۔ وہ اسی طرح محلے والوں کے چھوٹے موٹے کام کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتا تھا۔ ساتویں تک ہی تعلیم حاصل کرسکا تھا۔ دبلا پتلا، لمبا چھریرا بیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔ میں نے ایک دو بار ساس صاحبہ سے پوچھا بھی کہ آخر یہ فیصل کہیں باقاعدہ نوکری کیوں نہیں کرلیتا؟ جس پر انہوں نے یہی بتایا کہ فیصل کے گھر والے نہ تو اس کے تعلیمی سرٹیفکیٹ اس کو دیتے ہیں اور نہ ہی اب تک اس کا شناختی کارڈ بنوایا ہے کہ اس کے لیے خاندان کا نمبر دینا ضروری ہے اور وہ لوگ جائداد کی وجہ سے ایسا کچھ کرنے سے گریزاں ہیں۔۔۔ میں کیونکہ کم ہی سسرال جاتی تھی اس وجہ سے کبھی موقع بھی نہیں ملا تھا کہ فیصل سے پوچھتی۔ وہ ہر کام میں ماہر تھا۔ پینٹ کروا لو، سیمنٹ کروا لو، کارپینٹری میں بھی بہت ماہر۔۔۔ غرض لوگوں کے ہاں صرف ایک وقت کے کھانے کے عوض وہ اچھے سے اچھا کام کرکے دے دیتا تھا، مگر پھر بھی اس کی حیثیت لوگوں کی نظروں میں ایک معمولی کام کرنے والے سے زیادہ نہ تھی۔ وہ سب محلے والوں کا کام ایک طرح سے محنت اور دل سے کرکے دیتا، مگر لوگوں کی نظروں میں نوکر ہی تھا۔ جب کہ ساس صاحبہ نے تو اس کے کھانے اور پینے کے برتن تک علیحدہ کررکھے تھے۔۔۔ شکل، صورت اور قد کاٹھ سے کسی طرح کا معمولی نوکر نہ لگتا تھا، بلکہ مجھے تو اس کے لیے نوکر کا لفظ استعمال کرنا ہی بڑا افسردہ کردیتا تھا۔
ہمارا گھر سسرال سے خاصی دور تھا، میں نے آج تک بس سے سفر نہیں کیا تھا، اس لیے جب فیصل خاصے بوجھل قدموں سے پہنچا تو معلوم چلا کہ اسے ہمارے ہاں آتے آتے تین بسیں بدلنا پڑیں اور دو سے ڈھائی گھنٹے سفر میں لگے۔ میں شرمندہ شرمندہ۔ اصولاً مجھے اُس کے لیے گاڑی بھجوانی چاہیے تھی یا اسے رکشے کا کرایہ دے کر آنا تھا۔۔۔ بہرحال واپسی پر صاحب سے کہوں گی کہ تھوڑی دیر کے لیے ڈرائیور کو روک لیں تاکہ فیصل کو واپسی پر آسانی رہے۔
وہ کمر باندھ کر گیلری میں لگ گیا تھا۔ کئی دنوں سے کبوتروں نے جو انڈے بچے دیے تھے، ان سب کی گندگی کی صفائی جس کو ہماری بلڈنگ میں صفائی کرنے کے لیے آنے والے نے صاف کرنے سے سختی سے انکار کردیا تھا، اس نے تحمل سے سب پر ایک نظر ڈالی اور پھر مجھ سے صفائی کرنے کے لیے ڈٹرجنٹ، جھاڑو اور فنائل مانگا۔ میں نے بھاگ بھاگ کر سب لاکر گیلری میں ڈھیر کردیا۔ اس نے مجھے گیلری سے نکال دیا اور خود گیلری کا دروازہ بند کرکے دھڑادھڑ صفائی میں لگ گیا۔ مجھے اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں نے اُس کے لیے جلدی سے پراٹھے اور آملیٹ بناکر رکھ لیا۔ ایک گھنٹے تک مسلسل پانی، ڈٹرجنٹ اور فنائل سے صفائی کرنے کے بعد وہ گیلری کو چمکا کر مجھے آوازیں دے کر بلانے لگا۔ اس کا ریڈیو ویسے ہی الاپے جارہا تھا:
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو۔۔۔
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو۔۔۔
میں گیلری کی اتنی نفاست سے کی گئی صفائی پر خوشی سے جھوم گئی۔۔۔ اُس نے ایک پرانی پڑی ہوئی کرسی بھی دھو چمکا کر بڑے اہتمام سے ایسی جگہ رکھ دی تھی کہ بے پردگی نہ ہو اور گیلری میں بیٹھا بھی جا سکے۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے بازو سے پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا۔
’’لیں بھابھی یہ جگہ بالکل مناسب ہے، اب اس کونے میں چھپی بیٹھ کر آپ وقت کو گزرتے دیکھیں۔‘‘
یہ کیا ہوا، میرا دل دو ایک بار اپنی ہی دھڑکن میں الجھ گیا تھا۔۔۔ الفا٭۔۔۔ کہاں گئے الفاظ، کدھر جا چھپے، جب بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے کیوں میرے پاس سے رفو چکر ہوجاتے ہیں! کتنی آسانی سے اس نے مجھے پہچان کر میری ہی سچائی کو مجھ سے بیان کردیا تھا اور میں شکریہ تک بھی نہ کہہ سکی۔ میں گھبرا کر بیٹھنے کے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی، اور اس سے پہلے کہ وہ میرے بیٹھنے کی ضد کرتا، میں گیلری سے نکل آئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی واپس آگیا اور خاموشی سے باہر کی طرف جاتی ہوئی گلی میں کھڑا ہوگیا۔ میں کچن سے ٹرے میں اس کے لیے پراٹھے اور آملیٹ لے کر نکلی تو وہ اپنے ریڈیو کے کان مروڑ رہا تھا۔ میں نے ٹرے میز پر رکھ کر اسے آواز دی اور واپس کچن میں چائے بنانے چلی گئی۔ اسی اثنا میں مجھے یاد آیا کہ ایک دو دن پہلے برابر والوں کے ہاں سے باہر کی چاکلیٹ بھی تحفتاً آئی تھیں، میں نے فریج سے ایک دو چاکلیٹ باہر نکال کر واپس لاؤنج کی طرف رخ کیا تو اسے میز کے پاس کھڑے پایا۔
’’کیوں، کیا ہوا؟ کھاؤ ناں، سوری بھئی، میں دوپہر میں کھانا تو کھاتی نہیں، اس لیے تم کو یہی پیش کرسکتی ہوں، ہاں رات تک رکو تو ہمارے ساتھ ہی کھانا کھا کر جانا۔ بس تم کھانا شروع کرو، جب تک میں چائے لے کر آتی ہوں۔‘‘ میں نے مسکرا کر اس کے لیے کرسی میز سے باہر نکال دی۔ اب کی بار وہ گڑبڑا گیا۔
’’بھابھی۔۔۔ میں، یہ کہ۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ اس کے ہکلانے پر مجھے احساس ہوا۔
’’اب کیا کروں، میرے کچن میں چوکی نہیں ہے۔‘‘
اب کی بار میں نے اس کو بازو سے پکڑ کر کرسی پر لا بٹھایا تھا۔ اچانک اس کا ریڈیو چلاّ اٹھا’’میں تیرے سنگ کیسے چلوں۔۔۔‘‘ اس نے جلدی سے ریڈیو کا کان مروڑ کر اسے بے آواز کردیا۔ اس کو میز پر کھاتے دیکھ کر جیسے میرے دل میں کہیں کچھ بہت دھیما سا تیزی سے گزر گیا تھا۔ میں چائے لے کر آئی اور دوسری کرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔۔۔ اب وہ بہت پُرسکون انداز میں کھانا کھا رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کے ہر انداز میں نفاست اور صفائی جھلکتی ہے۔۔۔ چائے پیتے اِدھر اُدھر کی گفتگو کرتے، وقت کا احساس تک نہ ہوا۔ وہ ایک دو بار ہنسا، خوش دلی سے اپنے معمولات بتاتا رہا۔ اس کی واپسی کا وقت ہوچلا تھا، میں نے واپسی کے لیے اس کو رکشے کا کرایہ دینا چاہا تو وہ اکڑ گیا۔
’’ارے تو جاؤ گے کیسے! بس سے تو میں بالکل اجازت نہیں دوں گی۔ ابھی اتنا کام کیا اور اب واپسی ہوتے ہوتے رات ہوجائے گی، اتنی محنت کی ہے، کچھ تو خیال کرو۔‘‘ میں بالکل ہی گڑگڑانے لگی تو وہ زیر لب فخریہ سا مسکرا اٹھا:
’’اچھا اچھا بھئی، میں بس سے نہیں رکشے سے چلا جاؤں گا۔۔۔ بس؟ مگر آپ یہ ظلم نہ کریں۔۔۔ یہ تو پھر کوئی بات ہی نہ ہوئی ناں بھابھی۔۔۔ آخر کو آپ بھابھی ہیں۔‘‘
یوں وہ چلا گیا۔۔۔ اگلے ہفتے ہمیں گھر میں کچھ رشتے داروں کی دعوت کا اہتمام کرنا تھا، لہٰذا سسرال جانا نہیں ہوسکا، اور شوہر صاحب اتوار کے دن صبح صبح دو چار گھنٹے کے لیے ہوکر آگئے۔ مجھے گیلری میں بیٹھا دیکھ کر شوہر صاحب بھی گیلری میں آگئے اور بولے ’’اچھے وقت میں فیصل سے کام کروا لیا ورنہ۔۔۔ اب تو۔۔۔‘‘
میں گھبرا گئی۔۔۔ ’’اب تو کیا۔۔۔؟‘‘
شوہر صاحب نے غور سے مجھے دیکھا اور اچانک ہی قہقہہ لگاکر ہنس پڑے ’’سمجھ گیا، آخری بار آپ کے پاس ہی بھیجا تھا ناں فیصل کو۔۔۔ بس سمجھ گیا۔۔۔ اس بے چارے کے ساتھ تو یہی ہونا تھا۔۔۔‘‘
’’ہم۔۔۔ م۔۔۔م‘‘ میں بے چین سی ہوکر رہ گئی تھی۔ شوہر صاحب ہنسی پر قابو کرتے، بتانے لگے ’’بھئی فیصل کی تو کایا پلٹ ہی ہوگئی، سب سے پہلے تو اس نے ڈیمانڈ کرنی شروع کی کہ جب بھی اسے کھانا دیا جائے صاف ستھری پلیٹ میں اور گرم دیا جائے، ساتھ میں چائے بھی اچھی سی گرما گرم ملے، پھر ڈائننگ ٹیبل یا دستر خوان پر جیسے گھر کے باقی لوگ کھانا کھاتے ہیں ویسے ہی اسے بھی سب کے ساتھ کھانے میں شریک کیا جائے، جب رات گھر لے جانے کے لیے اسے باسی روٹی وغیرہ دی جاتی تھی وہ بھی اس نے واپس کرنا شروع کردی، اس کے چند دن بعد ہی وہ نکڑ کے قسائی کے پاس نوکر ہوگیا۔ اب صبح صبح اٹھ کر قسائی کے ساتھ مل کر بکرے، گائے کا گوشت بیچتا ہے اور دوپہر میں ہوٹل میں گرما گرم کھانا منگا کر کھاتا ہے، اور رات کو دکان میں ہی سوتا ہے۔ اور معلوم ہوا ہے کہ اب رہائش کے لیے مکان اور اپنی دیکھ بھال کے لیے لڑکی بھی تلاش کررہا ہے۔ آپ جیسے لوگوں کا تو یہی وتیرہ ہے، خود تو کچھ کر نہیں پاتے، جو دوسرے سیدھی لائن میں لگے نظر آتے ہیں اُن کو بھی ڈانواں ڈول کرکے چل پڑتے ہیں۔ بے چارا پورا محلہ اب پریشان ہے کہ سب کے گھر کے کتنے ہی کام پڑے رہ جاتے ہیں۔‘‘
شوہر صاحب نے طنز کے ایک دو اور تیر مارکر کمرے کی راہ لی اور میں فیصل کو قسائی کی دکان میں گوشت بناتے، تولتے، ریڈیو پر میڈم نورجہاں کو الاپتے سوچنے لگی۔۔۔
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
گیلری سے زمانہ ویسا ہی بھاگتا، دوڑتا نظر آرہا تھا جیسے ایک منٹ کی دیر بھی نہ جانے کون سا طوفان لے آئے گی۔ میں اچانک مسکرا دی، شاید زندگی میں پہلی بار میں نے وہی کر دکھایا جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔
nn

حصہ