(لیبیا میں کیا ہورہا ہے ؟(ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

345

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور
گزشتہ دنوں جب لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان سپر لیگ کا ہنگامہ برپا تھا اور پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میچ پر پورے پاکستان کی نظریں تھیں، اُس وقت شاید ہی کسی کے ذہن میں یہ بات آئی ہوگی کہ جس شخصیت کے نام سے یہ اسٹیڈیم موسوم ہے اس کا کیا انجام ہوا۔ جی ہاں کرنل معمر قذافی جو چار دہائیوں سے زائد عرصے تک لیبیا کے سیاہ و سفید کے مالک رہے، اُن کی پاکستان کے لیے محبت کی یادگار کے طور پر یہ کرکٹ اسٹیڈیم اب بھی شاد و آباد ہے، لیکن وہ فرد اب اس صفحۂ ہستی سے مٹایا جا چکا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم اور مقبول عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر کرنل قذافی نے پاکستان کا دورہ کیا، اور دونوں رہنماؤں نے اسی اسٹیڈیم میں ایک عوامی جلسہ عام سے خطاب کیا۔ بدقسمتی سے ان دونوں رہنماؤں کا انجام خوشگوار نہ ہوسکا۔ ایک کو اپنے ہی مقرر کردہ جنرل کے ایما پر سپریم کورٹ کے حکم پر پھانسی دے دی گئی، اور دوسرا اپنے ہی وطن میں انتہائی کسمپرسی کی کیفیت میں اپنے لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا۔
لیبیا براعظم افریقہ کا چوتھا بڑا ملک اور عالمی سطح پر تیل کی پیداوار میں 10فیصد حصہ ڈالنے والا ملک ہے۔ 17لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل طویل و عریض ملک جو زیادہ تر ریگستانی علاقے پر مشتمل ہے، کی آبادی 65 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ لیبیا تین صدیوں سے زائد عرصے تک خلافتِ عثمانیہ کا حصہ رہا تھا، اور اس کے زوال کے بعد اطالوی استعماری طاقت کی کالونی بن گیا۔ جنگِ عظیم کے بعد کچھ عرصے تک برطانوی اور فرانسیسی مشترکہ کمان میں رہا۔ 1951ء میں اس کو آزادی ملی اور شاہ ادریس السنوسی کی حکومت قائم ہوئی۔ 1969ء میں 29 سال کی عمر میں کرنل قذافی کی قیادت میں فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا اور عوامی حکومت کے نام پر اس کی مطلق العنان آمریت کا سلسلہ شروع ہوا، جو بالآخر 2011ء کی’’عرب بہار‘‘ کی عوامی بیداری کا شکار بنا۔ اس طرح مصر، تیونس، مراکش کے بعد لیبیا بھی اُن عرب ممالک میں شامل ہے جہاں ’’عرب بہار‘‘ نامی تحریک کے نتیجے میں قیادت کی تبدیلی عمل میں آئی ہے۔ البتہ یہ تبدیلی اب تک لیبیائی عوام کو راس نہیں آئی، اور عراق، شام، مصر اور یمن کی طرح لیبیا بھی افراتفری اور خانہ جنگی کا شکار ہے۔
کرنل قذافی جو 1940ء میں لیبیا کے ایک شہر سرتے میں پیدا ہوئے، طالب علمی کے دور سے اُس زمانے کی مقبول فکری تحریکوں سوشلزم اور قوم پرستی سے متاثر تھے۔ انہوں نے جس وقت لیبیا کی شاہی فوج میں بطور افسر شمولیت اختیار کی تو جلد ہی اپنے ہم خیال افسروں کا ایک گروپ بنالیا، اور 1969ء میں ایک مربوط حکمت عملی کے ساتھ شاہ ادریس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اور پھر ایک طویل عرصے تک اپنی ایک مضبوط حکومت قائم رکھی۔ انہوں نے جنرل پیپلز کانگریس کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بھی قائم کی اور ایک عرصے تک اس کے جنرل سیکرٹری رہے۔ شروع میں وہ کٹّر سوشلسٹ خیالات کے حامل تھے، لیکن آہستہ آہستہ اس سے دور ہٹتے چلے گئے اور پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نظریہ پیش کیا۔ کرنل قذافی جو اپنے آپ کو ابومنہار کہلواتے تھے، ایک مقبول اور نت نئے تجربات کرنے والے رہنما کے طور پر مشہور تھے۔ انہوں نے ملکی قانون کی بنیاد شریعت کو قرار دیا اور ملک کو جمہوریہ۔ انہوں نے ’’گرین بک‘‘ یعنی سبز کتاب تحلیق کی اور 1977ء میں اسلام، جمہوریت اور سوشلزم کا ملغوبہ بناکر ایک نئی طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنے لیے ’’برادر رہنما‘‘کا خطاب پسند کیا۔ وہ صحرا میں ایک خیمہ لگا کر رہتے تھے اور اس طرح کے عجیب وغریب تجربات کرتے رہتے تھے۔ عوامی مفاد میں وہ صحت و تعلیم کے نظام کو توسیع دیتے رہے۔ لیکن کسی قسم کی اپوزیشن اور اختلاف کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اپنی حفاظت کے لیے خواتین فوجیوں پر مشتمل فورس قائم کی۔ خارجہ سطح پر انہوں نے کئی تجربات کیے۔ مصر اور سوڈان کے ساتھ مل کر عرب جمہوریہ کا اعلان کیا اور کئی مرتبہ اس قسم کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ پہلے مصر کے مردِ آہن جمال عبدالناصر کے مداح تھے، لیکن پھر بعد میں سخت دشمن بن گئے۔
مجموعی طور پر وہ امتِ مسلمہ کے ایک مقبول رہنما تھے اور ہر جگہ مسلمانوں کی مزاحمتی اور آزادی کی تحریکوں کی مدد کرتے رہے۔ مثلاً فلپائن کے مورو مسلمانوں، تھائی لینڈ کے فتانی مسلمانوں اور برما کے روہنگیا مسلمانوں کی مالی اور مادی امداد کرتے رہے۔ وہ پاکستان کی بھی مالی اور مادی امداد کرتے تھے۔ اسی حوالے سے انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں بھی تعاون کیا اور پاکستان سے بڑی تعداد میں مزدور بھی لیبیا منگوائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں ایک مقبول رہنما اور دوست کی حیثیت سے معروف تھے۔ اُن کے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات بھی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ دوستی انہوں نے ان کی پھانسی کے بعد بھی قائم رکھی اور ان کے بچوں کو سپورٹ کرتے رہے۔ مرتضیٰ بھٹو کی قائم کردہ مسلح ’’الذوالفقار‘‘ تنظیم کو بھی انہوں نے اسپانسر کیا۔ اسی طرح پاکستان کی ایک اور سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت العلماء اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ان کی رفاقت رہی اور آخر وقت تک ان کو سپورٹ کرتے رہے۔
لیبیا نے خفیہ طور پر خود بھی ایٹمی طاقت بننے کی کوشش کی لیکن ہر طرح کی کوشش کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکا نے لیبیا کی نیوکلےئر ٹیکنالوجی میں معاونت پر پاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں پر الزامات بھی لگائے اور لیبیا پر اقتصادی پابندیاں بھی لگائی گئیں۔ اس دوران ایک امریکی فضائی کمپنی کے مسافر طیارے میں بم دھماکے کا الزام بھی کرنل قذافی پر لگایا گیا اور بالآخر مسافروں کو ہرجانے کی ادائیگی ان کو کرنی پڑی، اور اس میں ملوث مجرموں کو امریکا کے حوالے کرنا پڑا۔ اپنے دورِ حکومت کے اختتامی سالوں میں کرنل قذافی نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور نیوکلیئر پروگرام کو ختم کرنے کا اعلان کیا، اور پورپی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ وہ یورپی ممالک کے دورے کرتے، مہنگے ترین ہوٹلوں میں اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ قیام پذیر ہوتے اور غیر ملکی دوستوں کو قیمتی تخائف سے نوازتے۔
ان تمام کاموں کا کریڈٹ ان کے صاحبزادے اور ممکنہ جانشین سیف الاسلام کو بھی جاتا ہے جو دنیا کے مالدار ترین افراد میں شامل تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے بین الاقوامی تعلقات بھی بہت مشہور تھے۔ وہ اپنی کئی گرل فرینڈز کو بیش قیمت تحائف دینے کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہوئے تھے جن میں ایک اسرائیلی ماڈل اور اداکارہ بھی شامل تھی۔ وہ یورپی ممالک میں ایک بگڑے ہوئے رئیس زادے کی شہرت رکھتے تھے جو قانون شکنی میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ مثلاً پیرس کی مصروف شاہراہ پر حدِّ رفتار سے کئی گنا بڑھ کر کار چلانے کا شوق۔
کرنل قذافی کا دورِ اقتدار دسمبر 2011ء میں عوامی تحریک کے نتیجے میں ختم ہوگیا۔ اس عمل میں کئی ماہ لگے تھے اور کرنل قذافی کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ مفاہمت کرکے باعزت طور پر رخصت ہوسکتے تھے، لیکن ہر ڈکٹیٹر کی طرح وہ بھی نوشتۂ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے اور نشۂ اقتدار میں مبتلا ہوکر اپنے مخالفین کو چوہے قرار دیتے رہے، جن کو وہ اپنے جوتوں تلے مسل سکتے ہیں۔
جب ان کے مخالف گروہ نے لیبیا کے اکثر و بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا اور ان کا اقتدار صرف دارالحکومت ٹریپولی کے قرب و جوار میں رہ گیا تو اُس وقت بھی ملک سے راہِ فرار اختیار کرنے یا مصالحت کرنے کے بجائے وہ اپنی فوجی طاقت پر تکیہ کرتے رہے۔ ان کی فضائی قوت کے مقابلے کے لیے امریکی قیادت میں NATO افواج نے مخالف گروہ کی مدد کی اور لیبیا کو نو فلائی زون قرار دیا۔ بالآخر وہ حکومت چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے سرتے میں روپوش ہوگئے، لیکن کچھ عرصے بعد مارے گئے۔ البتہ ان کا بیٹا سیف الاسلام کچھ عرصہ پہلے تک خفیہ مقام پر وقت گزارتا رہا لیکن 3 ماہ پہلے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زخمی حالت میں پکڑا گیا، اور اب سرکاری جیل میں محبوس ہے۔
اس وقت لیبیا سیاسی لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم ہے اور تین قسم کی حکومتیں وہاں چل رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے سرکاری طور پر جس حکومت کو تسلیم کررکھا ہے اُس کے سربراہ فیض السراج ہیں جن کی عمر اس وقت تقریباً73سال ہے۔ اس حکومت کا دارالحکومت ٹریپولی ہے۔ ایوانِ نمائندگان کے صدر اگولا صالح عیسیٰ ہیں، جب کہ تبروک کے وزیراعظم عبداللہ التانی ہیں۔ دوسرے وزیراعظم عمرالہسی ہیں۔ ایک منتخب پارلیمنٹ بھی ہے۔ بن غازی میں جو ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے، علیحدہ حکومت قائم ہے۔ ملک کے چند ساحلی علاقوں اور تیل کے ٹرمینل پر انتہا پسند داعش تنظیم کا قبضہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی علاقوں پر مختلف مسلح گروہوں کا راج ہے۔ لیکن لیبیا کی خانہ جنگی کے میدان میں گزشتہ دو سال سے ایک نیا عنصر جنرل خلیفہ ہفتار کا داخلہ ہے، جن کو مصر کے صدر جنرل عبدالفتاح السیسی کی مکمل تائید اور معاونت حاصل ہے۔ دیگر خلیجی ممالک بھی ان کی حمایت کررہے ہیں، اور ان کی پشت پر روس ہے جو بہت عرصے بعد شمالی افریقہ میں اپنے اثر رسوخ کو بحال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ جنرل خلیفہ ہفتار کی فوجوں نے ملک کے مشرقی حصوں پر جو مصرسے ملحقہ علاقے ہیں، اپنی عملداری قائم کردی ہے اور بن غازی کی طرف پیش قدمی کررہی ہیں۔ جنرل ہفتار نے 1999ء میں کرنل قذافی کی حمایت ترک کرکے جلاوطنی اختیار کی اور امریکا میں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ لیکن 2011ء میں پراسرار انداز میں اُن کی واپسی ہوئی ہے۔ ان کے آنے کا بظاہر مقصد انتہا پسند اسلامی تنظیموں بشمول داعش کا قلع قمع کرنا ہے۔ لیکن اقوام متحدہ نے امریکی حمایت سے فائزالسراج کی حکومت کو تسلیم کررکھا ہے اور دیگر گروپوں سے مذاکرات کرواکے اس کی ٹریپولی واپسی کو یقینی بنایا ہے جہاں ایک بحری اڈے میں حکومت کام کررہی ہے۔ لیکن اس ساری بین الاقوامی حمایت کے باوجود یہ حکومت کمزور ہے اور پورے ملک پر اپنی عملداری قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے جنرل ہفتار کے پاس موقع ہے کہ وہ قیادت کے اس خلا کو پُر کریں۔ البتہ وہ خود بھی گزشتہ دو سال میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں، اور جن علاقوں پر انہوں نے قبضہ کیا ہے، اسے برقرار رکھنا بھی ان کے لیے مشکل ہے۔ یہ ساری تگ و دو لیبیا کے سب سے بڑے قدرتی خزانے خام تیل کے سرچشموں پر قبضہ کرنے کے لیے ہے۔ دنیا میں تیل کے 10فیصد ذخائر مصدقہ طور پر لیبیا میں موجود ہیں جن کا بہت کم حصہ اس وقت مارکیٹ میں جا رہا ہے۔ ان ذخائر پر عالمی طاقتوں کی نظریں ہیں۔ امریکا کے صدارتی بحران کی وجہ سے روس کو موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے مصر اور لیبیا پر اپنا اثررسوخ دوبارہ قائم کرے۔ امتِ مسلمہ ایک مرتبہ پھر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگی یا اپنا تشخص قائم کرسکے گی، آنے والا وقت اس کا فیصلہ کرے گا۔
صدر ٹرمپ کی آمد کے ساتھ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر میں بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر دیکھی جاسکتی ہے۔ بے خدا اور نسلی تفاخر کی بنیاد پر استوار مغربی تہذیب کے ایسے کردار وقتاً فوقتاً صفحۂ ہستی پر ابھرتے ہیں، انسانیت کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کر کے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ یوں سالہا سال تک اس کے نتائج یا اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا نوعِ انسانی بھگتتی رہتی ہے۔
امریکی حکومت اور اس کے عالمی کردار کے بارے میں اضطراب اور احتجاج کا سبب لوگوں اور قوموں کے مزاجوں میں کوئی رچی بسی امریکا دشمنی یا مخاصمت نہیں ہے۔ یہ وہی ملک اور لوگ ہیں، جو امریکا کی طرف اس اْمید سے دیکھتے تھے کہ یہ عصرِحاضر میں جمہوری اور دستوری دور کا آغاز کرنے والی ریاست ہے، جو بین الاقوامی سیاسی اْفق پر جمہوریت، حقوقِ انسانی اور قوموں کے حق خود ارادیت کی علَم بردار بن کر جلوہ گر ہوئی تھی۔ اور یہ ایک ایسی ریاست ہے جو کسی خاص نسل کا وطن نہیں تھی، بلکہ دنیا کی بہت سی نسلوں نے جس کی صورت گری کی تھی، اور جس کی تعمیر میں محض اس ملک ہی کے نہیں، دنیا بھر کے بہترین دماغوں نے سائنسی تحقیق سے انسانیت کو صحت مند بنایا اور اسے قوت عطا کی۔ افسوس کہ دنیا بھر کے بہترین دماغوں کی ایک لگن کے ساتھ کی جانے والی تحقیق کے ثمرات کو، امریکی مقتدر قوتوں نے دنیاپر دھونس جمانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا، اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کی داعی بننے کے بجاے ایک استعماری قوت ( Imperial Power) کا کردار ادا کرنے لگی۔ دنیا اگر آج امریکا سے خو ف زدہ ہے اور اس کے حکمرانوں اور پالیسیوں سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے تو یہ نتیجہ ہے ان پالیسیوں اور اقدامات کا، جن کی دنیا ستم زدہ ہے۔
حالات کی صحیح تفہیم کے لیے اس امر کا اعتراف ضروری ہے کہ آج امریکا سے بہ حیثیت ایک عالمی طاقت ایسی مایوسی اور بے زاری اور اتنی تیزی اور شدت سے اس کا ہمہ گیر اظہار نہ کوئی اتفاقی حادثہ ہے اور نہ محض کسی سازش کا شاخسانہ۔ اس کے ٹھوس اسباب اور عوامل ہیں۔ ان کا سمجھنا امریکا کی قیادت کے لیے بھی ضروری ہے اور ان اقوام کے لیے بھی، جو اضطراب، احتجاج اور مایوسی سے دوچار ہیں۔ اس تفہیم کا مقصد حالات کی اصلاح اور عالمی تصادم کے اسباب و عوامل کا تدارک ہے، تاکہ دنیا جنگ و جدل اور خون خرابے سے محفوظ رہ سکے۔
بالادستی کا زَعم
انسانوں اور قوموں میں، طاقت کا عدم توازن اور وسائل کا غیرمتناسب وجود ایک حقیقت ہے۔ محض اس کی وجہ سے اضطراب اور تصادم ایک غیرفطری عمل ہوگا۔ لیکن ایسا فرق جب ایک قوت کی دوسروں پر بالادستی،استیلا اور ان کے استحصال (exploitation) کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے، تو بے زاری، اضطراب اور تصادم کے دروازے کھلنے لگتے ہیں جو آخرکار ٹکراؤ اور خون خرابے پر منتج ہوتے ہیں۔ یہی ہے وہ عمل جو امریکا اور دنیا کی دوسری اقوام کے درمیان دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ عمل 1998ء میں اشتراکی روس کے ایک سوپرپاور کی حیثیت سے میدان سے نکل جانے کے بعد اور بھی تیز ہوگیا ہے۔
امریکا کے پاس مادی اور قدرتی وسائل کی اتنی بہتات رہی ہے کہ اپنے باشندوں کے لیے وہ زندگی کی تمام سہولتیں بہ افراط فراہم کرسکتا ہے، لیکن عالمی بالادستی کا خواب، دنیا کی دوسری اقوام کے وسائلِ حیات کو اپنی گرفت میں لینے کے عزائم، دنیا کو اپنے تصورات کے مطابق ڈھالنے اور دوسروں پر اپنی اقدار اور نظریے کو بہ زور مسلط کرنے کے منصوبے ہی دراصل تصادم اور ٹکراؤ کی جڑ ہیں۔ یہ خواہشات دراصل دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکا کی عالمی حکمت عملی کے اجزا بنتی جارہی ہیں۔ سردجنگ کے دور میں امریکا نے آزاد دْنیا کے تحفظ اور اشتراکیت دشمنی کے نام پر ان اہداف کو حاصل کرنے کی سعی کی، لیکن سردجنگ کے بظاہر خاتمے کے بعد امریکا نے اس لہر کو باندازِ دگر اور بھی تیز کردیا۔
بدقسمتی سے اب اس کے نئے اہداف میں سرفہرست اسلامی دنیا، احیاے اسلام کی تحریکات اور خود اسلام بن گئے ہیں، جس کا دبے لفظوں میں اور ہیرپھیر کے ساتھ اعتراف تو گذشتہ 30 برسوں میں ہوتا رہا ہے، مگر اب امریکا کی نئی قیادت اور اس کے پیچھے دائیں بازو کے مفکرین، ’مراکز دانش‘ (Think Tanks)، میڈیا اور منظم گروہ کھلے بندوں اعتراف کر رہے ہیں۔ صدرٹرمپ کے دستِ راست اور قومی سلامتی کے ایڈوائزر جنرل فلِن کو صرف تین ہفتوں میں مستعفی ہونا پڑا، تاہم صدرٹرمپ نے اس کو اپنا معتبر ترین ساتھی قرار دیا ہے۔ جنرل فلِن نے متعدد بار اسلام کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔ 2016ء میں اپنی کتاب The Field of Fight میں اسلام کو کینسر قرار دیتے ہوئے خبثِ باطن کا اظہار کیا اور متعدد بار ان خیالات کا بہ تکرار اعادہ کیا۔
عالم گیریت یا استعماری جبر
اکیسویں صدی کو ’امریکا کی صدی‘ اور ساری دنیا کو ’امریکا کے رنگ میں رنگنے ‘کی مہم کا نام ’عالم گیریت‘ (Globalisation) رکھا گیا ہے۔ یوں امریکا انا ولاغیری کے زعم میں مبتلا ہوگیا۔ اس خبط میں دوسروں پر اپنی طاقت کا رْعب جمانا اس کا مقصدِ وجود بن گیا۔ یہی ہے وہ دوراہا ہے جہاں دوسری اقوام میں بھی اپنی آزادی، اپنی عزت اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے سینہ سپر ہونے کی اْمنگ پیدا ہوئی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج عالمی سیاست تصادم کے خطرناک راستے کی طرف بڑھ رہی ہے۔
امریکا کاواحد عالمی قوت ہونا، ظاہربین نگاہوں میں ممکن ہے ایک حقیقت ہو، لیکن اس واحد سوپر پاور کا دوسروں پر غلبہ حاصل کرلینا اور ان کو اپنا تابع مہمل بنالینے کی کوشش میں مگن رہنا ایک خطرناک کھیل ہے، جس نے عالمی امن کو تہ و بالا کر دیا ہے۔ غلبہ اور جہانگیری کے انھی عزائم کے حصول کے لیے خارجہ سیاست کے ساتھ فوجی حکمت عملی اور معاشی اثراندازی کا عالم گیر جال اور جاسوسی اور تخریب کاری کا ایک ہمہ پہلو نظام، امریکا نے پوری دنیا کے لیے قائم کیا ہے، اور اسے روز بروز زیادہ مؤثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
فوجی معاہدات اور معاشی زنجیروں کا جال ہے جو ریاستی، عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں کے ذریعے پوری دنیا کو اپنے دام میں گرفتار کیے ہوئے ہے۔ سامراجی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے غیرسرکاری اداروں (NGO’s) کی ایک فوج اس عالم گیر استیلا کا ہراول دستہ ہے اور جاسوسی کا نظام ہے جو صرف سی آئی اے ہی تک محدود نہیں ہے، بلکہ متعدد بلاواسطہ اور بالواسطہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ یہ تمام مظاہر امریکا کے عالمی سامراجی آکٹوپس کے مختلف پنجے ہیں۔
مصنوعی مدِّمقابل
اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے امریکا، جہاں دنیا کے دوسرے ممالک کے مادی وسائل کو ہضم یا بھسم کر رہا ہے، وہیں اپنے شہریوں کے وسائل استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جواز پیش کرنے کے لیے مجبور ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک زمانے میں اشتراکیت اور روس کا ہوّا تھا، اور ماضی قریب میں سرکش ریاستوں(Rogue States) کا ڈراؤنا خواب دکھایا گیا تھا۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سی آئی اے کو جو مینڈیٹ سردجنگ کے زمانے میں دیا گیا تھا، وہی اختیاراس کے مقتدر طبقے کو آج چاہیے۔ اس ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے 1954ء میں وائٹ ہاؤس کی ایک خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا:
اس کھیل کے کوئی قواعد نہیں۔ ہمارے دشمن ہمارے خلاف جو طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمیں ان سے زیادہ مو?ثر، سوچے سمجھے طریقوں کو ہوشیاری سے استعمال کر کے دشمن کو سبوتاڑ کرنا ، مٹانا اور تباہ کرنے کے اسباب مہیا کرنے ہیں۔(Brave New World Order، از جیک نیلسن پال میر، ص 43)
امریکا کی سیاسی اور فوجی قیادت نے 20 ویں صدی کے آخری عشرے ہی سے پورے زوروشور سے عوامی جمہوریہ چین، شمالی کوریا اور چند مسلمان ملکوں (ایران، افغانستان، لیبیا، سوڈان) کو امریکا اور مغربی دنیا کے لیے ’اصل خطرہ‘ بنا کر پیش کرنا شروع کیا تھا، اور اب ان میں چار مزید مسلم ممالک عراق، شام، یمن، صومالیہ کا اضافہ کر دیا ہے، اور اس نام نہاد ’خطرے‘ سے مختلف سطحوں پر نبٹنے کے لیے ’جواز‘ کی فضا بنائی جارہی ہے۔
امریکی ذہنیت اور عزائم
اب سے 34 برس قبل امریکی صدر جمی کارٹر (1977-81ء) کے قومی سلامتی کے مشیر زبگینیو بریزنسکی نے اپنی کتاب The Grand Chessboard میں صاف لفظوں میں لکھا تھاکہ امریکا کی خارجہ سیاست کا اصل ہدف ہونا ہی یہ چاہیے کہ اکیسویں صدی میں امریکا دنیا کی سوپرپاور رہے اور اس کا کوئی مدمقابل اٹھنے نہ پائے___ کم از کم پہلی ربع صدی میں تو میدان صرف امریکا ہی کے ہاتھ میں رہنا چاہیے: ’’یورپ اور ایشیا دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں امریکا کی برتری برقرار رہنی چاہیے۔ یہ ناگزیر اور لازم ہے کہ یور پ اور ایشیا میں کوئی ایسی طاقت نہ ابھر پائے جو امریکا کو چیلنج کرسکے‘‘۔
یہی وہ ذہنیت ہے جو امریکا کے پالیسی سازوں اور سیاسی قیادت میں ایک قسم کی رعونت پیدا کرتی آئی ہے۔ اس رعونت کے جواب میں بجاطور پر باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصہ پیش تر ایک امریکی وزیرخارجہ نے کسی تکلف اور تردّد کے بغیر امریکا کی اس ذہنیت اور عزائم کا جو اعلان کیا، وہ کالمیرجانسن کی کتاب میں ان الفاظ میں ملتا ہے:
ہمیں طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم امریکا ہیں۔ ہم نوعِ انسانی کے لیے ایک ناگزیر قوم ہیں۔ ہم سربلند ہیں اور ہم مستقبل میں دْور تک دیکھتے ہیں۔ (Blowback: The Costs and Consequences of American Empire، ص217)
واحد عالمی طاقت ہونے کا زَعم ہی وہ چیز ہے جس نے امریکی قیادت میں اس فرعونیت کو جنم دیا ہے۔ اس کی ایک چشم کشا مثال وہ الفاظ ہیں، جن میں اپنی حیثیت کا اظہار امریکی صدر لنڈن بی جانسن (1963-69ء) نے قبرص کے تنازعے کے موقعے پر یونان کے سفیر سے کیا تھا۔ یونان، امریکا کا ایک دوست ملک اور امریکی قیادت میں فوجی اتحاد ناٹو میں اس کا رفیقِ کار ہے۔ جب یونان کے سفیر گیرانینوز گیگ نیٹس نے امریکا کا حکم نہ ماننے کے لیے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پارلیمنٹ اور اپنے دستور کے حوالے سے التجا کے لہجے میں بات کی، تو امریکی صدر جانسن طیش میں آگئے اور انھوں نے گالی دے کر یونانی سفیر سے کہا:
بھاڑ میں جائے تمھاری پارلیمنٹ اور جہنم رسید ہو تمھارا دستور___ امریکاایک ہاتھی ہے اور قبرص ایک چھوٹا سا پسّو۔ اگر یہ پسّو ہاتھی کو تنگ کرے گا تو ہاتھی کی سونڈھ اسے کچل دے گی۔ مسٹر سفیر، ہم یونان کو بہت سے امریکی ڈالر دیتے ہیں۔ اگر تمھارا وزیراعظم مجھ سے جمہوریت، پارلیمنٹ اور دستور کی بات کرتا ہے تو یاد رکھو: وہ، اس کی پارلیمنٹ اور اس کا دستور زیادہ دیر باقی نہیں رہیں گے۔ (Should Have Died، از فلپ ڈین، 1977ء، ص 113-118)
ذرا مختلف پس منظر میں، لیکن اسی ذہنیت کا مظاہرہ امریکا کے چیف آف اسٹاف جنرل کولن پاول (بعدازاں صدر بش جونیئر کے زمانے میں وزیرخارجہ) نے باربار کیا تھا۔جن دنوں امریکا نے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پانامہ جیسے ایک آزاد ملک پر فوج کشی کی، اس کے صدر کو اغوا کیا اور سزا دی تو اعتراض کرنے والوں کے جواب میں جنرل پاول نے کہا تھا:
ہمیں کنکر کو اپنے دروازے سے یہ کہہ کر باہر پھینکنا ہے کہ یہاں سوپرپاور رہتی ہے۔(Brave New World Order، ص 87)
(جاری ہے)

حصہ