(اب ایسا نہیں چلے گا(سید اقبال چشتی

259

ایک بچہ اپنے والد کے ساتھ کہیں جا نے کی تیاری کر رہا تھا کہ دیے گئے امتحان کا رزلٹ آجاتا ہے، بچہ اپنے ایک دوست سے را بطہ کر تا ہے اور کہتا ہے کہ تم اسکول جاؤ اور میرا نتیجہ کیا آیا ہے؟ دیکھو اگر میں ایک پیپر میں فیل ہوں تو تم کہنا ایک پاکستانی کو سلام۔ بچے کا دوست اسکول جا کر اپنے دوست کو فون کرتا ہے اور کہتا ہے، تمام پاکستانیوں کو سلام۔
ہمارے حکم رانوں خاص طور پر سندھ کی حکم راں پارٹی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے پر برسراقتدار ہے، کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ جس کو اپنی ہی پارٹی کے سابق وزیر اعلی سے مسائل ورثے میں ملے ہیں، لیکن وزیر اعلی اور میئر کراچی نے آج تک یہ بیان نہیں دیا کہ مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں، کیو ں کہ اس سے قبل بھی انہی کی حکم رانی تھی۔
سندھ حکو مت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو حکومت ہر شعبے میں فیل نظر آتی ہے۔ چا ہے، وہ امن و امان کا مسئلہ ہو یا صحت و صفائی کا یا پھر ترقیاتی کاموں کا۔ اپنی کار کردگی کے لحاظ سے ہر معاملے میں فیل ہمارے حکمران بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع تو بڑے دھوم دھام سے کر تے ہیں اور سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کی خبر اور عوام کو بہتر سہولیات دینے کے دعوے اخبارات کی زینت بناتے ہیں لیکن پراجیکٹس پائے تکمیل تک پہنچنے کے بجائے فائلوں میں بند ہوجاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ووٹ دینے والے عوام کو سہولیات دینے میں کس قدر سنجیدہ ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے22 برس قبل اپنے والد، جب وہ وزیر اعلیٰ سندھ تھے، انہوں نے دنبہ گوٹھ میں برنس سینٹر کا سنگ بنیاد رکھا تھا‘ اس سینٹر کا افتتا ح کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ میرے والد کا یہ پراجیکٹ مکمل ہو گیا، لیکن وزیر اعلیٰ نے خود اپنی خو شی پر پانی پھیردیا، جب انہوں نے خود کہا کہ اس سینٹر کا افتتاح ہوگیا ہے لیکن یہاں ابھی تک پانی، بجلی اور گیس کی سہولیات نہیں ہیں اور جلد ہی یہ تمام سہولیات بھی فراہم کردی جا ئیں گی۔ حیرت ہے جس بھٹو کے نام پر آج تک پارٹی زندہ ہے اور بھٹو ہی کے نام کا کھا رہی ہے، اس کی بیٹی، جس کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی کو قومی حکومت ملی، اس کے نام کی بھی لاج نہیں رکھی گئی اور 22 برس تک ایک منصوبہ اپنے مکمل ہو نے کا انتظار کرتا رہا۔ اگر مراد علی شاہ وزیراعلیٰ نہیں بنتے تو شاید یہ منصوبہ فائلوں ہی میں دفن رہتا؟؟
عوام کو سہولیات فراہم کرنے والوں کی کارکردگی کیا رہی؟ اس پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے چیئرمین ضلع کو نسل سلمان عبد اللہ مراد کاایک بیان کہ ہمارے چارچ لینے سے قبل مراکز صحت جانوروں کے باڑے بنے ہوئے تھے، یعنی ضلع ملیر میں پیپلز پارٹی کے زیر اثر افراد نے مراکز صحت پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سندھ کے عوام سو چنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ علاج کی بنیادی سہولیات عوام کا حق ہے، لیکن عوام 22 برس تک بیوقوف بنتے رہے، مراکز صحت با ڑے میں تبدیل ہوگئے، افتتاح ہونے والے اسپتال میں اب تک پانی، بجلی، گیس نہیں ہے تو اس علا قے میں یہ تمام بنیادی سہولیات یقیناً نہیں ہوں گی۔۔۔ سوچنے کا مقام ہے آخر ایسا کب تک چلے گا؟ ان 22 برسوں میں پیپلز پارٹی کی تین دفعہ قومی اور پانچ دفعہ صوبائی حکومت آچکی ہے، لیکن اپنے چاہنے والوں کے ساتھ یہ سلوک تو کو ئی دشمن بھی نہیں کرتا۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن اب تک سندھ کے کئی علاقے بجلی، پانی اور گیس سے محروم ہیں بلکہ اسپتال بھی ان بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کیا بھٹو کاVision یہ تھا جس میں حکمراں مزے کریں اور عوام سسکتے رہیں۔ پیپلز پارٹی کا نعرہ ہے کہ بھٹو زندہ ہے۔ یقیناًاس نعرے میں بھٹو کو زندہ رکھا گیا ہے لیکن بھٹو کو چاہنے والے سندھ کے عوام زندہ ہوکر بھی مردہ معلوم ہوتے ہیں یا اسے جیتے جی مار دیا گیا ہے، کیو ں کہ اس عوام پر کہیں وڈیرا راج ہے،کہیں ظلم و جبر کے پہرے لگے ہو ئے ہیں تو کہیں انھیں عصبیتوں اور برادری کی بنیاد پر تقسیم کر کے ان کی سو چوں پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔۔۔کیا سب ایسا ہی چلے گا یا غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں گی بھی۔ عوام کی سوچوں پر لگائی گئیں زنجیریں اس وقت ٹو ٹ جائیں گی جب عوام یہ سوچیں گے کہ ہمارے پاس بنیادی سہولیات بھی نہیں اور حکمران اپنے علاج کے لیے لندن، امریکا جاتے ہیں، ہمارے بچوں کے لیے اسکول بھی نہیں لیکن حکمرانوں کے بچے باہر ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ہمیں سفری سہولیات تک میسر نہیں اور وڈیرے بڑی بڑی عالیشان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، ہمیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں اور حکمراں منرل واٹر پیتے ہیں۔ اندرون سندھ جب بھی جانا ہوا، بے شمار لوگوں کے قافلے گزرتے دیکھے جن میں اکثریت کے پاؤں میں جوتے تک نہیں تھے۔ جو حکمران اپنی قوم کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہوں، جو اپنی قوم کو جوتے نہیں دے سکتے وہ انہیں بنیادی سہولیات کیا دیں گے؟ یقیناً ایسے حکمران بد ترین لوگ ہیں، جو حکمران کہلانے کے مستحق نہیں، لیکن قصور اس میں ان حکمرانوں کا نہیں بلکہ عوام کا بھی ہے، جو ان لوگوں کو بار بار منتخب کرتے ہیں اور پھر انہی حکمرانوں سے مسائل کے حل کی توقع رکھتے ہیں۔۔۔ مومن ایک سوراخ سے ایک بار ڈسا جاتا ہے، لیکن یہ قوم نہ جانے کس مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ بار بار ان حکمرانوں کے کرتوت جاننے کے بعد بھی ان کو اپنا ’’نجات دہندہ‘‘ سمجھ کر خود کو ڈسوائے جاتی ہے۔
کہتے ہیں قسمت بدلنے کی چابی بھی عوام کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اگرعوام یہ سوچنے لگے کہ ہم محرومیوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور حکمراں طبقہ ہمارا استحصال کررہا ہے اور جس دن یہ سوچ پیدا ہوگئی، وہ دن حکمرانوں کے احتساب کا دن ہوگا۔ عوام میں سوچ پیدا ہوتی ہے تو پھر انقلابِ فرانس رونما ہوتا ہے۔ جب فرانس میں عوامی انقلاب آیا تو وہ عوام جو کام کرکرکے تھک گئے تھے اور جن کے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو گئے تھے تو پھر اسی عوام نے ان استحصال کرنے والوں سے خوب بدلہ لیا۔ عوام نے استحصال کر نے والوں کی پہچان یہ نکالی کہ جس کے بھی ہاتھ نرم ہو تے اُسے پھا نسی پر چڑھا دیتے۔ پاکستان میں بھی عوامی انقلاب دستک دے رہا ہے اگر محرومیوں کا سلسلہ ایسا ہی چلتا رہا تو پھر حکمرانوں کو عوامی انقلاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔۔۔
بدحالی کا شکار سندھ کے مضافاتی علاقے ہوں یا شہری، سب جگہ ایک جیسا حال ہے۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی کا سب سے برا حال ہے۔ بڑی شان سے میئر کا عہدہ سنبھالنے والے وسیم اختر نے اعلان کیا تھا کہ ہم 100 روزہ صفائی مہم چلا رہے ہیں، لیکن 100 روز پورے ہونے پر اپنی 100 فیصد ناکامی کا اعتراف کر نے کے بجائے سندھ حکو مت کو اس ناکامی کا ذمے دار قرار دے دیا۔ اس وقت کراچی ’’کچرے کا شہر‘‘ بن چکا ہے۔ جگہ جگہ گٹر اُبل رہے ہیں، پینے کا صاف پانی بھی عوام کو میسر نہیں، اخبارات روزانہ گندگیکی ڈھیروں تصاویر اور خبریں شائع کر رہے ہیں لیکن بلدیہ کا عملہ ڈھیٹ بنا ہوا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا، کیو ں کہ عوام کو تکالیف سہنے کی عادت پڑچکی ہے۔ گاؤں، دیہات کے عوام کی سوچ کہہ سکتے ہیں کہ محدود ہو تی ہے، لیکن شہری عوام جو اپنے آپ کو پڑھا لکھا کہتے ہیں، شعور اور آگاہی کے لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں۔۔۔یہ شہری عوام تو دیہاتیوں سے بھی بد تر ثابت ہو رہے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں ’’جیسا کروگے، ویسا بھروگے۔‘‘ سندھ کے عوام نے ہمیشہ خدمت‘ دیانت‘ امانت اور کرپشن سے پاک قیادت کے بجائے عصبیت کی بنیاد پر ووٹ دیے، جس کا نتیجہ آج وہ بھگت رہے ہیں۔ محمد علی جناح کے نام سے منسوب ’’ایم اے جناح روڈ‘‘ کئی دن تک گٹر کے پانی میں ڈوبی رہی اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ سندھ کا ہر گاؤں اور شہر موہن جو دڑو کا منظر پیش کررہا ہے۔ موہن جو دڑو کا مطلب ہے ’’مُردوں کا شہر۔‘‘ سندھ کے حکمرانوں نے اس قوم کے دل‘ دماغ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سب کو مُردہ کردیا ہے۔ پورا سندھ موہن جو دڑو میں تبدیل کیوں نہ ہو، جس پارٹی کا سربراہ بلاول زرداری اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مو ہن جو دڑو میں سپرمین کی ٹی شرٹ پہن کر کرے، اس صو بے کو مُردوں کے ٹیلے ہی میں تبدیل ہو نا ہے اور عوام اس انتظار میں ہیں کہ ابھی سپرمین آئے گا اور ہمارے سر سے یہ مصیبت ٹال دے گا۔ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے عوام خواب ہی دیکھتے رہیں گے۔
خوابوں کی دنیا سے نکل کر دیکھا جائے تو کارکردگی کی بنیاد پر شیروانی اور وردی والی دونوں ہی حکومتیں عوام کو سہولیات دینے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں بری طرح نا کام ہوئی ہیں۔ جب جمہوری حکو متیں ناکام ہوجائیں اور عوام میں یہ سوچ پیدا ہو نے لگے کہ یہ بدعنوان حکمراں ملک اور قوم کو ترقی کی راہ پر نہیں ڈال سکتے تو عوام کی اس سوچ کے آگے مارشل لا کا بند باندھ دیا گیا۔ اس طرح کرپٹ حکمرانوں کے خلاف اُبھرنے والی سوچ کو طاقت کے ذریعے دبا دیا گیا۔ وردی میں حکمرانی کر نے والوں نے عوام کے بنیادی مسائل کو حل کر نے کے لیے مقا می حکومتوں کے انتخابات کرائے، اس طرح سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی زندہ رکھا گیا اور عوام بھی مطمئن ہوگئے کہ ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ اس عرصے میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ بدعنوان حکمرانوں کے خلاف ہماری سوچ میں کیا تبدیلی آرہی تھی۔۔۔ بدعنوان سیاسی جماعتیں ما رشل لا کی چھتری تلے پروان چڑھ کر پھر سے تازہ دم ہوکر عوام کے پاس آتی گئیں بس فرق اتنا ہوا کہ کبھی ق لیگ تو کبھی ن لیگ اسی طرح کبھی پیٹریاٹ تو کبھی پارلیمنٹرین کے نام سے یہ پارٹیاں اقتدار کے مزے لیتی رہیں۔ جمہوریت اور مارشل لا کے اس چوہے‘ بلی کا کھیل مشہور کارٹون ٹام اینڈ جیری کی طرح ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کو گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور سارے گھر کا خانہ خراب ہوجاتا ہے اور آخر میں ٹام اینڈ جیری ہاتھ ملا لیتے ہیں جب کہ گھر کا سربراہ بھی ان کی کوتاہیوں کو نظرانداز کرکے شفقت کے ساتھ پیش آنے لگتا ہے بالکل اسی طرح پورا پاکستان کا خانہ خراب ہوچکا ہے۔ کرپشن، آئے روز دہشت گردی کی کہانی، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، مہنگا ئی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور لوڈشیڈنگ سے کارخانے بند پڑے ہیں اور حکمران کہتے ہیں ’’سب اچھا ہے‘‘ بلکہ حکمرانوں کی طرف سے بیانات دیے جارہے ہیں کہ عوام کی دولت لوٹنے والوں کو کٹھرے میں لانے کا وقت آگیا ہے اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ملک کا خانہ خراب کرنے والوں کے جرائم پر پردہ ڈال کر پھر سے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ آئندہ کس کی حکمرانی ہوگی، اب باری کس کی ہوگی؟ تو یہ باری باری حکمرانی کے منصب پر بیٹھنے کا تاثر ختم ہو نا چاہیے۔ تینوں پارٹیوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ملک ہے تو حکمرانی ہے، اگر خدانخواستہ یہ ملک ہی نہ رہے تو پھر کس پر حکمرانی کریں گے؟ اب کو ئی کھیل نہیں چلے گا کیو ں کہ دنیا کے حالات اور واقعات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، ان تبدیلیوں ہی کی وجہ سے کئی ممالک اپنے آقا تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ پاکستان بھی چوہدری امریکا سے جان چھڑا کر چین سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ جب ہر طرف خو ش حالی کے لیے تبدیلی کی لہریں بیدار ہوچکی ہیں تو عوام میں بھی تبدیلی کی اُمنگ پیدا ہو رہی ہے۔ وہ کرپشن سے پاک قیادت کا خواب دیکھنے لگے ہیں۔ اس وقت قوم کا امتحان قریب ہے، حکمرانوں کا امتحان لینے کا وقت آگیا ہے کیو ں کہ یہ حکمراں پوری طرح ہر مضمون اور امتحان میں ناکام ثابت ہو ئے ہیں۔۔۔اب ان کو خیرباد کہنے اور سلام کر کے رخصت کر نے کا مرحلہ بہت قریب آچکا ہے۔ پورے پاکستان کے عوام اب ’’الوداع کرپٹ حکمرانو!‘‘ کا نعرہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔۔۔’’اب ایسا نہیں چلے گا!!‘‘

حصہ