(ابوظہبی میں بارہواں عالمی مشاعرہ(ڈاکٹر نثار احمد نثار

331

متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی ایک اہم اسٹیٹ ہے، جو کہ کئی حوالوں سے معتبر ہے۔ تاہم، اُردو زبان و ادب کے تناظر میں بھی اس ریاست نے نام کمایا ہے۔ اس ریاست میں کئی اہم قلم کار مقیم ہیں۔ انہی میں سے ایک نام ظہورالسلام جاوید کا ہے، جو کہ اُردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ہر سال ایک عالمی مشاعرہ ترتیب دیتے ہیں، جس میں اکنافِ عالم کے شعرا شریک ہوتے ہیں۔ اسی سلسلے کا بارہواں مشاعرہ 9 مارچ 2017 کو الجاہلی تھیٹر، آرمڈ فورسز آفیسرز کلب ابو ظہبی میں منعقد ہوا، جس کی صدارت پرفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی۔ متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر معظم احمد خان اس مشاعرے کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ظہور السلام جاوید نے نظامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بارہویں مشاعرے کے انعقاد میں سفیرِ پاکستان معظم احمد خان نے ہماری بھرپور حوصلہ افزائی کی اور ہر قدم پر رہنمائی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر فیصل عزیز، ہادی شاہد، شکیل احمد خاں، محمد اقبال نسیم، ریحان خان، احیاء الاسلام، عادل فہیم، سید سروش آصف، شاداب الفت، ندیم شہزاد، تابش زیدی، مسرت عباس، سلمان خورشید، فرحان واسطی، شاداب رضا، ڈاکٹر صباحت عالم واسطی، ندیم غوری اور ندیم فریدی نے اس پروگرام کے سلسلے میں شب و روز محنت کی اور مشاعرے کی کام یابی میں ان تمام حضرات کا کنٹری بیوشن ہے۔ اس کے علاوہ ظہور السلام جاوید نے ان تمام اسپانسرز کا شکریہ ادا کیا، جن کے تعاون سے یہ مشاعرہ منعقد ہوسکا۔ انہوں نے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے حاکموں کی فہم و فراست اور لیڈر شپ کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا کہ جن کی قیادت میں متحدہ عرب امارات ترقی و کامرانی کی راہ پر گام زن ہے۔
مہمانِ خصوصی معظم احمد خان نے کہا کہ ہماری ثقافت میں مشاعرے بھی شامل ہیں۔ یہ ادارہ ہماری تہذیبی اور ادبی اقدار کا آئینہ دار بھی ہے اور زبان و ادب کے فروغ میں مددگار و معاون بھی ہے۔ شاعری معاشرے میں انقلاب لانے کا سبب بنتی ہے۔ ہمارا ادبی حوالہ بہت مضبوط ہے، جس میں علامہ اقبالؒ ، فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، احمد فراز، حمد ندیم قاسمی جیسی قد آور شخصیات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہم بارہویں عالمی اُردو مشاعرے میں شریک ہیں، جس کے روح رواں، بانی اور منتظمِ اعلیٰ ظہور السلام جاوید ہیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہر سال عالمی مشاعرے کا انعقاد ہے۔ میں ان کی کاوشوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں اور دُعا گو ہوں کہ ہر سال عالمی مشاعرہ ہوتا رہے اور ابو ظہبی کی ادبی فضا مہکتی رہے۔
صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ظہور السلام جاوید کی ادبی خدمات قابل ستائش ہیں۔ یہ متحدہ عرب امارات میں اُردو زبان و ادب کے سفیر ہیں، ان کے کریڈٹ پر بارہ عالمی مشاعروں کے علاوہ بھی کئی شان دار ادبی پروگرام موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ میڈیا کی بدولت اب مشاعرہ بھی ’’لائف پروگرام‘‘ بن گیا ہے۔ آج کا یہ مشاعرہ بھی اس وقت فیس بک پر موجود ہے۔ آج کے مشاعرے میں شعراء و شاعرات نے اپنا اپنا منتخب کلام پیش کیا، جس پر سامعین کی طرف سے بھرپور حوصلہ افزائی ہوئی اور ہر اچھے شعر پر تالیاں بجائی گئیں، اس وقت اس ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے اور تمام سماعتیں زندہ ہیں حالاں کہ اس وقت رات کے 3 بجے ہیں۔ میں اس شان دار پروگرام کے انعقاد پر ظہور السلام جاوید اور ان کے رفقا کار کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر ظہور السلام جاوید کی طرف سے سفیر پاکستان معظم احمد خان کو خصوصی شیلڈ پیش کی گئی، اس کے علاوہ تمام مہمانوں اور شعرا کی خدمت میں شیلڈز پیش کی گئیں۔
پروگرام کے پہلے دور میں مذاکرہ ہوا، جس کی نظامت ڈاکٹر اوجِ کمال نے کی۔ مذاکرے میں پیرزادہ قاسم، ڈاکٹر کلیم قیصر، ظہور السلام جاوید اور کنور رنجیت نے اظہار خیال کیا۔ اوجِ کمال نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ادب ہمیں شعور و آگہی بخشتا ہے اور زندگی کو سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ ادب وہ ادارہ ہے، جس کے تحت ہم اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ادب ہمیں آنے والے خطرات سے آگاہی دیتا ہے، یعنی معاشرتی مسائل پر بھی ادب گفتگو کرتا ہے۔ ادب ہمارے لیے کیوں ضروری ہے، لوگ کیوں شاعری سُننے آئے ہیں، کیا وجہ ہے کہ اشعار سفر کرتے ہیں اور ضرب المثل کے طور پر بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ادب ہماری زندگی ہے، جو قومیں ادب کو فراموش کردیتی ہیں، وہ ترقی نہیں کر پاتیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کی اس اہم گفتگو میں اُردو ادب کی ایک اہم شخصیت پروفیسر پیرزادہ قاسم موجود ہیں، جن کا کہنا ہے کہ میں اس شخص کو زندوں میں کیسے شمار کروں کہ جو خواب دیکھتا ہی نہیں اور جو سوچتا ہی نہیں۔ گویا سوچنا اور خواب دیکھنا زنددگی کا پہلا مرحلہ ہے اور یہ ادب سے جُڑا ہوا ہے۔ میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ادب ہماری زندگی کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، کیا نئی نسل بھی ادب میں دل چسپی لے رہی ہے؟
اوج کمال کے سوال پر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے کہا کہ ادب کی ترویج و اشاعت کی گفتگو میں ظہور السلام جاوید کا نام بھی شامل ہے۔ میں انہیں 35 سال سے جانتا ہوں، یہ مشاعرے تو منعقد کرتے رہتے ہیں تاہم مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے اس قسم کی ادبی گفتگو پہلی مرتبہ ہورہی ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ادب کی اہمیت کیا ہے، اس بارے میں تمام صاحبانِ عقل و دانش ایک Page پر ہیں کہ ادب برائے زندگی ہے۔ ادب انسانیت کی بات کرتا ہے۔ اگر ادب معاشرے کی بہتری کی بات نہیں کرتا تو وہ ادب نہیں ہے۔ ہماری موجودہ نسلیں ہمارا مستقبل ہیں، ہمیں ان تک اپنی ثقافتی اقدار منتقل کرنی ہیں، اس منتقلی میں زبان و ادب بھی شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زندگی کی اعلیٰ و ارفع اقدار انسان کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ہماری پہچان یہ ہوتی ہے کہ ہم کس معاشرے کا حصہ ہیں۔ ادب یہ بتاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ ادب ہیومن ازم کا حصہ ہے، اس میں علم ہے، آگہی ہے، ثقافت ہے، زبان ہے۔ ادب میں نثر اور نظم لکھنے والے دونوں شریک ہیں، جو لوگ ادب تخلیق کررہے ہیں، وہ معاشرے کی خدمت کررہے ہیں، لیکن اس وقت ہماری نئی نسل پروفیشنل ازم کی طرف مائل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بہترین انجینئرز بن جائیں، بہترین ڈاکٹرز بن جائیں، اب ہماری ترجیحات میں ادب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرتی فلاح و بہبود کے لیے فائن آرٹس کے تمام شعبوں پر توجہ دیں اور انہیں بھی آئندہ نسلوں تک منتقل کریں۔ معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے انجینئرز اور ڈاکٹرز ضرور بنیے کہ ہمارے ملک کو بھی مختلف شعبے میں ماہر افراد درکار ہیں، لیکن ادب کو نظر انداز مت کیجیے۔ ادب کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے لیے اربابِ سُخن ضروری ہیں۔ کنور رنجیت سنگھ چوہان نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندوستان میں جشنِ ادب کا آغاز 2012 میں کیا تھا۔ اس تنظیم کے تحت ہم سال میں دو مرتبہ ادبی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ ہم اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔ زبان ریجن کی ہوتی ہے، کسی مذہب کی نہیں ہوتی، کسی زبان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ زبانیں ہندو، سکھ عیسائی یا مسلمان نہیں ہوتیں۔ ’’جشنِ ادب‘‘ ہندوستان کا پہلا ادارہ ہے، جہاں بہترین اُردو اور ہندی لکھنے والے ایک جگہ جمع ہوکر دونوں زبانوں کے ادیبوں کو قریب لانے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن ہر سال دو ایوارڈز دیتی ہے، جو کہ ایک پاکستانی کو ملتا ہے، جب کہ سال کا دوسرا ایوارڈ کسی ہندوستانی ادیب و شاعر کو دیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہندوستان میں آرٹ و کلچر کو پرموٹ کررہا ہے۔ یہ ادارہ جینوئن قلم کاروں کو آگے بڑھانے میں معاون و مددگار ہے۔
ظہور السلام جاوید نے مذاکرے میں کہا کہ اُردو ایک ایسی زبان ہے، جو کہ اس وقت دنیا کے تمام اہم ممالک میں اپنے قدم جمارہی ہے۔ یہ رابطے کی زبان ہے۔ اس زبان سے محبت کرنے والوں کی تعداد روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں برصغیر ہندوپاک کے بعد متحدہ عرب میں شامل ریاست ابوظہبی میں پہلا عالمی مشاعرہ 1981 میں ہوا تھا۔ اب یہ خاکسار ابوظہبی میں عالمی اُردو مشاعرہ کرارہا ہے۔ ہم نے یہ کام اُردو کی محبت میں شروع کیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے اُردو مشاعروں کو مزید ترقی دیں۔ اگر آپ خواتین و حضرات کا تعاون رہا تو ہم اپنے پروگراموں میں مزید بہتری لائیں گے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت کلامِ مجید سے ہوا، جس کی سعادت عادل فہیم نے حاصل کی، جب کہ امریکا سے تشریف لانے والے شاعر سیّد ایاز مفتی نے نعتِ رسولؐ مقبول پیش کی۔ سیّد سروش آصف کی نظامت میں مشاعرے کا آغاز ہوا۔ انہوں نے فرداً فرداً تمام شعرا و شاعرات کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اور اس کے بعد مائیک ظہور السلام جاوید کے حوالے کر دیا، جنہوں نے بقیہ پروگرام کی نظامت کی۔ اس موقع پر 12 ویں عالمی اردو مشاعرے کے سوینئر کی تقریب اجرا ہوئی اور قرعہ اندازی کے ذریعے سامعین میں انعامات تقسیم کیے گئے۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن شعراء وشاعرات نے اپنا اپنا کلامِ نذر سامعین کیا، ان میں اظہر عنایتی (بھارت)، ڈاکٹر کلیم قیصر (بھارت)، حسن عباسی (پاکستان)، ڈاکٹر عاصم واسطی (متحدہ عرب امارات)، ڈاکٹر زبیر فاروق (ابوظہبی)، رحمن فارس (پاکستان)، علینہ عترت (بھارت)، راقم الحروف ڈاکٹر نثار (پاکستان)، ڈاکٹر ثروت زہرہ (عرب امارات)، کنور رنجیت سنگھ چوہان (بھارت)، ایاز مفتی (امریکا)، زبیر تابش (بھارت) جب کہ مقصود احمد تبسّم نے اپنی تحریر کردہ نعتِ رسولؐ پیش کی۔
منتخب اشعار :
پیر زادہ قاسم:
ہم تو بس یہ کہتے ہیں روز جینے مرنے کو
آپ چاہیں کچھ سمجھیں، زندگی نہ سمجھا جائے
اظہر عنایتی:
ہائے گہرائیاں اُن آنکھوں کی
بات کرتا ہوں، ڈوب جاتا ہوں
ڈاکٹر کلیم قیصر:
حاصلِ زیست یہی گردِ سفر ٹھہری ہے
کٹ گئی عمر تمناؤں کا پیچھا کرتے
ظہور السلام جاوید:
کبھی جو ضابطۂ زیست کی ضرورت ہو
تمام باتیں مرے دین کی کتاب میں ہیں
کنور رنجیب سنگھ چوہان:
جب سمندر سُوکھ جائے گا کسی کی یاد میں
پھر کسی کے آنسوؤں سے دل لگی کی جائے گی
رحمٰن فارس:
میں یہاں تک تجھے لے آیا ہوں
اس سے آگے تیری ہمّت ہے میاں
حسن عباسی:
اِک پرندے کی طرح اُڑ گیا کچھ دیر ہوئی
عکس اُس شخص کا تالاب میں آیا ہوا تھا
علینہ عترت:
ہر ایک سجدے میں دل کو ترا خیال آیا
یہ اک گناہ عبادت میں بار بار ہوا
ڈاکٹر زبیر فاروق:
اس ہنستے بستے شہر کو کس کی نظر لگی
ہر آنکھ اشک بار ہے، ایسا ہوا ہے کیوں
ڈاکٹر نثار احمد نثار:
نہ جانے کتنے ہُنر آزمانے پڑتے ہیں
ہوا کے مدّ مقابل دِیا جلاتے ہوئے
زبیر تابش:
بہت سے بند تالے کُھل رہے ہیں
تیرے سب خط اکٹھے کررہا ہوں

حصہ