(برصگیر میں اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحریکیں(نجیب ایوبی

335

1945ء میں سرکارِ برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ وائسرائے لارڈ ویول کی انتظامیہ میں تمام تر ہندوستانی اراکین کو شریک رکھا جائے اور سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کا تناسب ہندو ذات کے اونچے لوگوں کے برابر ہوگا۔
ان تجاویز پر بات چیت کے لیے جون 1945ء میں شملہ کے مقام پر کانفرنس رکھی گئی، جو شملہ کانفرنس کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
اس کونسل میں پانچ مسلم اراکین کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔ ظاہر ہے مسلم لیگ کو یہ حق تھا کہ وہ پانچوں مسلم اراکین کا تقرر کرے، مگر کانگریس نے زور لگایا کہ ایک نمائندہ وہ بھی منتخب کرکے بھیجیں، جس پر مسلم لیگ نے سخت مؤقف اختیار کیا۔ مسلم لیگ کا مؤقف تھا کہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت مسلم لیگ ہے لہٰذا مسلم اراکین کو بھیجنے کا حق صرف مسلم لیگ کو حاصل ہونا چاہیے۔ اسی مخاصمت میں یہ کانفرنس کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ناکام ہوگئی۔
اس کانفرنس کی ناکامی نے اس تاثر کو بہت مستحکم کیا کہ خطے میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت صرف اور صرف مسلم لیگ ہی ہے۔
اگرچہ شملہ کانفرنس میں یہ فیصلہ تو نہیں ہوا تھا کہ مسلم لیگ واحد نمائندہ جماعت ہے، مگر پھر بھی اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا گیا۔ 46۔ 1945ء میں مسلم لیگ کے دعوے کو جانچنے کے لئے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ انتخابات ہوئے، جن میں مسلم لیگ نے اپنے دعوے کے مطابق مرکزی اسمبلی میں تیس میں سے تیس مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی۔ اور صوبائی نشستوں پر نوّے فیصد مسلم امیدواروں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کامیابی ملی۔
اس حیرت انگیز کامیابی نے یہ بات عیاں کردی کہ مسلم لیگ ہی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا حق رکھتی ہے۔
اپریل 1946ء میں قائداعظم نے مرکزی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کا مشترکہ اجلاس دہلی میں طلب کیا۔ اسی اجلاس میں حسین شہید سہروردی نے وہ قرارداد پیش کی جس میں شمال مغربی اور شمال مشرقی اکثریتی مسلم علاقوں پر مشتمل آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قائداعظم ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر سرکارِ برطانیہ پر اپنا دباؤ بڑھاتے جارہے تھے۔ یہ قرارداد بھی اسی جارحانہ حکمت عملی کا ایک نمونہ تھی۔
1945ء میں برطانیہ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں لیبر پارٹی برسراقتدار آگئی۔ اس نومنتخب حکومت نے تین اراکین پر مشتمل ایک وفد ہندوستان روانہ کیا تاکہ یہاں پر پھیلی ہوئی سیاسی بے چینی کا جائزہ لیا جاسکے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔ اس مشن کے اراکین نے کانگریس اور مسلم لیگی رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں، مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
چناں چہ 16 مئی 1946ء کو اپنے طے کردہ منصوبے کا اعلان کیا جسے ’’کابینہ مشن منصوبہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس منصوبے کے اہم نکات اس طرح تھے:
* برصغیر میں ایک یونین قائم کی جائے گی۔ اور اس کا دائرۂ کار امورِ خارجہ، دفاع، آمد و ترسیل پر مشتمل ہوگا۔
* یہ شعبہ جات مرکز اور صوبوں میں قائم ہوں گے۔
* صوبوں کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنا مشترکہ گروپ بنا لیں اور گروپ کو اپنا دستور بنانے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔
* ہر دس سال کے بعد صوبوں کو اختیار ہوگا کہ وہ آئین میں تبدیلی یا ترامیم کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔
اس طرح جنوبی ایشیا کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔
گروپ ’ا‘ یو پی، بہار، اڑیسہ، سی پی، بمبئی، اور مدراس پر مشتمل تھا۔
گروپ ’ب‘ میں پنجاب، سندھ اور سرحد شامل تھے۔
گروپ ’ج‘ بنگال اور آسام صوبوں پر مشتمل تھا۔
یہ تقسیم ایک انوکھی نوعیت کے وفاق پر مبنی تھی جسے سہ گانہ وفاق کہہ سکتے ہیں۔
کابینہ مشن کی ڈکٹیٹ کردہ تجویز میں یہ نکتہ بھی شامل تھا کہ جو جماعت ان تجاویز کو تسلیم کرلے گی اسے عبوری حکومت بنانے کا حق دیا جائے گا۔
اندرونِ خانہ یہ بات واضح تھی کہ لیبر پارٹی کا جھکاؤ کانگریس کی طرف ہے، اس لیے کانگریس کو خوش کرنے کی خاطر جان بوجھ کر مسلم لیگ کو دوسرے نکات میں الجھا کر کانگریس کو حکومت بنانے کی دعوت دے دی گئی۔ اور کانگریس نے عبوری حکومت بنالی۔ کانگریس نے مسلم لیگ کے ساتھ کچھ مفاہمت استوار کررکھی تھی۔ عبوری حکومت بنا کر کیونکہ کانگریس نے بدعہدی کا مظاہرہ کیا تھا جس پر مسلم حلقوں میں بے چینی، اور ملک میں فسادات اور فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔
یہ فسادات پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے تھے، جس پر وائسرائے کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، اور اس نے مسلم لیگ سے حکومت میں شامل ہونے کی باقاعدہ درخوا ست کی۔ یہ عبوری حکومت 14 وزیروں پر مشتمل تھی جن میں 6 کانگریس کے وزیر تھے، 5 مسلم لیگ کے، اور 3 وزیر براہِ راست وائسرائے کے تجویز کردہ تھے۔ اس عبوری حکومت کے اندر بہت سے معاملات پر اس قدر بداعتمادی اور اختلافات تھے کہ یہ عبوری حکومت بری طرح ناکام ہوگئی۔
1947ء میں سرکارِ برطانیہ نے لارڈ ویول کو مسلسل سیاسی ناکامیوں پر واپس برطانیہ بلا لیا اور اس کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو نیا وائسرائے بنا کر بھیجا گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کانگریس کے رہنماؤں سے خفیہ ملاقاتیں کرتا اور رات کی نشستوں میں شراب کے دور چلتے۔ اس کا رویہ کانگریس کے ساتھ نہایت دوستانہ اور مسلم لیگ کے ساتھ مخاصمانہ تھا۔
ان تمام چیزوں کے باوجود وہ یہ بات اچھی طرح جان چکا تھا کہ برصغیر کی ہندو اور مسلم کی بنیاد پر تقسیم اب ناگزیر ہوچکی ہے۔
اس کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن دوبارہ برطانیہ گیا جہاں اُس نے اپنے منصوبے پر حکومت کی منظوری حاصل کی۔ اور پھر 3 جون 1947ء کو اس نے اپنے نئے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ برصغیر کو دو علیحدہ علیحدہ مملکتوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔
ان مملکتوں کو ابتدا میں نوآبادیاتی حیثیت حاصل ہوگی۔ پنجاب اور بنگال کو دو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا اور اس کے لیے دو غیر جانب دار حد بندی کمیشن قائم کیے جائیں گے۔ سرحد اور سلہٹ میں عوامی رائے لینے کے لیے استصواب کروایا جائے گا۔ جبکہ سندھ اور آسام کی صوبائی اسمبلیاں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گی کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی آزاد مملکت کا حصہ بن سکتی ہیں۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اس منصوبے کو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے کچھ رد و کد کے بعد ناگواری کے احساس کے ساتھ قبول کرلیا کہ ان حالات میں اس کے سوا کوئی مناسب حل دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ آخرکار 14 اگست 1947ء کو ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد دنیا کے نقشے پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
(جاری ہے )

حصہ