(جگر خوں ہوتو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا (شعبۂ تحقیق جامعات المحصنات پاکستان

380

فی زمانہ علوم و فنون کی ترقی، تخصّص (Specialization) کی مرہونِ منت ہے۔ مسلمانوں نے تفکر و تدبر اور تحقیق کو چھوڑا تو مغلوب ہوگئے۔ اس ضمن میں جامعات المحصنات پاکستان کے تحت اس ناگزیر ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی طالبات و اساتذہ کی علمی آبیاری، اور تحقیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے شعبہ تحقیق کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کا مطمحِ نظر ایسے افراد کی تیاری ہے جو اُس مقام کو دوبارہ حاصل کرنے کی سعی کریں جس کی غیر موجودگی کے باعث مسلمان آج تنزلی کا شکار ہیں۔
شعبۂ تحقیق کے تحت کراچی، پشاور اور مانسہرہ کی اساتذہ اور کل جامعات کی سطح پر تین کورسز کا انعقاد ہوچکا ہے۔ ان ہی کورسز سے تیار کردہ مقالہ نگاروں کی کاوش سے شعبہ تحقیق کے تحت تحقیقی مجلہ کا اجراء کیا گیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ مجلہ میں طالبات و اساتذہ کے تحقیقی مقالے شامل ہیں۔
اسی ضمن میں شعبۂ تحقیق کے تحت مرکز المحصنات میں پانچ روزہ تحقیقی کورس منعقد کیا گیا، جس میں ملک کے مایہ ناز اسکالرز نے تحقیقی طریقۂ کار(research methodology) سے متعلق مختلف موضوعات پر ورکشاپس کروائیں اور تحقیقی مضامین کو ضبطِ تحریر میں لانے کے حوالے سے تیکنیکی اصول و ضوابط واضح کیے۔
افتتاحی سیشن کا آغاز نگران شعبۂ تحقیق ڈاکٹر عابدہ حسام الدین کے خیرمقدمی کلمات سے ہوا۔ انہوں نے کورس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا بنیادی مقصد ریسرچ اسکالرز کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تحقیق کی جانب عملی رہنمائی دینا ہے۔ اس وقت امتِ مسلمہ کو ایسی نوجوان قیادت درکار ہے، جو ذہن و فکر کی پختگی کے ساتھ علم و تحقیق کے میدان میں جمود کی فضا کے خاتمے میں معاون ہو اور اسلام کو ہر شعبۂ زندگی میں بطور حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
اس موقع پر اپنے افتتاحی خطاب میں مرکزی نگران جامعات المحصنات پاکستان مبین طاہرہ نے شعبے کی انتظامیہ کو کورس کے انعقاد پر مبارکباد دی اور کہا کہ غور و فکر اور تدبر انسان کو مقصدِ زندگی سے جوڑتا ہے، اور یہی عمل اسے حق تک پہنچاتا ہے۔
پہلے دن کا اہم پروگرام HHRD سے تعلق رکھنے والے اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر عتیق رضا کا تھا، جو ’’فقہائے کرام کے تحقیقی رویّے‘‘ کے عنوان پر لیکچر دینے کے لیے خصوصی طور پر اسلام آباد سے تشریف لائے تھے۔ انہوں نے چاروں فقہی مسالک (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)کا تعارف اور ان کے طریقۂ تحقیق کا تقابلی جائزہ پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ انسان اُس وقت تک creative نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے پاس معلومات کا ذخیرہ موجود نہ ہو، اور پھر اس علم کے مطابق غورو فکر کے بعد ہی وہ نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے۔
شعبہ تاریخِ اسلامی جامعہ کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سہیل شفیق نے تحقیق کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اپنی ورکشاپ میں تجزیاتی، تاریخی و موازناتی تحقیق کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ تحقیق کا عمل جانفشانی، غیر جانب داری اور ایمان داری کے ساتھ ہوتا ہے۔ وسیع تر آگاہی نئی تحقیق کے در وا کرتی ہے، اور یہ عمل دیانت داری و باریک بینی سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ موضوع کا انتخاب کرتے ہوئے طے کیا جائے کہ اس موضوع کو کیوں منتخب کیا گیا؟ پھر حقائق کو دریافت کرنے کے حوالے سے مواد کے حصول اور طریقۂ کار کا تعین کیا جائے۔ اسلوبِ بیان سنجیدہ اور مؤثر ہونا چاہییے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل سائنس میں ہونے والی تحقیق کے لیے اس کے مدارج کی ترتیب ضروری ہے۔ مفروضہ سے لے کر ریسرچ ڈیزائن، مواد کا حصول، اس کی درجہ بندی اور پھر تجزیہ ایک مکمل طریقۂ کار کے تحت ہونا چاہیے۔
ریسرچ اسکالر شعبۂ سیاسیات جامعہ کراچی اسماء قیصر نے تحقیقی اخلاقی اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی ورکشاپ میں بیان کیا کہ علمی سرقہ کیا ہوتا ہے اور تحقیقی مضامین و مقالہ جات تحریر کرتے ہوئے کن اصولوں کو مدِنظر رکھنا ہوگا۔ اس کے علاوہ ا سماء قیصرکی ایک ورکشاپ طریقۂ تحقیق جیسے اہم موضوع پر بھی تھی جس میں انہوں نے تحقیقی عمل کے مختلف طریقہ ہائے کار کی وضاحت کی اور بتایا کہ معیاری و مقداری تحقیق میں کون سے طریقۂ کار کو اور کیسے تحریر کیا جاتا ہے۔
پروفیسر شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی ڈاکٹر اسامہ شفیق نے’’موجودہ ذرائع ابلاغ اور تحقیق‘‘کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ سوشل سائنس میں تحقیق کے لیے معاشرے سے مکمل واقفیت ہونا ضروری ہے۔ سماج اور سماجی رویوں کے بارے میں معلومات کا درست اور بروقت ہونا اور تجزیاتی نگاہ ہونا کسی بھی محقق کے لیے لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے مفروضے و موضوع کا تعین تحقیقی مقاصد کا تعین کرتا ہے۔ لہٰذا معاشرے کی ضروریات کے مطابق تحقیقی عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ مقالے صرف کتابوں کی زینت نہ بنیں بلکہ عام انسانوں کے سوالات کا جواب دینے والے ہوں ۔
اس پروگرام کی خاص بات یہ تھی کہ نہ صرف کراچی بلکہ مانسہرہ، جھنگ اور پشاور جامعات کی منتخب اساتذہ و طالبات نے کورس کے پانچوں دن مکمل دلچسپی کے ساتھ بھرپور شرکت کی اور اسے بہت مفید قرار دیا۔ پروگرام کے دوران ریسرچ اسکالر ڈاکٹر سعدیہ اعجاز نے اپنی ورکشاپ میں ’’تحقیق کے لیے مواد کیسے جمع کریں‘‘ پر تیکنیکی معلومات دیتے ہوئے وضاحت کی کہ مشاہدہ، موجودہ معلومات، سروے، انٹرویوز، گروپ ڈسکشن، سوالنامے وہ ذرائع ہیں جن سے تحقیقی مواد کو مؤثر بنایا جاتا ہے اور سوالات تیار کرتے ہوئے الفاظ کا چناؤ اور ان کی ترتیب اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولر علوم کی بنیاد فلسفہ ہے جب کہ اسلام حکمت سکھاتا ہے۔ یہ ایک تیکنیکی ورکشاپ تھی جس میں شرکاء کو بنیادی و دیگر ماخذ کے حصول کے طریقۂ کار سے متعلق آ گاہی دی گئی۔
’’درسِ نظامی میں تحقیق کا طریقہ کار‘‘ کے عنوان پر ڈاکٹر عطاء الرحمان نے برصغیر پاک و ہند کے نصابِ تدریس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تحقیق کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم پرانی کتابوں پر ایک نئی کتاب لے آئیں، بلکہ جس طرح ماضی میں مسلمانوں نے تدوین فقہ جیسا شاندار علمی اور تحقیقی کارنامہ سر انجام دیا، ہمیں ان ہی کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ انہوں نے تصنیف و تالیف سے متعلق اصولِ فقہ، منطق، صرف و نحو، بلاغت و منطق میں مسلمانوں کے علمی مراکز کا جائزہ پیش کیا۔
اس سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس پانچ روزہ کورس کے شرکاء کے لیے خصوصی لائبریری کارڈز کا اجراء بھی کیا گیا، جس سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا۔
تحقیقی کورس میں تیکنیکی نوعیت کا ایک پروگرام معروف ریسرچ اسکالر عدنان بیگ کا تھا، جنہوں نے طریقۂ تحقیق کے فرق کو واضح کرتے ہوئے شرکاء سے سوالات کے ذریعے تحقیق کے معیاری و مقداری اندازکو وضاحت سے بیان کیا، اور کہا کہ محقق کو تمام جدید بین الاقوامی قواعد کا خیال رکھتے ہوئے مضمون تحریر کرنا چاہییے۔
ڈاکٹر سہیل شفیق نے ایک اور اہم موضوع پر ورکشاپ کرواتے ہوئے کہا کہ تحقیق کی قبولیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ جس مواد اور ماخذ کو استعمال کررہے ہیں، اس کی اپنی حیثیت کیا ہے؟ اور اس کا تجزیہ کن اصولوں کو مدنظر رکھ کر کررہے ہیں۔ اور کوئی بھی تحقیقی عمل مصادر اور مراجع کے بغیرنامکمل رہتا ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ اعجاز نے کتابیات کے موضوع پر ایک بھرپور ورکشاپ کرواتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور HEC کے مروّجہ قوانین کی وضاحت کی اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ مواد کے معیار کے اعتبار سے کس طرح ریسرچ جرنلز اور تحقیقی مقالہ جات کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے مصادر اور حوالہ جات درج کرنے کے تیکنیکی اصولوں سے بھی آگاہی فراہم کی۔
تحقیقی کورس میں شیخ الحدیث ڈاکٹر مولانا ساجد جمیل نے اصطلاحاتِ قرآن اور تحقیق پر لیکچر دیا۔ اورصراط مستقیم، تقویٰ، شرک، فضل مومن و مسلم کا حوالہ دیتے ہوئے شرکاء کو بتایا کہ ان اصطلاحات پر تحقیق کن نکات کے تحت کی جا سکتی ہے۔
اقراء یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حسام الدین منصوری نے’’تدوینِ حدیث میں تحقیقی باریکیاں‘‘ پر ورکشاپ کرواتے ہوئے روایتِ حدیث اور درایتِ حدیث، فنِ اسماء الرجال، علمِ جرح و تعدیل پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ان تمام اسباب کو بیان کیا جن کی وجہ سے ضعیف احادیث وضع کی جاتی ہیں اور ایک محقق اپنی تحریر کو اس سے کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حدیث وحی غیر متلو ہے جس کی روایت میں احتیاط اور غورو فکر کی دلیل یہ ہے کہ علم اسماء الرجال ترتیب دیا گیا۔
علاوہ ازیں نائب نگران جامعات المحصنات پاکستان نزہت منعم نے ’’تحقیقی مقالہ کیسے لکھیں؟‘‘ کے موضوع پرورکشاپ کرواتے ہوئے کہا کہ لکھنے والے کے لیے لازم ہے کہ اس کے مشاہدے کی حس تیز ہو، حالاتِ حاضرہ سے واقفیت ہو، مطالعہ کی پختہ عادت ہو اور وہ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس ورکشاپ کے دوران شرکاء سے مخصوص عنوانات پر لکھوانے کی مختصر سرگرمی بھی کروائی گئی۔
تحقیقی کورس کے آخری دن کی ایک اہم سرگرمی شرکاء سے ان پانچ دنوں کا جائزہ لینے کے لیے تھی، جسے شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی کی ریسرچ اسکالر اسماء قیصر نے کروایا۔ اس سرگرمی میں شرکائے کورس سے ان کے تحقیقی مضمون کے موضوع سے متعلق مقاصد تحقیق، مفروضہ ، ماخذ تحقیق، تحقیقی سوالات اور تحقیق کے دائرہ کار سے متعلق تحریری آگاہی لی گئی اور دوران سرگرمی مشورے بھی دیے گئے۔
اختتامی سیشن سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے سینئر ریسرچ فیلو رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد ارشد احمد بیگ نے’’حقِ تحقیق‘‘کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور، علم و ادراک اور ارادے کی آزادی دے کر دوسری مخلوقات سے اشرف قرار دیا ہے۔ اس لیے قرآن کا مطلوب انسان غور و فکر سے متصف ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محقق کبھی سطحی سوچ نہیں رکھتا۔ روحِ تحقیق یہ ہے کہ تحقیق، انسانیت کے لیے نافع ہو۔
اختتامی سیشن میں نگران شعبۂ تحقیق عابدہ حسام الدین نے کلماتِ تشکر ادا کیے اور مرکزی نگران مبین طاہرہ نے شرکاء میں یادگاری تحائف تقسیم کیے۔
nn

حصہ