(سلمیٰ اعوان کا(ناول فر حت طاہر

383

یادش بخیر، اردو ڈائجسٹ میں پڑھی سلمیٰ اعوان کی کہانی کے کچھ حصے ذہن میں چمکتے ہیں جنہوں نے اُس وقت سے اُن کو پسندیدہ ناول نگار کا درجہ دے دیا تھا۔ پھر اشتہار دیکھا کہ سلمیٰ اعوان کا ناول ’’تنہا‘‘ شائع ہوگیا ہے۔ ناول پڑھنے کا شوق اپنی جگہ مگر اس کی طلب اور چاہ مزید بڑھ گئی جب معلوم ہوا کہ ناول سابق مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا ہے! وجہ؟ بچپن کی یادوں میں مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کا واقعہ، جو ذاتی غم کی طرح موجود ہے۔ مگر کیوں اور کیسے کے جوابات میں تشنگی تھی۔ اس ناول میں ضرور اس سے پردہ اٹھے گا، کیوں کہ اس کا انتساب ہی موضوع کا احاطہ کررہا ہے ’’اُن بنگالی نوجوانوں کے نام، جنہیں پاکستان سے پیار تھا اور جو اس کی سالمیت کے لیے کٹ کٹ مرے۔‘‘
اس ناول کی دستیابی ایک جستجو ہے جو ہر بڑے چھوٹے کتب میلے میں ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ شکر ہے کہ فروری میں ہونے والے کتب میلے میں بالآخر دستیاب ہوگیا۔ اگرچہ دو ہفتے پہلے آن لائن اس ناول کو پڑھ چکے تھے مگر کتابی شکل میں پڑھنے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ یہ ناول ہماری پہنچ سے کیوں دور رہا؟ اس سوال کا جواب اسی ناول کے ابتدائیہ میں مصنفہ کی زبانی ’’ایک شکایت، ایک حکایت‘‘ میں ملتا ہے:
’’جون 1970ء میں ڈھاکا یونیورسٹی سے واپسی کے بعد اسے لکھنا شروع کیا۔ 1972ء میں سنگِ میل والوں کے پاس پہنچا۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جیل جانے کا ارادہ نہیں۔ فیروز سنز والوں نے کچھ حصے حذف کرنے کو کہا اور یہ وہ حصے تھے جن کے بغیر اس کہانی کا جواز نہیں بنتا۔ مکتبہ جدید کے پاس گیا تو انہوں نے تعریف تو بہت کی مگر حکومت کا ڈراوا دیا۔ اب مکتبہ عالیہ کی باری تھی۔ انہوں نے بہ خوشی وصول تو کرلیا مگر ٹال مٹول! 1972ء سے 1977ء تک کتابت کا جاں گسل مرحلہ طے ہوا۔ ستمبر میں آس بندھی تو مارشل لا بہانہ بن گیا۔ 1980ء میں مسودہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے الطاف حسن قریشی کے پاس پہنچا تو انہوں نے تھوڑا انتظار کرنے کو کہا۔‘‘
مصنفہ کے الفاظ ’’پروردگار! سچ لکھنا کیا اتنا بڑا جرم ہے؟‘‘ بہرحال 1982ء میں ڈاکٹر اعجاز قریشی سے بات ہوئی اور انہوں نے ہامی بھرلی۔ پھر کتاب چھپ گئی۔ بارہ سال بعد خدا نے روڑی کی سن لی تھی۔
سلمیٰ اعوان کی خصوصیت سفرنامے ہیں، لہٰذا اس ناول میں اس کا رنگ خوب نظر آتا ہے۔ اس میں ناول کے تمام اجزا نہایت چابک دستی اور مہارت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ ناول خوب صورت انسانی جذبات کے ساتھ ساتھ ایک تاریخی دستاویز بھی ہے۔ جغرافیہ کی دل چسپی، قدرتی مناظر کا شاہکار، ثقافت کے تمام رنگ خواہ عید ہو یا رمضان ، شادی ہو یا جنم دن، موسموں کے تہوار ہوں یا مادری زبان کا دن، سب کی جھلک نظر آتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی زندگی کے ہر گوشے سے آگہی ملتی ہے۔ جذبات نگاری، منظر نگاری، کردار نگاری سے بھرپور یہ ناول بنگال کے چپے چپے سے روشناس کراتا ہے۔
ناول کی ہیروئن سمعیہ علی عرف سومی ایک نڈر، پُرتجسس اور فعال لڑکی ہے جس کی پرورش والدین کی وفات کے بعد دادی اور چچا نے کی ہے۔ چچا فوج میں ہیں جن کے گھر بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کا آنا جانا ہے۔ ننھی سومی ان سے بہت مانوس ہے اور وہ بھی اُس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ بڑے ہوکر بنگال کی کشش اسے وہاں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کی ضد کے آگے چچا، دادی اور بھائی، بھابھی نے ہتھیار ڈال دیے اور وہ ڈھاکا یونیورسٹی میں داخلہ لینے پہنچتی ہے تو چچا کے دوست کے بھائی اس کے مقامی سرپرست مقرر ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہاسٹل میں مقیم ہے مگر اس گھرانے کی محبت اور اپنائیت اسے اپنے سحر میں جکڑے رہتی ہے۔ یہ گھر، جہاں چار بیٹے ہیں، بیٹی کا شدت سے متمنی ہے، لہٰذا اس کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے ماسوائے سب سے بڑے بیٹے اجتبیٰ الرحمن (شلپی) کے!
شلپی اس ناول کا مرکزی کردار ہے جس نے ایک بچے کی حیثیت سے جوش و خروش سے قیام پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جذباتیت میں کمی آتی گئی، خصوصاً جب اس نے اپنے دادا، جو ایک عالمِ دین تھے، کو زبان کے مسئلے پر قائد کے فرمان پر آزردہ دیکھا۔ پھر سیلاب میں سامانِ زیست کے ساتھ ساتھ قیمتی خزانہ کتب کا دریا بُرد ہوجانے پر دادا نے زندگی کی بازی ہار دی۔ امداد کے لیے اداروں کے پاس ایک نوعمر لڑکے کی حیثیت سے گیا تو اُن کے تحقیر آمیز رویّے نے اس کے اندر آگ بھر دی جسے ہندو نواز عصبیت ذہنیت اور افراد نے اچھی طرح اپنی طرف مائل کرلیا، اور یوں وہ ایک قوم پرست ہیرو بن گیا۔
ہزاروں نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہونے کے باوجود اس کے اپنے دل کی سلطنت بالکل خالی ہے اور اتفاق سے سومی، جس کو دیکھ کر اس نے پہلے ناگواری کا اظہار کیا تھا، آہستہ سے اس کے دل پر قابض ہوجاتی ہے۔ یہاں سے جذبوں کی کشمکش شروع ہوتی ہے۔ درمیان میں کچھ بھی رکاوٹ نہیں ہے ماسوائے نظریا تی اختلاف کے۔
اس موقع پر جب تعصب کی آندھیاں عروج پر پہنچ چکی تھیں، سومی کے سامنے بھی یہ لمحہ آیا کہ اُسے کسی نہ کسی سیاسی پلڑے میں اپنا وزن ڈالنا ہے تو باوجود اپنے رہن سہن، اور مزاج کے برخلاف جمعیت طلبہ جیسی نظریاتی پارٹی کا حصہ بن جاتی ہے۔ سومی بظاہر ایک لاپروا، اپنی دل چسپیوں میں مگن سی لڑکی ہے مگر جب بنگال کے لوگوں کے بدلتے تیور اور دل شکن رویّے دیکھتی ہے تو پاکستان کی سلامتی کے لیے یکسو ہوجاتی ہے۔ ملک کے مغربی حصے اور ان کے افراد کے خلاف بغض، نفرت کے تیر، طعنوں کی بوچھاڑ اس کے دل کو چھلنی کردیتے ہیں، اس وقت وہ نظریۂ پاکستان اور قیام پاکستان میں بنگال کے کردار کو یاد کرکے خوب آزردہ ہوتی ہے۔
اسی کشمکش کے باعث سومی بیمار پڑجاتی ہے۔ اس دوران دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر شلپی اسے شادی کا پیغام دیتا ہے جس کو وہ فوراً رد کردیتی ہے، مگر بعد میں منفی سرگرمیاں چھوڑ دینے سے مشروط کردیتی ہے، جس کے جواب میں شلپی اسے بذریعہ خط اپنے فیصلے سے آگاہ کرتا ہے جس میں وہ اپنے عمل کو ردعمل کا شاخسانہ گردانتا ہے۔ یہ خط اسے مزید مضمحل کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔
دوسری طرف سومی کی مثبت سیاسی اور ثقافتی سرگرمیاں ہندوؤں اور علیحدگی پسندوں کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہیں اور وہ اس کے اغوا کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اس انکشاف کے بعد شلپی اپنے پارٹی ورکرز کو اس کی حفاظت پر لگا دیتا ہے اور اپنے والدین کے ذریعے سومی پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ مشرقی پاکستان چھوڑ دے۔ پہلے تو وہ بپھر جاتی ہے، مگر پھر یہ دیکھ کر کہ یہ بات اس کے اتنے چاہنے والوں کے لیے وجہ پریشانی بن رہی ہے، بادل ناخواستہ واپسی کا رختِ سفر باندھ لیتی ہے۔ سرپرست کے بلاوے پر اس کا بھائی لاہور سے اسے لینے پہنچ جاتا ہے۔ رخصت ہونے سے قبل شلپی اور سومی کے درمیان مکالمہ اس کرب کا اظہار ہے جو مشرقی بازو کی جدائی پر رگ و پے میں اتر گیا تھا، اور ناول کے اختتام پر اجتبیٰ الرحمان (شلپی) ماں کے شانوں پر سر رکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں کہتا ہے:
’’ماں ! دیکھو تو ذرا باہر۔۔۔ ڈھاکا تو اجڑا اجڑا لگتا ہے۔‘‘
اور یہی جذباتی اختتام قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ یہ ناول آگ اور خون کی وہ کہانی ہے جو قوم پرستی کے ہاتھوں لگائی گئی اور نفرتوں کے شعلوں سے بھڑکائی گئی۔ ناول ہو یا ڈراما، اگرحقیقی واقعات سے کشید کیا جائے تو دل چسپی کے ساتھ ساتھ تعلق بھی اپنے اندر سموئے ہوتا ہے، اور شاید اسی لیے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ احساسات کا ایک طوفان ہے جو اُمڈتا ہے قاری کو ڈبونے کے لیے، اور پھر آنکھوں سے ٹپک جاتا ہے !
اس کی ایک مثال ٹی وی ڈراما ’’دھواں‘‘ ہے! اس میں ڈاکٹر داؤد کا قتل ہوجاتا ہے۔ ڈرامے کے مصنف نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ ایک لڑکی نے مجھے فون کیا اور بیس منٹ تک روتی رہی کہ کسی اور کو کیوں نہیں مروا دیا؟ اور یہی بات اس ڈرامے کو دیکھنے والی تیسری نسل میں سے ایک بچی نے کہی اور دشمن سے لڑنے کا عزم کیا!
اس ناول کا انجام خوش گوار کیوں نہ ہوسکا؟ پاپولر فکشن میں ملن ضروری ہوتا ہے، جب کہ تاریخی اور حقیقی واقعات کا انجام اپنی مرضی کا نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو جدائی اور علیحدگی کے دکھ نہ ہوتے۔
آہ شلپی! تمہیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بُو تو آئی مگر اپنے اسلاف کی کوئی جھلک تمہیں یاد نہ رہی؟ تم نے اپنے اندر موجود کردار کی پختگی، جذبات کا ٹھیراؤ، الفاظ کی نرمی سب کچھ اس قومیت کے دھارے میں بہا ڈالا۔
کاش تم اپنے عالمِ دین دادا کے نام کی لاج رکھ لیتے!
اپنے محب وطن چچا کی وفاداری کو دھبہ نہ بناتے!
اپنے والدین کو ایک بیٹی کی خوشی سے محروم نہ کرتے!
اپنے چھوٹے بھائیوں کی پیاری سومی آپا کو جدا نہ کرتے!
اپنی زندگی اور محبت کو عصبیت کے منہ زور گھوڑے پر قربان نہ کرتے!
آہ! تمہاری نفرت کی سیاست کی وجہ سے ارسلان اور اقبال جیسے نوجوان جو اُس وقت بچ گئے تھے، آج پھانسیوں پر جھول رہے ہیں۔ یکجائی کے لیے لڑنے والی اس جدوجہد کی سزا آج تک وصول کررہے ہیں۔۔۔ آہ تم نے نہ جانے کس کس کو تنہا کردیا!
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا پرانی بات ہوگئی ہے، آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ماضی اور تاریخ تو وہ آئینہ ہے جس سے مستقبل کے خدوخال سنوارے جاتے ہیں۔ وہ کہانیاں جو آج بھی دہرائی جا رہی ہیں، جب تک اُن کا سرورق تبدیل نہیں ہوتا، ’’تنہا‘‘ جیسے ناول ہمیں بے چین کرتے رہیں گے !!

حمیدہ شاہین
سویرے اُٹھ کر
میں اپنی بے خواب شب کا غصّہ اُتاروں تم پر
پراٹھا تلتے ہوئے مِرے ہاتھ پر گرے گرم گھی کا چھینٹا
تو تلملا کر کہوں کہ یہ ہے
تمہارے چہرے پہ رکنے والی نگاہِ اوّل کا شاخسانہ
جو سوٹ پہنوں، وہ فِٹ نہ آئے
اور اُس کے میچنگ کڑے بھی ہاتھوں کو چھیلتے ہوں
تو بڑبڑا کر میں پاؤں پٹخوں
کہوں کہ اِس گھر میں ہے نحوست
جہاں پہ پھوٹی ہے میری قسمت
پہن کے سینڈل میں اُتروں زینے
تو اُونچی ایڑی ذرا سی پھسلے
سنبھل کے میں تم پہ ایک ایسی نگاہ ڈالوں
جو کہہ رہی ہو
کہ ’’سب تمھارا کیا دھرا ہے‘‘
جو گھر سے نکلوں
تو گیٹ یوں بند کر کے جاؤں
کہ بم دھماکے کا شائبہ ہو
پلٹ کے آؤں تو
تنتناتے ہوئے میں سر سے اتاروں چادر
اور اس کا گولا بنا کے صوفے پہ ایسے پھینکوں
کہ گویا گھر آ کے میں نے سب پر
عظیم احسان کر دیا ہے
یہ سب اگر ہو۔۔۔۔۔۔!
مگر یہ کردار
اس کہانی میں یوں نہیں ہے

حصہ