(بہت ضروری کام یہ ہے کہ(عبدالرب احمد

289

دسویں جماعت ہے، حساب کے لگاتار دو پیریڈ ہوتے ہیں، لیکن حساب کی ٹیچر آج رخصت پر ہیں۔ پرنسپل صاحبہ نے پہلے ہی کلاس میں اطلاع بھجوا دی ہے کہ آج حساب کی کلاس وہ لیں گی۔ پرنسپل صاحبہ تشریف لائیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ پڑھانے کے بجائے آج ایک مذاکرہ رکھنا چاہتی ہیں (سب لڑکیوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی)، مذاکرے میں جو طالبات چاہیں حصہ لے سکتی ہیں، ہر مقرر کو زیادہ سے زیادہ تین منٹ میں اپنی بات ختم کرنی ہے، ملک و قوم کی بھلائی سے متعلق کوئی کام جو ضروری لگتا ہو اُس پر بات کرنی ہے۔ پرنسپل صاحبہ نے مذاکرے کا عنوان تختۂ سیاہ (بلیک بورڈ) پر لکھ دیا ’’میرے خیال میں ملک و قوم کی بھلائی کے لیے بہت ضروری کام یہ ہے کہ ۔۔۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے بچیوں کو سوچنے اور غور کرنے کے لیے دس منٹ کا وقت دیا۔ کلاس میں خاموشی چھا گئی، (سب نے سوچنا شروع کردیا تھا)۔ دس منٹ پورے ہوئے، ایک بچی اجازت لے کر کھڑی ہوئی اور اس نے کہا ’’میرے خیال میں ایک بہت ضروری کام جو ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ملک میں ٹریفک کا نظام درست ہو۔ سختی کے ساتھ ٹریفک قوانین پر عمل کرایا جائے تاکہ حادثات کم سے کم ہوں۔ نہ کوئی غلط رخ پر گاڑی چلائے، نہ چوراہے پر اشارے کی خلاف ورزی کرے، نہ ہی ہارن بجائے۔ اور قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سڑک کے کنارے کم از کم دو گھنٹے کے لیے بطور سزا، کھڑا رکھا جائے۔‘‘
ایک اور بچی نے ہاتھ اٹھاکر اجازت لی اور کھڑے ہوکر کہا: ’’میں بہت ضروری کام یہ سمجھتی ہوں کہ پورے ملک میں پان، گٹکا اور اسی طرح کی دیگر چیزوں پر مکمل پابندی ہو، اور خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ اور سخت سزائیں ہونی چاہئیں۔ ان چیزوں کے استعمال سے بچوں اور بڑوں کو صحت کے اعتبار سے جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو نہیں ہے۔ مزید یہ کہ عوامی آگہی کے لیے ذرائع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘
تیسرے نمبر پر جو بچی کھڑی ہوئی اُس کا کہنا تھا: ’’پاکستان کو بہتر بنانے کے لیے شہروں میں ہر طرح کی تجاوزات کو ختم ہونا چاہیے، لوگوں کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے کاروبار کرنا چاہیے، ریڑھی والوں کے لیے جگہیں مخصوص ہوں جہاں وہ مقررہ اوقات میں کھڑے ہوکر اپنا کاروبار کرسکیں۔ سڑک پر گاڑیوں کے لیے اور فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘‘
اس کے بعد ایک اور بچی نے بھی ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی، اس کا کہنا تھا: ’’ملک کی بہتری کے لیے ہر چھوٹے بڑے سے خواہ ان پڑھ ہو یا پڑھا لکھا، میری یہ درخواست ہے کہ پلاسٹک کی خالی تھیلی یا شاپنگ بیگ پھینکنے سے پہلے ہمیشہ اُس پر گرہ لگائیں پھر پھینکیں، تاکہ خالی تھیلیاں ہر جگہ اڑتی ہوئی ماحول کو خراب نہ کریں۔‘‘
اب جو طالبہ کھڑی ہوئی اُس کا خیال تھا کہ ’’ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے کہ رشوت کو ختم کیا جائے، کیونکہ یہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور اسی کی وجہ سے لوگوں کو انصاف نہیں مل پاتا۔ رشوت ختم کرنے کے لیے ایک مدت مقرر کردی جائے کہ اس کے بعد اگر کوئی بھی مجرم ثابت ہوا تو اسے عوام کے سامنے سزا دی جائے گی، رشوت لینے والے کو بھی اور دینے والے کو بھی۔‘‘
ایک اور بچی نے کہا: ’’پورے ملک میں آمد و رفت کا ایسا بندوبست ہونا چاہیے کہ لوگ وقت پر اپنی منزل تک پہنچ سکیں اور قوم کا وقت ضائع ہونے سے بچے۔ شہروں میں خاص طور پر زیادہ نشستوں والی بسیں چلائی جائیں جن کے پیچھے ٹریلر لگے ہوں جو خواتین اور بچوں کے لیے مخصوص ہوں، تاکہ خواتین کو سفر میں جو مشکلات ہیں وہ دور ہوں۔‘‘
اب جس طالبہ کی باری تھی اس نے ایک ایسی بات کی طرف متوجہ کیا جس کی طرف عام طور پر لوگوں کا دھیان نہیں جاتا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں اپنے کرنسی نوٹوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نہ تو ہمیں ان پر داغ دھبے لگانے چاہئیں، نہ کچھ لکھنا چاہیے۔ اگر کچھ لکھنا ضروری ہو تو صرف پنسل سے لکھیں جو مٹایا جا سکے۔ دوسری بات یہ کہ نوٹوں کے ہار وغیرہ بنانے پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ کرنسی نوٹوں کی چھپائی میں قوم کا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر نوٹ گندے ہوں تو غیر ممالک میں ہمارے بارے میں برا تاثر پیدا ہوتا ہے۔‘‘
ایک اور بچی نے اپنی باری پر اس طرح اظہارِ خیال کیا: ’’میں دو باتوں کی نشاندہی کرنا چاہتی ہوں۔ پہلی یہ کہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ اس کی ترقی، اس کی حفاظت اور اس کے فروغ کے لیے ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ جب ہم اردو لکھیں تو رومن رسم الخط استعمال نہ کریں، یعنی اردو کو انگریزی حروف میں نہ لکھیں۔ دوسری بات یہ کہ جب اردو لکھی جائے تو اس کے ساتھ ہندسے بھی اردو ہی کے لکھے جائیں۔ اگر ہم نے اس بارے میں احتیاط نہ کی تو ہم اپنی قومی زبان ہی کو نہیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی زبان کے اعتبار سے نقصان میں رکھیں گے۔‘‘
ایک بچی کا کہنا تھا کہ ’’میری درخواست متعلقہ ذمہ دار اور بااختیار لوگوں سے یہ ہے کہ جو بچے اس وجہ سے محنت مزدوری کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر والوں کی کفالت کرنی ہوتی ہے، ایسے بچوں کے لیے تعلیم کا حصول حکومت کے ذمے ہونا چاہیے، اور ان بچوں کو اسکول کے اوقات کے بعد صرف چار گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے ایسے بچوں کے گھر والوں کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر ہونا چاہیے۔‘‘
مذاکرے میں حصہ لینے والی آخری بچی کا کہنا تھا کہ ’’شہر کی دیواروں پر لکھنے اور اشتہار لگانے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ کوئی پیسے خرچ کرکے اپنی دیوار پر رنگ روغن کرائے، اور دوسرا آکر اُس کی دیوار کو اپنے مقاصد کے لیے گندا کردے، اور شہر کو صاف رکھنے کے بجائے اسے گندا کرے۔ دوسرے ممالک سے آنے والے بھی ہمارے بارے میں برا تاثر لے کر واپس جائیں۔ اشتہارات وغیرہ کے لیے جگہیں مخصوص ہونی چاہئیں اور صرف ان ہی جگہوں پر پوسٹر وغیرہ لگائے جائیں‘‘۔
جب بچیاں اپنے خیالات کا اظہار کرچکیں تو پرنسپل صاحبہ کھڑی ہوئیں اور بسم اللہ کے بعد انہوں نے اپنی بات اس طرح شروع کی: ’’میری بچیوِ! آپ سب نے بہت اچھی باتیں بتائیں، کئی اہم قومی مسائل کی نشاندہی کی۔ آپ کی باتیں سن کر اندازہ ہوا کہ بڑوں کی طرح بہت سے بچے بھی قومی نوعیت کے مسائل پر سوچتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ آپ اچھائی اور برائی، صحیح اور غلط میں فرق کرسکتی ہیں۔ اگرچہ آپ سب کو سوچنے اور بولنے کے لیے بہت کم وقت دیا گیا، پھر بھی آپ نے جن خرابیوں کی نشاندہی کی، اور کرنے کے جو کام بتائے وہ سب بہت اہم ہیں۔ آپ کی باتوں میں ایک بات کا اضافہ میں بھی کرنا چاہوں گی اور وہ یہ کہ جس طرح ہم اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں اسی طرح گھر سے باہر بھی ہمیں کوئی کچرا نہیں پھینکنا چاہیے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ باہر کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، لیکن اگر کسی نہ کسی وجہ سے حکومت سے اس کام میں کوتاہی ہوتی ہو تو اس معاملے میں ہمیں بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے اور باہر کچرا نہیں پھیلانا چاہیے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے، کچرا سمیٹنے والے جتنے بھی زیادہ ہوں اُن کے مقابلے میں کچرا پھیلانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اگر ہم کچرا باہر پھینکنا بند کردیں تو واضح بہتری آسکتی ہے۔ یاد رکھیں ماچس کی ایک تیلی بھی کچرا ہے۔
اب کچھ بات ان مسائل کے حل سے متعلق، جن پر آج کے مذاکرے میں اظہارِ خیال کیا گیا۔ میری بچیو! اگر ہم کو حالات تبدیل کرنے ہیں تو یہ کام ایک دو مسائل کو حل کرنے سے نہیں ہوگا۔ مثلاً اگر صرف دیواریں صاف کردی جائیں یا پان گٹکا ختم کردیا جائے تو کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔ اصل بہتری کے لیے نہ صرف ان تمام باتوں پر عمل کرنا ہوگا بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سی خامیاں اور خرابیاں ہیں جن کو دیکھنا ہوگا اور ان کی اصلاح کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔ یہ کام کیسے ہو؟ پورے ملک میں ہر فرد کو کیسے معلوم ہو کہ اُسے ایسا کرنا ہے اور ایسا نہیں کرنا؟ ٹی وی اور اخبارات باتوں کو پھیلانے کا اچھا ذریعہ ہیں، لیکن نہ تو سب لوگ ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں اور نہ عوام کی اکثریت اخبار پڑھ سکتی ہے۔ اگر بڑی تعداد میں لوگ ان باتوں پر عمل کرنا شروع بھی کردیں تو یہ کچھ عرصے کے لیے ہی ممکن ہوگا، اور اس کے بعد رفتہ رفتہ لوگ عمل کرنا بھول جائیں گے۔ بے شمار بچے جو بڑے ہوں گے انہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہ ہوگا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ایسا کوئی طریقہ ہونا چاہیے کہ ملک کے ہر فرد کو ان باتوں کا پتا ہو، اور وہ خود ہی ان تمام باتوں پر عمل کرنا اپنی ذمہ داری سمجھے۔ آپ سب نے فوجیوں کو پریڈ کرتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا۔ ہر فوجی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کس وقت کیا کرنا ہے، کب مڑنا ہے، کب رکنا ہے وغیرہ۔ یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ان سب کو ایک ہی طرح کی تربیت دی جاتی ہے اور مشق کرائی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے میں خاصا وقت لگتا ہے۔ ہمیں بھی ایک فوج تیار کرنی ہوگی۔ ملک کا ہر شہری اس فوج کا حصہ ہوگا۔ اور اس ’’شہری فوج‘‘ کے ہر فرد کو تربیت کے نتیجے میں یہ معلوم ہوگا کہ اسے کس موقع پر کیا کرنا ہے۔ یہ فوج بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی خرابیوں سے لڑنے کے لیے ہوگی، اسی لیے اس فوج کے پاس روایتی اسلحہ تو نہیں ہوگا لیکن یہ فوج تعلیم کے ہتھیار سے پوری طرح لیس ہوگی۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فوج کے لیے کون سی تعلیم مناسب ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ منظم طریقے سے زندگی گزارنے کے لیے ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو ہر درسگاہ کے لیے یکساں ہو۔ دینی مدارس میں جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے والے مضامین بھی ہوں اور عام اسکولوں میں بنیادی دینی تعلیم کے لیے بھی نصاب میں مضامین شامل ہوں۔ اسکول نجی ہو یا سرکاری، بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھیں یا کرسیوں پر بیٹھ کر، کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کریں یا ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔۔۔ لیکن اگر ہم اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے ثمرات بھی چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پورے ملک کی درس گاہوں میں ایک نصابِ تعلیم اور ایک یونیفارم رکھنا ہوگا۔ یہ قومی اتحاد کے لیے بہت ضروری ہے۔ نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے یہی ایک طریقہ کارگر ہوسکتا ہے۔ یقینِ محکم کے لیے دینی تعلیم سے عملی زندگی میں رہنما اصول فراہم ہوں گے۔ اگر آج اس کام کی ابتدا ہوجائے تو آئندہ بیس پچیس سال میں ہم ایک متحد اور منظم قوم بن سکتے ہیں۔ ایک اصلاحی انقلاب کے لیے یہ عرصہ کچھ زیادہ نہیں۔ اس سے تین گنا زیادہ عرصہ تو ہم نے بہت سی فضولیات میں گزار دیا ہے۔ آخر میں اس امید کے ساتھ کہ آج کا مذاکرہ آپ سب کو اچھا لگا ہوگا، آپ سب کا شکریہ!‘‘ آج سب کو لگا جیسے دو پیریڈ بہت جلدی ختم ہوگئے۔
nn

حصہ