(کھودیا تو پچھتاؤگے یہ وقت پھر نہ پاؤ گے (محمد عمر احمد خان

238

چھوٹو کے گیراج کے بالکل سامنے اسکول تھا۔ جہاں صاف ستھرے کپڑے پہنے چھوٹے بڑے بچّے، بَستے گلے میں لٹکائے، ہنستے مسکراتے علم حاصل کرنے آتے۔ اسکول کے باہر گیٹ پر بڑا سا بورڈ لگا تھا، جس پر پیارے نبیؐ کا یہ فرمان درج تھا: علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔
چھوٹو جب بھی گاڑیاں ٹھیک کرنے کے دوران گردن اٹھاتا، اس کی نظریں بورڈ پر جا کر ٹِک جاتیں اور کچھ دیر کے لیے واپس ہی نہ آتیں۔ اسے ان بچّوں پر رشک آتا، جو سردی، گرمی، بارش اور آندھی میں بھی علم حاصل کرنے بڑی پابندی کے ساتھ اسکول آتے۔ چھوٹو یہ بھی دیکھتا کہ جو بچّے چھوٹے ہوتے، ان کے ماں باپ انہیں اسکول چھوڑنے آتے۔ سرخ وسپید، ننھّے مُنّے پیارے پیارے بچّوں کو ہنسی خوشی اسکول کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے اور ان کے ماں باپ کو ہاتھ ہلا کر اللہ حافظ کہتے دیکھ کر چھوٹو کو بے اختیار اپنا بچپن یاد آجاتا۔ اس کی ماں کی بڑی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا خوب دل لگا کر پڑھے، بڑا آدمی بنے، لیکن چھوٹو کا پڑھنے لکھنے میں دل نہ لگتا۔ جماعت میں وہ روزانہ استادوں سے پٹتا۔ اسکول سے، جو ہوم ورک ملتا، وہ بھی مکمل نہ کرتا۔ بچپن میںآج کا کام اس نے ہمیشہ کل پر ٹالا تھا۔
چھوٹو نے جو عادت اپنالی تھی، وہ بُری تھی، چناں چہ بری عادت کا اسے نقصان پہنچنے لگا۔ اسکول میں روز اسے سزا ملتی، اس کی کاپیوں پر جگہ جگہ لکھا ہوتا:
املا صحیح کرو، اپنا کام وقت پر کرو، سخت محنت کی ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ہم جماعت دوست بھی اسے سمجھاتے، پڑھائی میں دل لگانے کو کہتے، مگر چھوٹو ہنس کر دوستوں کی باتیں ٹال جاتا۔ جب ماں کو یہ معلوم ہوا کہ چھوٹو وقت پر اسکول نہیں آتا ہے اور اسکول کا کام نہیں کرتا ہے تو اس نے بھی بیٹے کو سمجھایا کہ بیٹا، یہی پڑھنے لکھنے کے دن ہیں۔ یہ وقت گزرگیا تو پھر نہیں آئے گا۔ چھوٹو ماں کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا۔ اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تو بے چاری ماں سِلائی کڑھائی کر کے گھر کا خرچہ چلاتی اور چھوٹو کے تعلیمی اخراجات بھی پورے کرتی۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح اس کا اکلوتا بیٹا پڑھ لکھ لے اور بڑا آدمی بن جائے، لیکن چھوٹو پڑھنے لکھنے کے بجائے اسکول سے بھاگنے لگا، کبھی پارک میں، کبھی بازار میں تو کبھی میلوں ٹھیلوں میں نکل جاتا۔ وقت کی قدر نہ کی جائے اور اس کا صحیح استعمال نہ کیا جائے تو پھریہ بھی ناقدروں کی قدر نہیں کرتا۔ چھوٹو نے وقت کی قدر نہ کی تو اس کا نام اسکول سے خارج ہوگیا۔ ماں کو پتا چلا تو وہ بھاگی بھاگی اسکول پہنچی۔ استادوں سے التجا کی کہ چھوٹو اب پابندی سے اسکول آئے گا، محنت سے پڑھے گا، کبھی چھٹّی نہیں کرے گا۔ براہِ کرم، اسے ایک موقع اور دیا جائے۔ استادوں نے کہا: اب تک پانچ مواقع اسے دے چکے ہیں، اب نہیں دیں گے۔
چھوٹو کا نام کٹ گیا اور ماں مایوس ہوکر لوٹ آئی۔ اسے چھوٹو کے پڑھائی چھوڑ دینے پر سخت صدمہ ہوا۔ صدمے سے بیمار پڑگئی اور اسی بیماری میں اس کا انتقال ہوگیا۔ چھوٹو ماں کو کھودینے پر بہت رویا، لیکن رونے سے کوئی واپس تو نہیں آتا۔ ماں کی خواہش پوری نہ کرنے کا اسے ہمیشہ ملال رہا۔
آگے پیچھے تو کوئی تھا نہیں، اس لیے کچھ دن تو اِدھر اُدھر آوارہ پھرا، پھر ایک گیراج میں گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام کرنے لگا۔ جس گیراج میں وہ کام کرتا، وہاں اور بھی بہت سے لڑکے کام کرتے تھے۔ اس کا نام شاہد تھا، لیکن مستری اسے ’’چھوٹو‘‘ کہہ کر بلاتا۔ ’’چھوٹو، گیارہ نمبر کا پانا لانا۔۔۔چھوٹو، مہمان آئے ہیں، دوڑ کرجا اور کڑک چائے لا۔۔۔چھوٹو باتیں نہ بنا، کام کر۔۔۔‘‘
مستری کا دیا ہوا نام ’’چھوٹو‘‘ اس کی شناخت کا حصّہ بن گیا اور اصل نام وقت کی دھند میں کہیں گم ہوگیا ۔
چھوٹو نے گاڑیاں ٹھیک کرنے کے کام میں عبور حاصل کرلیا تھا۔ وقت کا پہیّا گھوم رہا تھا اور اب چھوٹو کسرتی جسم کا مضبوط نوجوان بن چکا تھا۔ گزرتے ہوئے وقت نے آس پاس کا ماحول بھی تبدیل کردیا تھا۔ چھوٹو جس گیراج میں کام کرتا تھا، اس کا مالک باہر چلا گیا تو چھوٹو نے ایک دوسرے گیراج میں کام شروع کردیا۔ گاڑیوں کی مرمّت کرتا ہوا چھوٹو اوپر سے بہ ظاہر پُرسکون دکھائی دیتا، لیکن یہ اس کا دل ہی جانتا تھا کہ اس کی روح اندر سے کتنی بے چَین ہے۔
نئے گیراج کے بالکل سامنے اسکول تھا، جہاں بچّے پڑھنے آتے تھے۔ وہ ہنستے مسکراتے، خوشی خوشی اسکول آتے بچّوں کو دیکھتا تو اس کے دل پر ایک گھونسا سا لگتا۔ وہ تو کبھی اس طرح خوش خوش اسکول نہیں گیا تھا۔ کاش، میں نے وقت کی قدر کی ہوتی تو آج گاڑیوں کا مکینک نہ ہوتا، چھوٹو کہہ کر نہ بُلایا جاتا۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ وقت کی ڈوری اس کے ہاتھ میں آجائے اور وہ وقت کو پَلٹا کر اپنے بچپن میں لے جائے اور پھر اسے ایک ہی جگہ ٹھہرا دے، لیکن ایسا کب ہوا ہے؟ رونے اور پچھتانے کا اب کوئی فائدہ نہ تھا۔
معمول کے مطابق ایک روز چھوٹو گیراج میں کام کررہا تھا کہ ایک سرخ رنگ کی شان دار نئی کار گیراج کے سامنے آکر رکی۔ کار کا دروازہ کھلا، ایک خوب صورت سا نوجوان صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس باہر نکلا۔
’’بھائی، ذرا اس گاڑی کا انجن چیک کرنا، آواز کررہا ہے!‘‘ نوجوان نے نہایت شائستہ لہجے میں اس سے کہا پھر ہاتھ پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوئے بولا: ’’کام جلدی ہوجائے گا ناں برادر، مجھے کلینک پہنچنا ہے، مریض میرا انتظار کررہے ہوں گے‘‘۔
چھوٹو نے نوجوان کی یہ بات سن کر گاڑی کا بونٹ اٹھایا اور انجن چیک کرنے لگا۔ چھوٹو انجن چیک کرہی رہا تھا کہ نوجوان اس کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’اگر میں غلطی پر نہیں تو تم یقیناً شاہد ہو!‘‘
’’ہاں میں شاہد ہوں!‘‘ بہت دنوں بعد کسی کے منہ سے اپنا اصلی نام سن کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی۔
’’میں آصف ہوں آصف۔۔۔یاد ہے ہم ساتھ ہی ایک اسکول میں پڑھا کرتے تھے، تم سُناؤ، کیسے ہو؟ تمہاری امّی کیسی ہیں؟؟‘‘ امّی کا سُن کر چھوٹو کے دل کے تار جُھنجھنا اُٹھے۔ اس نے ڈاکٹر آصف پر ایک گہری نظر ڈالی اور دھیرے سے کہا: ’’میں نے تمہیں پہچان لیا ہے، تم آصف ہو، کبھی میرے ساتھ پڑھتے تھے، لیکن اس وقت کام پھیلا ہوا ہے، میں بہت مصروف ہوں!‘‘
پھر مستری کو آواز دینے لگا۔ مستری آگیا تو کہا: ’’ڈاکٹر صاحب کی گاڑی کا انجن اچھی طرح دیکھ لو اور ہاں، جلدی فارغ کردینا، انہیں مریضوں کو دیکھنا ہے‘‘۔ مستری کو ہدایات دیتے ہوئے وہ اپنے پرانے دوست سے نظریں نہیں ملا پارہا تھا، اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ بھیگتی آنکھوں کو دوست سے چھپاکر جلدی سے وہ گیراج کے اندر چلا گیا۔ اچھا وقت کھودینے کے ساتھ ہی اسکول کے پرانے ساتھی سے باتیں کرنے کا حوصلہ بھی وہ کھوچکا تھا!!
nn

فراغ امروہوی
اللہ اکبر، اللہ اکبر
یعنی اللہ سب سے برتر
یہ مت پوچھو وہ ہے کیسا؟
کوئی نہیں ہے اس کے جیسا!
قرآں کا ہر پارہ شاہد
وہ ہے یکتا اور ہے واحد
سورج، چاند اُگانے والا
تاروں کو چمکانے والا
کیسے کیسے باغ لگائے
رنگ برنگے پھول کِھلائے
سب کو روزی دینے والا
سب کی نَیّا کھینے والا
وہ چاہے تو عزّت دے دے
دولت دے دے ، شہرت دے دے
سب کا مالک، سب کا حاکم
اس کے آگے جُھکنا لازم
اِس دنیا سے اُس دنیا تک
یعنی ادنیٰ سے اعلیٰ تک
دیکھ کے حیراں رہ جاتے ہیں
سب ہی اس کے گُن گاتے ہیں
صبح و شام سبھی کے لب پر
اللہ اکبر، اللہ اکبر
nn
جماعت ہفتم کی ننھی طالبہ
فاطمہ اخترکے دلی تاثرات
گلاب جیسی خوشبو، چودھویں کے چاند جیسی چاندنی، فرشتوں جیسی معصومیت، لازوال محبت، شفقت، تڑپ، مہربانی جب یہ تمام لفظ یک جا ہوجائیں تو نام بنتا ہے ایک بہت پیاری ہستی کا۔۔۔جس کے قدموں تلے جنّت ہے اور جِسے صرف مُسکرا کر ہی دیکھ لو تو مقبول ’’حج‘‘ کا ثواب مل جاتا ہے۔ جی ہاں، آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔۔۔یہ ہے میری اور آپ کی پیاری ماں۔
ایک شاعر نے کہا: ماں اور پھولوں میں کوئی فرق نہیں۔ ایک ادیب کا کہنا ہے:ماں قدرت کا عطا کردہ بہترین تحفہ ہے، ایک ان مول خزانہ ہے، بیٹی کے سر کی چادر ہے، جنّت کی رونق ہے، آسمانی تحفہ ہے، کائنات کی خوب صورتی ہے، ایک مقبول دُعا ہے۔
ماں کی اصل خوب صورتی اولاد کے ساتھ اس کی محبت اور شفقت ہے۔ میری ماں بھی دنیا کی پیاری ماؤں میں سے ایک ہے۔ اللہ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک۔ ماں وہ سمندر ہے، جو بہت گہرا ہے اور جس کی موجوں میں شفقت، تحفّظ اور اولاد پر سب کچھ لُٹادینے کے جذبہ ٹھاٹے ماررہا ہے۔ میری ماں دنیا میں مجھے سب سے اچھی لگتی ہیں، وہ صبح سویرے اٹھتی ہیں، میرے لیے ناشتا بناتی ہیں، مجھے تیار کرکے اسکول بھیجتی ہیں۔ مجھ سے بہت شفقت برتتی ہیں، میرے لیے دعائیں کرتی ہیں اور جب میں بہن بھائیوں کے ساتھ اسکول سے واپس آتی ہوں تو ہم سب کے لیے پسند کا کھانا بناتی ہیں۔ وہ ہمیں اچھے مشورے دینے کے ساتھ، پڑھائی میں ہماری مدد بھی کرتی ہیں۔ میں جو مانگوں، جو بولوں، اگر میرے لیے وہ چیز اچھی ہے تو ضرور دیتی ہیں۔ گرمی ہو یا سردی، وہ باورچی خانے میں کھڑے ہوکر ہم سب بہن بھائیوں کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ یہ ماں ہی ہوتی ہے، جواپنے منہ کا نوالہ تک اولاد کوکھلادیتی ہیں۔ جب وہ گھر پر نہیں ہوتیں تو ان کے بغیر گھر سُونا سُنا لگتا ہے اور جب ہم سب کے درمیان ہوں تو گھر بھرا بھرا لگتا ہے۔ وہ چھٹی والے دن ہم بہن بھائیوں کے بالوں میں تیل ڈالتی ہیں، بال سنوارتی ہیں۔ میں اللہ سے دُعا کرتی ہوں: اے اللہ، میری جیسی ماں ہر کسی کو دے، ان کا سایہ ہمارے سروں پہ قائم رکھ اور ہمیں ان کی تکریم کرنے کے ساتھ ساتھ خدمت کی سچّی توفیق بھی عطا فرما، آمین!
nn

حصہ