(بحرین کی سرزمین پر اردو کا پانچواں جشن (خرم عباسی

375

ذرائع ابلاغ کی ترقی نے مشاعرے کو آج گھر گھر پہنچا دیا۔ غالب نے اپنی مکتوب نگاری کے بارے میں فخریہ کہا تھا کہ ’’میں نے وہ طرزِ سخن ایجاد کیاہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بزبانِ قلم باتیں کیا کرو۔ ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔‘‘ اب شعر و سخن کے شیدائی ہزار کوس دور بیٹھے اپنے شاعروں کی نغمہ سرائی سنتے ہیں اور ریکارڈ شدہ مشاعرے دیکھتے ہیں۔ زبانی روایت فلم پر محفوظ ہو کر دائمی سرور کا وسیلہ بن گئی ہے۔
مجلسِ فخر بحرین برائے فروغِ اْردو اسی دائمی سرور اور محبت کے پیغام کو عام کرنے کی سعی کر رہی ہے، اس سلسلے کا پانچواں عظیم الشان عالمی مشاعرہ ’’بیادِ پروفیسرخلیل الرحمن اعظمی‘‘گزشتہ دنوں منعقد ہوا۔ مجلس کے مشاعروں کو ایک امتیاز حاصل ہے کہ یہ سکا بند، خوش گلو اور روایتوں سے انحراف کرتے ہوئے مشاعروں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں،مجلس فخربحرین کے بانی و سربراہ اور بحرین میں کئی عالمی مشاعروں کی روایت کو تقویت عطا کرنے والی ادب دوست، ادب فہم اور ادب نواز شخصیت محترم شکیل احمد صبرحدی کی منفرد سوچ اور اردو سے بے لوث محبت نے ان محفلوں کو مشاعروں کی روایتوں کا پاسبان و تہذیبی اور علمی قوت سے مالامال کر دیا ہے۔آپ کی رہنمائی و سرپرستی میں ، مجلس نے 2013 میں شہریار کی یاد میں ایک عظیم الشان اور یادگار مشاعرہ منعقد کیا تھا۔ ۔2014 میں تحقیقی کتاب فراق گورکھپوری ،شخصیت،شاعری اور شناخت کا اجرا اورعالمی مشاعرہ بیاد فراق گورکھپوری منعقد کیا گیا ،2015 میں عرفان صدیقی حیات،خدمات اور شعری کائنات کا اجرا اور تیسرا عالمی مشاعرہ عرفان صدیقی کی یاد میں منعقد کیا گیا۔جسٹس آنند نرائن ملا کی علمی و دابی خدمات پر مجلس کی جانب سے جامعہ ہمدرد دہلی کے کنونشن سینٹر میں ایک روزہ قومی سیمینار منعقد کیا ۔2016 میں نائب صدر جمہوریہ ہند عالی جناب حامد انصاری صاحب کے بدست ’’ آنند نرائن ملا حیات و کمالات‘‘کا اجرا اور عالمی مشاعرہ بیاد پنڈت آنند نارائن ملا منعقد ہوا۔ گزشتہ سال علی گڑھ میں ’’خلیل الرحمن اعظمی ایک بازیافت” کے عنوان پر ایک قومی سیمینار منعقد کیا گیا۔معروف ادیب و نقاد پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ،معروف فکشن نگار سید محمد اشرف، پروفیسراشتیاق احمد ظلی،محترمہ راشدہ خلیل،ہما مرزااور ڈاکٹر سلمان خلیل اعظمی نے اس سیمینار میں شرکت کی۔ محترم شکیل احمد صبرحدی کی زیرِ سرپرستی شعرا میں مقابلے کی روح اور اصلاحِ ادب کا جذبہ پیدا کرنے اور مقابلے اور مسابقت کے جذبے کو فروغ دینے کی لیے طرحی مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔مجلس نے سال بھرخلیل الرحمن اعظمی کی یاد منائی۔ آپ کے مصرعوں پر طرحی نشستوں کا انعقاد ہوا۔
قطر سے تشریف لائے مہمان شاعر اور مجلس فخرِ بحرین کے مشیرِ خاص عزیزنبیل نے مشاعرہ کی ابتدائی کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے معزّز مہمانان، شعراء اور سامعین کااستقبال کیا۔
بعد ازاں مشاعرے کی صدارت کے لیے ہندوستان سے معروف نقاد ،محقق ،ماہرِ تعلیم ،ڈرامہ نگار و شاعر محترم پروفیسر شمیم حنفی کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ مہمان خصوصی محترمہ راشدہ خلیل صاحبہ کو تالیوں کی گونج میں اسٹیج پر دعوت دی گئی ،مہمانانِ اعزازی محترمہ ہما مرزا صاحبہ اور محترم سلمان خلیل اعظمی کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔مختصر گفتگو کے بعد عزیزنبیل نے مہمان شعرا کو اسٹیج پر دعوت دی۔ بانی و سرپرستِ اعلی مجلس فخرِ بحرین جناب شکیل احمد کی اردوزبان وادب کے لیے پرخلوص خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو کلماتِ تشکّر اورخطبہ استقبالیہ پیش کرنے کے لیے اس شعر کے ساتھ دعوت دی۔
نگہ بلند ، سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
محترم شکیل احمد صبرحدی نے اپنی گفتگو کی ابتدا خلیل الرحمن اعظمی کے اس شعر سے کی ۔
ہم نے اْتنے ہی سر راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ، ہم سے ہوئی
اور فرمایا کہ ’’ہوائیں کتنی بھی برگشتہ کیوں نہ ہوں اور اندھیرا جس قدر بھی تاریک تر ہو، ہم جو کہ اجالوں کی روایات کے امین ہیں جشنِ چراغاں ضرور مناتے ہیں۔مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اردوکی جانب سے منعقد ہونے والے مشاعرے دراصل روشنی کا جشن ہیں، وہ روشنی جو ہماری تابندہ روایات تک ہماری رسائی ممکن بناتی ہے۔وہ تابندہ روایات جن کی سانسوں میں ہماری پیاری زبان اردو رچی بسی ہے۔ ہم ایک بار پھر، آپ کے روبرو حاضر ہیں ایک یادگار اور شاندارمشاعرے کے ساتھ، یعنی مجلس کی جانب سے بحرین کی سرزمین پر اردو کا پانچواں جشن، پانچواں عالمی مشاعرہ بیاد خلیل الرحمن اعظمی۔خلیل الرحمن اعظمی آسمانِ شعروادب کے ایک ایسے روشن اور تابندہ ستارے کا نام ہے جس کی روشنی سے جبینِ اردو ہمیشہ جگمگاتی رہے گی۔ ان کی منفرد، بلند آہنگ اور اثر انگیز شاعری اور بصیرت افروز تنقیدی رویوں نے نہ صرف معاصر ادبی منظرنامے پر اپنے دور رس اثرات مرتب کیے بلکہ آنے والی نسلوں کی سوچ ، فکر اور طرز اظہار کو بھی نئی جہت عطا کی۔‘‘
آپ نے مزید فرمایا “اردوزبان قومی یکجہتی اور مشترکہ تہذیبی روایت کا بے مثال نمونہ ہے۔ یہ زبان سرزمینِ ہند کے تین اہم مذہبی فرقوں ہندووں، مسلمانوں اور سکھوں کے باہمی ربط ضبط ، میل جول اور رشتہ ء اتحاد ویگانگت سے پیدا ہوئی، اس زبان کی شعوری، لسانی اور ادبی جڑیں ہندوستان کی قدیم تہذیبی زمینوں میں بہت دور تک پیوست ہیں چنانچہ اردو زبان کا ادبی مزاج اور کردار ہمیشہ سے ہی قومی یکجہتی کا امین، مشترکہ قومی تہذیب کا نقیب اور امن و آشتی کے پیامبرکی طرح رہا ہے، جس کی ترجمانی ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ اختر شیرانی نے کیا خوب کہا تھا۔
ہندو ہو پارسی ہو، سکھ ہو، کہ ہو مسلماں
ہر ایک کی زباں ہے اردو زباں ہماری
دنیا کی بولیوں سے مطلب نہیں ہمیں کچھ
اردو ہے دل ہمارا ، اردو ہے جاں ہماری
ہمیں فخر ہے کہ ہم جس زبان کے عاشق ہیں وہ زبان انسانیت ، محبت ، یگانگت اور احترامِ آدمیت کی زبان ہے۔ اسی لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اِس شریں زبان کے فروغ کے لیے ہماری کوششیں دراصل انسانی قدروں اوررویّوں کے فروغ کی سمت ایک قدم ہے”۔ آپ نے محترم شمیم حنفی صاحب ، محترمہ راشدہ خلیل، بیگم خلیل الرحمن اعظمی ، محترمہ ہما مرزا صاحبہ اور محترم سلمان خلیل اعظمی (بحیثیت مہمانانِ اعزازی)،ہندو پاک اور خلیجی ممالک سے تشریف لائے تمام معزز مہمانان اور شعرا کرام کا خیر مقدم کیا ۔بحرین کے تمام صاحبانِ ذوق اور اردو شاعری سے محبت کرنے والوں، تمام دوستوں، خیرخواہوں کا شکریہ ادا کیا اور ایک خوبصورت شعر سے گفتگو تمام کی ۔
یہ حرف و صوت کا رشتہ ہے زندگی کی دلیل
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہوجائیں
اس مشاعرے کی مناسبت سے جنابِ آصف اعظمی کی مرتّب کردہ کتاب’’خلیل الرحمن اعظمی : ایک بازیافت‘‘ اور مشاعرہ کی مناسبت سے شائع کردہ خوبصورت مجلہ کا رسم اجرا بدستِ صدرِ مشاعرہ پروفیسر شمیم خنفی صاحب، محترمہ راشدہ خلیل صاحبہ،، محترمہ ہما مرزا صاحبہ اور محترم سلمان خلیل اعظمی، ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب، شکیل احمد صبرحدی ، اور دیگر مہمانان کی موجودگی میں عمل میں آیا۔
رسمِ اجرا کے بعد عزیز نبیل نے خلیل صاحب کی فن اور شخصیت پر بات کرنے کے لیے مشاعرے کے صدر، عصرِ حاضر میں اردو ادب کا ایک بہت اہم نام محترم پروفیسر شمیم حنفی صاحب کو دعوت دی۔۔۔
شمیم حنفی صاحب نے اس شام کے انعقاد پر مجلس کا نہ صرف شکریہ ادا کیااور انھیں مبارک باد دی اور کہاکہ خلیل الرحمن اعظمی پر ایک اہم کتاب شائع کرکے مجلس نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری پر گفتگو فرماتے ہوئے شمیم حنفی صاحب نے اردو کے شاعر کے طور پر خلیل الرحمن اعظمی کو بے مثال اور منفرد لب و لہجہ اور اسلوب کا شاعر قراردیا۔ اپنی خوبصورت، پرمغز اور سامعین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لینے والی تقریر کے دوران آپ نے خلیل الرحمن اعظمی کے چند اشعار بھی سنائے۔مہمانِ خصوصی محترمہ راشدہ خلیل صاحبہ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی،آپ نے اس شام کے انعقاد پرخوشی کا اظہار کیا اور شکیل صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب کی مہمانِ اعزازی محترمہ ہما مرزا صاحبہ نے خلیل صاحب کی نظم پیش کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔مشاعرے کی شمع روشن کی گئی اور مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے ناظمِ مشاعرہ محترم انور جلالپوری کو قتیل کے اِس شعر کے ساتھ دعوتِ نظامت دی گئی۔
جو ہم نہ ہوں تو زمانے کی سانس رک جاے
قتیل وقت کے سینے میں ہم دھڑکتے ہیں
انور جلالپوری صاحب نے خوبصورت کلمات سے ابتدا کی پاکستان سے ڈاکٹر خورشید رضوی،تہذیب حافی ۔ہندوستان سے اظہر عنایتی، فرحت احساس،شکیل اعظمی،ابھیشیک شکلا،رشمی صبا ،سعودی عرب سے خالد صبرحدی،شیراز مہدی اور قطر سے عزیز نبیل نے ،بہت خوبصورت اشعار سے سامعین کو نوازا اور داد حاصل کی ۔ جبکہ بحرین کی نمائندگی احمد عادل،طاہر عظیم،عدنان تنہا،فیضی اعظمی ،اور سعید سعدی نے کی اور بہت اچھے اشعار سنائے اور داد وتحسین سے نوازے گئے۔
مشاعرہ بے انتہا کامیابی کے ساتھ صاحبِ صدر تک پہنچا ،آپ نے عالمی مشاعرہ بیادِ پروفیسرخلیل الرحمن اعظمی کو ایک کامیاب اور معیاری مشاعرہ قرار دیتے ہوئے مجلس کو مبارکباد پیش کی۔
شمیم حنفی
میں نے چاہا تھا کہ لفظوں میں چھپا لوں خود کو
خامشی لفظ کی دیوار گرا دیتی ہے
خورشید رضوی
آخر کو ہنس پڑیں گے کسی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بے کار جائے گا
انور جلال پوری
چاہو تو مری آنکھوں کو آئینہ بنا لو
دیکھو تمہیں ایسا کوئی درپن نہ ملے گا
اظہر عنایتی
اس راستے میں جب کوئی سایا نہ پاے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آے گا
فرحت احساس
انگلیاں بھی تو ہماری ہیں بہت اول جلول
اس کی زلفوں میں جو پڑتے ہیں خم الٹے سیدھے
شکیل اعظمی
درد آرام بنا زخم کو سینا آیا
کتنی مشکل سے ہمیں چین سے جینا آیا
عزیز نبیل
عادتاً میں کسی احساس کے پیچھے لپکا
دفعتاً ایک غزل دشتِ سخن سے نکلی
تہذیب حافی160
بتا اے ابر مساوات کیوں نہیں کرتا
ہمارے گاوں میں برسات کیوں نہیں کرتا
ابھیشیک شکلا
اس سے کہنا کہ دھواں دیکھنے لائق ہوگا
آگ پہنے ہوئے جاؤنگا میں پانی کی طرف
رشمی صبا
لفظ ہو پاے نہیں پھر بھی معانی میں ہوں میں
یعنی کردار نہیں اور کہانی میں ہوں میں
احمد عادل
اپنے ہر خواب کی تعبیر کو پانے کے لیے
اک سمندر تھا جسے پار کیا ہے میں نے
خالد صبرحدی
لطف ہوتا ہے کیا بلندی کا
یہ ترے آسمان سے جانا
شیراز مہدی
اب ترستا ہے کہ بچے ترے اردو بولیں
اتنی انگریزی پڑھانے کی ضرورت کیا تھی
طاہر عظیم
خاک حیرت سے دیکھتی ہے مجھے
مجھ میں کیسے غرور آتا ہے
عدنان تنہا
ہجر میں ہم نے جی کے دیکھا ہے
ہجر میں کوئی مر نہیں جاتا
فیضی اعظمی
رات اور دن کا فرق مٹا کر بیٹھا ہوں
کھڑکی میں مہتاب سجا کر بیٹھا ہوں
سعید سعدی
160ہر میداں میں زور لگانا پڑتا ہے
خود کو دنیا سے منوانا پڑتا ہے

حصہ