damn miN js ky aik bhi tawfa noiN بنتِ زہرہ

187

damn miN js ky aik bhi tawfa noiN بنتِ زہرہ
(تیسری قسط)
بستر پر درد کے جھٹکے سہتے وہ مزید تڑپ گئی۔ دو دن بعد درد کی شدت میں اس کی ماں کو اطلاع دی گئی تو بہت دیر ہوچکی تھی (کردی گئی تھی) ’’ماں۔۔۔ ماں میرے خدا، میرے خدا یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ پہلی بار میں لڑکی کو کیا پتا ہوتا ہے (لاعلمی)۔۔۔ ہو بھی جائے تو ایمرجنسی میں اسپتال تنہا کیسے جاسکتی ہے، کون لے جائے۔۔۔ عجیب جھگڑا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
اسپتال کے بیڈ پر نیم جان مریضہ کچھ کھوجانے پر غم زدہ تھی ہی، مگر یہ کرب اور اذیت کے دن کا لمحہ لمحہ اس پر بھاری تھا۔ اذیت جھیل کر کچھ پا جانے پر ایسا کچھ نہیں جاتا، مگر جب نئی کلی کو ہی نوچ پھینکا جائے تو۔۔۔ درد کی ہر لہر خون نچوڑ لیتی ہے۔
کمال اب شرمند ہونے لگا تھا، حالاں کہ وہ صوفیہ کے خوابوں کا مجرم تھا مگر یہ خواب تنہا نہیں دیکھے جاتے۔ یوں ایک بڑی خوشی آتے آتے پلٹ گئی، مگر صوفیہ سہم گئی۔ اس کا وجود چھلنی ہوکے رہ گیا۔ اندھیروں میں جیسے ایک کرن چمکی، پھر اچانک غائب ہوگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
’’چلو صوفیہ جو ہوا، سو ہوا، مگر تمہاری تکلیف پر مجھے واقعی بڑا دکھ ہے، میں کسی سے اتنا نرم ہوکر بات نہیں کرتا بلکہ پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں، مگر تم تو میری اپنی ہو، اپنا سمجھ کر تم پر سختی کرگیا۔‘‘ وہ صوفیہ کے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھ کر دوسرے ہاتھ سے اس کے آنسو پونچھے جارہا تھا۔ صوفیہ کے لیے یہ مہربانی حیران کن بھی تھی اور خوش آئند بھی۔ اس کو اپنی تکلیف کم ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔ کتنے کم عرصے کی خوشی تھی وہ بھی۔ اس نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ماں کے گھر گزارا۔ انہی دنوں پتا چلا کہ مونا کو، جو پہلے ہی معلق زندگی گزار رہی تھی، طلاق ہوگئی ہے، وجہ وہی بانجھ پن۔
’’ہائے بے چاری۔۔۔‘‘ کمال نے صوفیہ سے تذکرہ کرتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔ صوفیہ کو یہ بہت عجیب لگا۔ بے شک اس پر پہاڑ ٹوٹا تھا، مگر اس کی اس طرح سے ہمدردی شک کے کئی در کھول رہی تھی۔
آخر کبھی کمال نے اس کا ہاتھ مانگا تو اس نے انکار کردیا تھا، پھر وہ حسرت بھرے لہجے میں اس بات کا ذکر کرتا تھا۔ اس کے اندر ایک فطری شک سر اٹھاتا اور وہ جھٹک دیتی خدشات کو، شک و شبہ کو۔
اِدھر رفتہ رفتہ کمال کا رویہ صوفیہ کے ساتھ بہتر ہوتا گیا۔ صوفیہ کو نقصان اور اذیت کا جو غم تھا اُسے کمال کا تھوڑا نرم پڑ جانا کم کرتا گیا۔ سسرال والوں نے نقصان کے بعد نشتر چلائے تب بھی اس کو سب گوارہ تھا۔ شوہر کا قدرے بہتر رویہ، عزت افزائی اور وفادار رہنے کی قسمیں۔۔۔ عورت کا سارا مان ہی اس کے گرد گھومتا ہے۔ اگرچہ اب بھی وہ اکثر دیر سے گھر آتا، مصنوعی رشتوں کی اہمیت بھی ظاہر کرتا، مگر پھر بھی غنیمت تھا یہ۔ مگر اب بھی وہ سوچتی کہ کاش وہ بچ جاتا۔۔۔ آنگن میں پھول کھِل جاتا۔۔۔ کاش کمال نے اس کے لیے اتنی غفلت نہ برتی ہوتی، اس کا ٹھیک سے خیال رکھا ہوتا۔ کبھی وہ اندر ہی اندر گھلنے لگتی اپنی بے وقعتی پر، اپنی عزتِ نفس کی پامالی پر۔
۔۔۔*۔۔۔
’’تم کو پتا ہے مونا کے رشتے کی بات چل رہی ہے۔‘‘ کمال نے اطلاع دی۔ وہ پھر اس طرف گیا تھا ہمدردی کے لیے، اور وہ گھبرا رہی تھی، یا اللہ پھر مونا۔۔۔ مونا۔۔۔ کیوں اتنا لگاؤ ہے، اس کو تو بانجھ ہونے پر کوئی ٹھکرا چکا ہے۔ اس بات پر لاحق خدشات فطری تھے۔ کاش مونا کمال سے ہی شادی کرلیتی اور وہ اس کی زندگی میں آتا ہی نہیں۔ مگر اس کے ذکر پر کمال نے جو اطلاع دی وہ اس کے لیے سکون کا باعث تھی۔
’’چلو اس کا گھر پھر سے بس جائے تو وہ بھی سکون سے زندگی گزارے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔
’’ہاں بہت اچھی بات ہے، مگر آپ بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانے کیوں بنے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے گھر کا مسئلہ ہے۔۔۔ شادی کو ایک سال گزر چکا ہے اور ابھی تک۔۔۔؟ ہم دو ہی ہیں، آتے آتے کوئی رہ گیا، پھر میری طبیعت بھی خراب رہتی ہے، آپ کی احتیاط کے چکر میں کیا ہوگا؟‘‘
’’ارے ابھی پہلی سال گرہ پر تم کو وش کیا، گفٹ دیے، آؤٹنگ بھی کرائی، تمہارے ساتھ تو اتنا بدلا بھی ہوں، بچے کے لیے ابھی وقت پڑا ہے، اتنی ڈسٹرب اور شکی رہو گی تو بچہ کیا اس کا باپ بھی نہیں ملے گا۔‘‘ وہ اپنی ترنگ میں بولتا چلا گیا۔
’’توبہ۔۔۔ توبہ۔۔۔ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں! اللہ آپ کو میرے ساتھ سلامت رکھے۔ آپ کے دم سے تو سب ہے۔۔۔‘‘ وہ گھبرا کر بولی۔
’’اچھا تو مجھ سے واقعی اتنی نتھی ہو۔۔۔‘‘ وہ اس کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’اس میں کیا شک ہے، میں تو واقعی آپ کے لیے ساری دنیا چھوڑ دوں۔‘‘ وہ جیسے اس کو یقین دلا کر اس کی محبت میں سے مزید کچھ اعتماد چاہ رہی تھی جو کہ اس کا حق تھا۔
دھوپ، چھاؤں کے رویّے چلتے رہے۔ مونا کا ذکر بھی ہوتا تو وہ پہلے کی طرح نہ گھبراتی، بلکہ ایک اطمینان تھا کہ اب اس کا گھر بھی بس ہی جائے گا۔ مگر اندر سے وہ ٹھیک نہیں تھی۔ سسرال والوں کے رویّے ظاہر ہے تکلیف دہ تھے، حالاں کہ ان کی ہی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے وہ نقصان سے دوچار ہوئی تھی۔ تنگ آکر ماں کے گھر ہفتہ بھر رک جاتی مگر کمال کے مصنوعی رشتوں کا نظریہ اس کو بے وفائی کا خوف دلاتا۔ ہر عورت سے بے تکلف ہوجانے پر اس کے والدین کو بھی تشویش تھی۔
اس کی طبیعت پھر خراب رہنے لگی۔ امید کی نہیں نا امیدی کی اذیتیں لاحاصل دکھ بن کر چمٹنے لگیں۔ اندرونی انفیکشن، ورم اور خون کی کمی۔۔۔ اوپر سے شوہر کی طرف سے ذہنی خلفشار نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ والدین کے گھر آگئی کہ شاید یہاں رہ کر ہی اس کا اچھا علاج ہوجائے۔
۔۔۔*۔۔۔
’’کیا قسمت لے کر دنیا میں آئی ہے، زمانے بھر کا چال باز اور غیر ذمے دار مرد ملنا تھا اسے۔ تھوڑا سنبھل جاتا ہے پھر اَن بن ہوجاتی ہے، اوپر سے ساس الگ جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ پتا نہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟‘‘ امی پریشان کن لہجے میں ابا جی سے کہہ رہی تھیں۔
’’ہاں نوکری سے سیدھا گھر آنے والا بندہ تو ہے نہیں۔۔۔ سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر۔ صوفیہ کو مہینہ بھر کے لیے یہیں روک لو۔ کمال یہیں آئے، مل جائے‘‘۔ اس کے والد نے اپنا فیصلہ سنایا۔ ’’ہاں دوا دارو مل جل کر ہوجائے گا‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ