(جذبہ (فرحی نعیم

225

وہ دونوں اس وقت بازار میں تھیں اور شیشے کے اُس پار بھی اشیا کو بڑے انہماک سے دیکھتی آگے بڑھ رہی تھیں، جبھی زہرا نے ایک ہلکی سی چیخ ماری۔
’’کیا ہوا؟ کیا کسی نے پرس چھین لیا؟‘‘ سمیرا نے ہڑبڑا کر زہرا کی طرف گردن گھماتے ہوئے کہا۔ لیکن جواب میں زہرا نے اسے سامنے والی دکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متوجہ کیا۔
’’کیا۔۔۔کیا ہے وہاں؟‘‘
’’ارے تم کو یہ اتنا بڑا بڑا سیل لکھا ہوا نظر نہیں آرہا؟‘‘ اب کے زہرا نے جھلاّ کر کہا۔
’’اوہ۔۔۔ ہاں! لیکن بڑا رش ہے‘‘۔
’’تو کیا ہوا، چلتے ہیں‘‘۔ زہرا نے سمیرا کا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا اور پھر دونوں دکان میں گھستی چلی گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں کپڑا فروخت نہیں کیا جارہا بلکہ مفت میں مل رہا ہو، تبھی تو ہر خاتون ہاتھوں ہاتھ لے رہی تھی، اور کئی کئی بیگ دونوں ہاتھوں میں تھامے دکان سے نکل رہی تھی۔
’’اُف توبہ، مجھے تو گھبراہٹ ہورہی ہے‘‘۔ سمیرا نے اپنے پیچھے کھڑی لڑکی کا بازو اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا اور بڑی مشکل سے ایک سائیڈ پر ہوکر اسے آگے بڑھنے کے لیے رستہ دیا۔
’’ارے یار مرد بن مرد۔۔۔ ایسی جگہ کمزوری دکھائی تو پھر گھنٹہ بھر کے بعد بھی ہمارا نمبر نہیں آئے گا اور ہمارے بعد آنے والیاں یہ سارے اچھے ڈیزائن خود ہی لے اڑیں گی‘‘۔ زہرا نے اسے ہمت اور حوصلہ دلایا اور خود رستہ بناتی آگے بڑھنے لگی، ساتھ اسے بھی گھسیٹتی چلی گئی۔
’’ہاں مرد بننے کے لیے یہی تو جگہ رہ گئی ہے‘‘۔ سمیرا منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔ پھر کچھ دیر میں زہرا نے اپنے لیے دو جوڑے پسند کیے اور اسے بھی لینے کے لیے اُکسایا۔
’’نہیں یار، مجھے نہیں لینا‘‘۔
’’بے وقوف، ایسا موقع بار بار نہیں ملتا۔ اچھے بھی ہیں اور سستے بھی۔۔۔ اپنے جیسا لے لوں؟‘‘ زہرا نے پھر اسے خریدنے کے لیے اصرار کیا اور اپنے جیسا سوٹ لینے کی آفر بھی دی۔
’’نہیں یار، پیسے بھی نہیں ہیں‘‘۔
’’تو مہنگے نہ لو، یہ بارہ سو والے لے لو‘‘۔
’’کیسے لے لوں، میرے پاس اب صرف پندرہ سو روپے بچے ہیں، اس میں دو کیسے آئیں گے؟‘‘ سمیرا جھنجھلا کر بولی۔
’’دو کون کہہ رہا ہے! تم ایک ہی لے لو اور میں بارہ سو کہہ رہی ہوں۔‘‘ وہ حیرانی سے سمیرا کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’نہیں چھوڑو، اب دو لینے پڑیں گے۔ ویسے بھی میرے پاس پہلے ہی کافی کپڑے ہیں۔‘‘
’’تو مجھ سے لے لو، بعد میں دے دینا۔‘‘ اب زہرا نے خلوص سے کہا۔
’’دینے تو ہوں گے ناں! بس اب چلو، دم گھٹ رہا ہے میرا تو۔‘‘ سمیرا نے یہ کہہ کر اپنا رخ پلٹا تو زہرا بھی کندھے اچکاکر، رقم کی ادائیگی کرکے اس کے پیچھے آگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
’’مجھے تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ سوٹ تھا بارہ سو کا اور تمہارے پاس پندرہ سو موجود تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ تم نے ایک بھی نہ لیا؟‘‘
اب دونوں سہیلیاں اپنی خریداری مکمل کرکے چاٹ والے کی دکان میں بیٹھی چھولے کھا رہی تھیں، تبھی زہرا نے اپنی الجھن کو اس سے بیان کیا، کیوں کہ اس کے بعد سمیرا نے کلپ، چھوٹا پرس اور اپنے لیے جو چند چھوٹی موٹی چیزیں لیں تو ہر چیز دو خریدی تھیں۔
’’بس یار نانی امی نے کہا ہے‘‘۔ سمیرا نے جوس کا گھونٹ بھرا۔
’’نانی امی۔۔۔ سمیرا، یہ پہیلیاں بجھوانا بند کرو اور صاف صاف بات کرو‘‘۔
’’کیا صاف بات کروں۔۔۔؟ کہا تو ہے کہ نانی امی نے کہا ہے کہ جو تم اپنے لیے خریدو، وہی تم کو اپنی کشمیری مظلوم بہن کے لیے بھی خریدنا ہے۔‘‘
’’یہ تمہاری کون سی مظلوم بہن آگئی، وہ بھی کشمیر میں؟ تمہاری تو دو بہنیں ہیں اور دونوں یہاں، اسی شہر میں رہتی ہیں۔‘‘ زہرا کی الجھن دور نہیں ہورہی تھی۔
’’افوہ، اب تم کو صاف صاف بتانا ہی پڑے گا۔‘‘ سمیرا نے پلیٹ میں سے آخری چمچہ بھرا اور منہ میں ڈال کر ٹشو سے منہ صاف کیا، پھر بولی: ’’بھئی، بات یہ ہے کہ میری نانی کی ایک بہن مظفر آباد میں رہتی ہیں اور وہ کشمیر میں جو ہمارے مظلوم بھائی بہن ہیں، ان کی بہت مدد کرتی ہیں۔ ان کے ہاں سے امداد بھی بہت جاتی ہے اور پورے خاندان میں بھی سب کو فون کرکے تعاون کرنے کا کہتی رہتی ہیں، چناں چہ ہم سب بساط بھر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ اب پچھلے ماہ نانی امی جو آج کل ہماری طرف آئی ہوئی ہیں، انہوں نے آتے ہی ہم کو یہ الٹی میٹم دے دیا تھا کہ اب ہم سب بھائی بہن بالکل فضول خرچی نہیں کریں گے، بہت ضرورت ہی کی کوئی چیز خریدیں گے، اور جو بھی کوئی چیز خریدے گا، اب سے وہ دو عدد خریدے گا، ایک اپنے لیے اور اپنے کشمیری بہن یا بھائی کے لیے۔ لہٰذا اب ہم میں سے جو بھی کوئی کسی بھی قسم کی خریداری کرتا ہے وہ یا تو وہ چیزدو لیتا ہے یا پھر اس کے مساوی رقم الگ کردیتا ہے فنڈ کی مد میں۔ لہٰذا آج تم نے مجھے جو کچھ خریدتے دیکھا، اور جو میں نے نہیں خریدا وہ اسی جذبے کا نتیجہ تھا‘‘۔ سمیرا نے اطمینان سے اپنی خریداری کا پس منظر بیان کیا اور جوس پینے لگی، لیکن دوسری طرف زہرا کو ایک نئی سوچ دے گئی تھی۔ وہ دل ہی دل میں اس جذبے کو سراہ رہی تھی۔
’’چلیں۔۔۔؟‘‘ سمیرا نے زہرا سے پوچھا۔
’’آں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ زہرا نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور اپنا جوس کا گلاس بھی خالی کرنے لگی۔ پھر جب دونوں باہر نکلیں تو زہرا نے کہا: ’’سمیرا یہ لے لو۔‘‘ اس نے اپنے پرس میں سے کچھ رقم نکال کر سمیرا کے حوالے کی اور سمیرا کی سوالیہ نظروں کے جواب میں بولی: ’’یار، میں اتنی رقم تو نہیں دے پائی جتنی میں نے آج خریداری کی ہے، لیکن میں سوچ رہی ہوں کہ کوشش کرکے دیکھوں۔۔۔ میں بھی تو یہ کرسکتی ہوں۔‘‘ زہرا ہلکے سے مسکرائی۔ سمیرا نے بھی جواباً مسکرا کر تائیدی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ہاں زہرا، کر تو ہم سب سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہمدردی اور خلوص کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، اور وہ حوصلہ اور قربانی کا جذبہ بھی کہ آپ اپنے لیے خریدی ہوئی شے سے دوسرے کے لیے بھی لے لیں۔‘‘ سمیرا کی آواز کچھ بھرا سی گئی تھی۔
’’مایوس نہ ہو، دیے سے دیے جلتا ہے۔۔۔ آج تمہاری دی ہوئی روشنی مجھ تک پہنچی ہے، کل اور آگے پہنچے گی، اور پھر اور آگے۔۔۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے مالی، اخلاقی اور جسمانی ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، بس ہم میں اتحاد کی کمی ہے۔ کاش، ہم اتنے مضبوط ہوجائیں کہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہم آواز ہوجائیں۔‘‘ زہرا کی آنکھیں خوشنما تعبیر سے جھلملانے لگی تھیں۔
’’ہاں۔۔۔ ہم آواز اور متحد۔۔۔‘‘ سمیرا کے لہجے میں بھی جوش و خروش نمایاں تھا!!

حصہ