(فیصلے تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے ،دل یا شکم ؟(توقیر عائشہ

399

وہ جسے ایک پیالی چائے بنانا بھی مشکل لگتا تھا، اب گھنٹوں باورچی خانے میں نت نئی تراکیب سے ایسے مزے دار کھانے بناتی کہ سب انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ اس کا سب کچھ تو گریجویشن کے بعد ملنے والی فراغت تھی، کچھ اخبارات و رسائل میں آنے والی ترکیبیں تھیں، اور کچھ مختلف چینلز سے آنے والے کوکنگ پروگرام۔ جگہ جگہ کھلنے والے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس نے بھی اس شوق کو بڑھاوا دیا تھا۔
سونیا کے ابو اور بھیا کی اس چکر میں مصیبت آئی رہتی کہ ان بدیسی قسم کے کھانوں کو پکانے کے لیے جو اجزا درکار ہوتے ہیں، وہ عام دکانوں پر ملتے بھی نہ تھے، اور بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورز پر جاکر ڈھونڈنے پڑتے، مثلاً خاص کمپنی کا کوکو پاؤڈر، مختلف طرح کے پنیر، ساسز، کیک سجانے کے لوازمات، خمیر، مسٹرڈ پاؤڈر اور جانے کیا کیا۔۔۔ مگر ایک بات تھی کہ جب وہ پکوان تیار ہوجاتا تو بڑا ہی مزے دار ہوتا۔ بھیا اپنے دوستوں کے لیے فرمائش کرکے کیک بنواتے، خاندان سے کوئی ملنے آجاتا تو جھٹ پٹ سونیا کوئی نئی سی ڈش پورے سَروِنگ لوازمات کے ساتھ لے آتی۔
امی سر پکڑ کر بیٹھ جاتیں، کیونکہ کچن کے لیے مختص کی گئی رقم پندرہ دن ہی میں خرچ ہوجاتی۔ وہ ابا سے کہتیں: ’’ارے بھئی، کل کو اپنے گھر جائے گی، جانے کیسے لوگ ملیں، اس کا ہاتھ کنٹرول کیجیے‘‘۔ ابا ہنس کر کہتے: ’’اسی لیے تو کرنے دیا کرو، اگلے گھر جائے گی تو جانے کوئی اس کے شوق پورے کرنے والا ہوگا بھی کہ نہیں۔۔۔‘‘ اور مزید رقم امی کے ہاتھ میں تھمادیتے۔
اب باورچی خانے میں سادہ سے بلینڈر کے علاوہ کئی برقی مشینیں جگہ بناچکی تھیں۔ بیٹر(Beater)، کرشمر، سینڈوچ میکر، کیک بنانے اور آئسنگ کے لوازمات کے لیے چھوٹے بڑے ہاتھ سے چلا کر یا ہلاکر استعمال کرنے والے آلات۔ جب کھانے غیر روایتی ہوں تو ان کو پیش کرنے کے برتن بھی مختلف قسم کے درکار ہوتے ہیں، جیسے سوپ بالز، نفیس ڈنر سیٹ، ٹرانسپیرنٹ (شفاف رنگ کے) چھوٹے بڑے گہرے، کم گہرے باؤلز، نفیس کٹلری، کافی کے دیدہ زیب مگ وغیرہ ۔
کئی دن سے سونیا کو کچھ نیا کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ نہ کہیں جانا ہورہا تھا، نہ کوئی مہمان آرہا تھا۔ ایسے ہی بے زاری کے عالم میں امریکا میں مقیم بڑے بھیا، ان کی بیگم اور دو سالہ بیٹی لیلیٰ کے آنے کی خوش خبری ملی۔ اسکائپ وغیرہ پر تو بات ہوجاتی تھی، مگر مزے کی بات یہ تھی کہ فرح بھابھی سے بالمشافہ ملاقات کا پہلا موقع تھا۔ بھیا ایک اسپتال میں ملازمت کرتے تھے، وہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے، وہاں ان کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر پاکستانی ڈاکٹر بھی کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا بھیا سے کچھ ایسا دلی تعلق قائم ہوگیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ پیش کردیا۔ امی ابو کے مشورے سے شادی بھی انجام پاگئی۔ سب گھر والوں کا شادی میں شریک ہونا ممکن نہ تھا۔ سو امی، ابو امریکا گئے اور شادی میں شریک ہوکر مطمئن واپس آگئے تھے۔ اب بھیا کے آنے کی خبر سن کر گھر میں جیسے خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ سونیا نے پکوان بنانے کی مہارت بھائی، بھابھی پر آزمانے کی ٹھان لی۔ فریج میں مزید نئی ساسز کی بوتلیں، کچھ پیکٹ اور پڑیوں کا اضافہ ہوگیا۔ کچھ آئٹم فریزر میں بھی جمع کردیے۔ چھوٹے بھیا نے تو جل کر ایک دن کہہ ہی دیا کہ اب ہمیں ایک فریج نیا لے لینا چاہیے تاکہ پینے کا پانی تو مل سکے۔
بڑے بھیا اور بھابھی کے آنے سے گھر میں رونق ہوگئی۔ خاندان کے دیگر افراد آئے دن دعوت پر بلا رہے تھے۔ سونیا کو کچھ خاص کر دکھانے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ ایک دن امی نے کہا: ’’اتنی دعوتیں کھالیں، میرا دل چاہ رہا ہے کہ اب ہم سب کو بلائیں‘‘۔ یہ سن کر سونیا کے دل کی کلی کھل گئی۔ سب کو ایک ساتھ بلانا مشکل تو لگا، لیکن طے پا گیا کہ ایک دن ننھیال اور ایک دن ددھیال والوں کی دعوت رکھ لی جائے۔
فرح بھابھی سونیا سے چند سال بڑی تھیں۔ نہایت خوش مزاج اور سادہ دل۔ چند ہی دنوں میں سونیا سے خوب اچھی دوستی ہوگئی۔ فرح امریکا میں پلی بڑھی تھی، لیکن اندر سے مشرقی ہی تھی۔ یہ اس کے والدین کی تربیت تھی۔ سونیا مشورے کی غرض سے ان کے پاس پہنچی۔
فرح بھابھی کہنے لگیں: ’’اتنی دعوتیں روز ہی کھا رہے ہیں۔ پاکستانی کھانے تو میز سے غائب ہی ہوتے جارہے ہیں۔ اب گھر میں دعوت ہورہی ہے تو پاکستانی کھانے بناؤ ناں۔۔۔‘‘
سونیا بے مزا ہوگئی، بولی: ’’میں نے تو اتنے پلان بنا رکھے تھے، آپ آئیں گی تو یہ ڈش بناؤں گی، وہ بناؤں گی، میں نے اتنا سامان جمع کیا ہوا ہے مختلف آئٹم پکانے کا۔ آپ یہ کہہ رہی ہیں!‘‘ اس نے باقاعدہ منہ پھلالیا۔
’’ہاں سونیا، میں بھی فریج میں قسم قسم کی چیزیں دیکھ کر حیران ہورہی تھی۔ ان میں سے کافی تو وہ ہیں جنہیں ہم وہاں پر اپنی کچن لسٹ سے نکال چکے ہیں۔ وہاں رہ کر تو ہمیں بہت سوچ سمجھ کر خریداری کرنی پڑتی ہے کہ کیا حلال اجزا ہیں، کیا حرام ہیں۔ مگر میں حیران ہوں کہ یہاں تو کوئی ایسا نہیں کرتا‘‘۔ بھابھی نے اس کے منہ پھلانے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہہ دیا۔
’’ارے بھابھی، ہم ان چیزوں میں نہیں پڑتے، جو مل رہا ہے شاپس میں، وہ لے لیتے ہیں۔ یہ تو حکومت کا کام ہے، نہ آنے دے مارکیٹ میں۔۔۔‘‘ سونیا نے کہا۔
’’پیاری بہنا، بعض ایسے اجزا ہوتے ہیں کہ جن کے ڈالنے سے ساری ہنڈیا ہی حلال نہیں رہتی۔ حلال کھانے کے لیے ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا‘‘۔ سونیا، بھابھی کی باتوں سے بے زار ہورہی تھی اور سوچ رہی تھی اِن سے کیوں مشورہ مانگ لیا! اس سے اچھا ہے، دعوت ہی منسوخ کردیں۔
’’اچھا سنو، ایک ویب سائٹ ہے، تمہیں اس کا لنک دیتی ہوں، اس پر تمہیں ان اجزا کی اچھی معلومات ملے گی۔ دعوت میں ابھی تین دن ہیں، تم آج ہی اس کا وزٹ کرلینا‘‘۔ فرح نے کہا تو سونیا نے مرے سے لہجے میں ہامی بھرلی۔
۔۔۔*۔۔۔
سب سوچکے تھے۔ سونیا حیرانی سے آنکھیں پھاڑے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر وڈیو دیکھ رہی تھی جس کے بارے میں بھابھی نے بتایا تھا۔ اُف۔۔۔! اتنے سارے لال بیگ فارم میں پالے گئے تھے۔۔۔ اسے لگا اس کے ہاتھ پر چل رہے ہوں۔ گھبرا کر ہاتھ جھٹکا تو پس پردہ کمنٹری سنائی دے رہی تھی۔ ایک جگہ لال بیگوں کو مخصوص درجۂ حرارت پر خشک کیا جارہا تھا تاکہ یہ اچھی طرح کرش کیے جاسکیں۔ ان کو کافی بینز کے ساتھ مخصوص تناسب میں ملاکر کافی کا مزا دوبالا کیا جارہا تھا۔ مشہور کافی کمپنیوں کے نام سائیڈ کی پٹی پر چلے آرہے تھے: ’’اُف۔۔۔ میں نے کتنے قسم کے کافی آئٹم لے لیے ہیں، اور بے خبری میں وہ جانور منہ کے راستے پیٹ میں پہنچ رہا ہے جس سے گھن کھا کر پلنگ پر چڑھ کر بیٹھ جاتی ہوں‘‘۔ وہ بڑبڑائی۔ ساسز بنانے کی تیاری بھی دکھائی جارہی تھی۔ مزا بڑھانے کے لیے مشکوک قسم کے اجزا ڈالے جارہے تھے۔ کسٹرڈ، جیلی اور مختلف کھانوں میں استعمال ہونے والے نوڈلز جو بہت طرح سے کھانوں میں مزا بڑھاتے ہیں ان کی تیاری کا اہم جز ’’جیلاٹن‘‘ ہوتا ہے، جو تمام جمنے والے پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی اصلیت جان کر سونیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ جیلاٹن مختلف جانوروں کی ہڈیوں کا پاؤڈر بناکر حاصل کیا جارہا تھا۔ ان میں گھوڑے، گائے اور۔۔۔ اور۔۔۔ خنزیر کی ہڈیاں تھیں جو مختلف عمل سے گزار کر باریک سفوف بن چکی تھیں اور انہیں نفیس پیکنگ میں تیار کیا جارہا تھا۔ ’’یہ جانور زندہ تھے کہ مُردہ، اور ان کو حلال طریقے سے بھلا کسی نے ذبح کیا ہوگا۔۔۔! اور میں ان سے بنی ہوئی چیزیں کس مہارت اور فخر سے استعمال کررہی ہوں۔ اس پاؤڈر سے بننے والے کسٹرڈ، میکرونی جیسی بیسیوں چیزیں ہر اسٹور پر دھڑادھڑ فروخت ہورہی ہیں‘‘۔ اس کا سر گھوم گیا تھا۔ گھڑی دیکھی، بہت وقت ہوچکا تھا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ابھی اٹھے اور فریج سے ساری اوٹ پٹانگ بلکہ کسی حد تک نجس اور گندی چیزیں نکال کر پھینک دے۔ جب اس کی ایک سہیلی نے اسے ایک وڈیو بھیجی، جس میں کافی بینز ہاتھی کو کھلا کر کچھ مخصوص غذا کھلائی اور اس کے ہضم ہونے کے وقت کا انتظار کیا، اور پھر بڑے سے شاپر میں ہاتھی کا فضلہ جمع کیا اور اس میں سے کافی کے بینز واپس نکالے اور پھر جو کافی بنی وہ دنیا کی مہنگی ترین کافیوں میں سے ایک تھی، تو اس نے اپنی سہیلی کا بہت مذاق اڑایا تھا۔ سونیا نے صبح کام کی ترتیب بنائی اور آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
ناشتے کی میز پر وہ رات والی وڈیوز کے بارے میں بتانے کے لیے بے چین تھی۔ بھابھی کا بے حد شکریہ ادا کرکے وہ جوش و خروش سے ان برگر قسم کے کھانوں کی اصلیت بتانے لگی، یہاں تک کہ چھوٹے بھیا نے کہا: ’’تم اتنی پریشان مت ہو بہنا! ہم خود ہی دیکھ لیں گے، ابھی تو کالج جانے دو۔‘‘ ابو نے بھی بے چارگی سے کہا: ’’بیٹا ابھی تو میں بھی آفس جارہا ہوں۔‘‘ بہرکیف دعوت کے لیے امی اور بھابھی کی مدد سے نیا مینو ترتیب دے لیا۔
دعوت کا دن بھی آگیا۔ سب قریبی رشتے دار ہی تو تھے، وقت سے بہت پہلے ہی آگئے تھے۔ چھوٹے بھیا نے لاؤنج میں ملٹی میڈیا بھی تیار کررکھا تھا، کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کس لیے ہے۔ اکثر مہمان سمجھ رہے تھے کہ شاید خاندان کی مختلف تقریبات اور شادی وغیرہ کی وڈیوز ہیں جو سب مل کر دیکھیں گے، جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔ جب بھیا نے اسکرین آن کی تو سب سمٹ کر قریب آگئے۔
’’امی جان، بھابھی جان، آپ اتنی دیر دستر خوان لگائیں ہم ذرا وڈیو دیکھ لیں۔‘‘ بھیا نے فلم دکھانی شروع کردی۔ حاضرین نے کچھ گھن کھائی، کچھ نے حیرانی دکھائی، کچھ شوقین افراد نے فلم ہی جعلی اور جھوٹ قرار دے ڈالی، مگر بالآخر اس بات پر اتفاق ظاہر کیا کہ یہ ساری چیزیں مسلمانوں کو کھلا کر ان کی ذہنی پاکیزگی ختم کی جارہی ہے۔ طیّب اور حلال کھانے ہم سے چھینے جارہے ہیں اور اس کو فیشن اور معیارِ زندگی کا نام دیا جارہا ہے۔
اتنی دیر میں کھانے کے لوازمات سج گئے تھے۔ امی نے سب کو بلایا تو تائی امی کہنے لگیں: ’’سونیا بیٹا، تم نے تو کوئی ایسی چیز نہیں بنائی، تمہارے ہاتھ کے کھانے تو ہم شوق سے کھاتے تھے، اب کیسے کھائیں گے؟‘‘
’’ارے تائی امی، آپ آئیں تو سہی، دیکھیں کیا بنایا ہے۔۔۔‘‘ امی ان کا ہاتھ پکڑ کر دستر خوان پر لے آئیں۔ سب بیٹھ گئے۔ اب ڈونگوں پر سے ڈھکنا اٹھایا تو اچار گوشت، نرگسی کوفتے، خوب صورتی سے سجی سلاد کی ٹرے، قیمے کی بریانی پر ابلے انڈوں کی سجاوٹ، دھنیا پودینے کی چٹنی، رائتہ، ساتھ تندوری نان۔۔۔ سب نے کھانے سے خوب انصاف کیا۔ مٹی کے پیالوں میں فیرنی تو سب ہی کو بہت اچھی لگی۔ فرح بھابھی آخر میں الائچی ڈال کر بھاپ اڑاتی چائے لائیں تو محفل کا رنگ دوبالا ہوگیا۔
سونیا اور فرح نے سب کو بتادیا کہ اب ہم اپنے روایتی کھانوں کی طرف پلٹ گئے ہیں۔ امی نے فرح بھابھی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’’میری بہو نے ہمیں گندی چیزیں کھانے سے بچا لیا، ورنہ ہم بھی نام نہاد فوڈ کلچر میں گرفتار اپنی صحت اور ایمان تباہ کررہے تھے‘‘۔
ابو چھوٹے بھیا کو پیار سے دیکھ رہے تھے کہ آج اس نے نیٹ کے مثبت استعمال سے کیسے اچھا سا پیغام پورے خاندان تک پہنچا دیا!!
پیغام
خاتونِ جنتؓ کا عملی پیغام
مشقت میں عورت کماتی ہے نام
وفا بھی،ادا بھی، حیا بھی ،رضا بھی
بلندی کے اوصاف چن لو تمام
گزاری ہیں سجدوں میں راتیں سراسر
تھا شوقِ عبادت ہی زریں زمام
خدا اور شوہر کی ہر دم اطاعت
ملیں چاہے فاقے ، صبح اور شام
پڑھایا سبق اپنے نورِ نظر کو
رضائے خدا ، سب سے اعلیٰ انعام
وہ عظمت کی پیکر ،مرا رول ماڈل
وومن ڈے پہ تم کو یہی ہے پیام
سرکہ کے کمالات
گوشت کچھ دیر کے لیے سرکے میں بھگو کررکھنے سے نہ صرف اس میں موجود نقصان دہ بیکٹیریا مرجاتے ہیں بلکہ اس طرح گوشت جلدی گل بھی جاتا ہے۔
اگر کھانا پکاتے وقت نمک تیز ہوجائے تو اس میں تھوڑا ساسرکہ شامل کردیں۔
کیتلی کے اندر سے چائے کے دھبے دور کرنے کے لیے کیتلی میں3کپ سفید سرکہ ڈال کر 5 منٹ تک ابالیں اور سرکہ رات بھر کے لیے کیتلی میں ہی رہنے دیں۔ اگلے روز اسے ٹھنڈے پانی سے دھوکرصاف کرلیں۔
لکڑی کے کٹنگ بورڈ کوکبھی پانی اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر سے نہ دھوئیں۔ جب اس کی صفائی مقصود ہو تو اس پر تھوڑے سے بیکنگ پاؤڈر کے ساتھ سفید سرکہ چھڑک دیں۔ ٹھنڈے پانی میں بھیگے ہوئے صاف کپڑے سے کٹنگ بورڈ صاف کرلیں۔
اسٹین لیس اسٹیل، پیتل یا کسی بھی دھات کے قیمتی برتن صاف کرنے کے لیے نمک اور آٹا ہم وزن لے کر اس میں سرکہ شامل کریں اور پیسٹ بنالیں۔ اب اس پیسٹ کو برتنوں کے اندر اور باہر لگا کر کچھ دیر کے لیے رکھ دیں، پھر پانی سے کھنگال کر نرم تولیے سے صاف کرلیں، برتن چمک اٹھیں گے۔
تھرماس کی بُو دور کرنے کے لیے اسے گرم پانی اور چوتھائی کپ سرکہ سے بھرکر اس میں تھوڑے سے کچے چاول ڈال دیں۔ پھر تھرماس بندکرکے اسے اچھی طرح ہلائیں اور سادہ پانی سے دھولیں۔ جب تھرماس خشک ہوگا تو اس کی بُو اور داغ دھبے سب دور ہوجائیں گے۔
لہسن، ادرک، پیاز یا کوئی اور سبزی کاٹنے کے بعد ہاتھوں سے بُو آنے لگے یا ان پردھبے پڑجائیں تو ہاتھوں پر سرکہ لگانے سے بُوکے ساتھ ساتھ دھبے بھی دور ہوجاتے ہیں۔
چولہے، ٹیبل، کاؤنٹر اور سنک(Sink) سے چکنائی وغیرہ کے دھبے مٹانے کے لیے پانی اور سرکہ یا بیکنگ پاؤڈر اور سرکہ ہم وزن لے کر پیسٹ بنائیں اور اسے داغوں پرلگاکر کچھ دیر کے لیے چھوڑ دیں، پھر گیلے کپڑے سے صاف کرلیں۔ جلی ہوئی دیگچیوں اور ساس پین سے نشانات مٹانے کے لیے ان میں سرکہ اور پانی ملاکر ابالیں۔ برتنوں کی سیاہی دور ہوجائے گی۔
ایک چھوٹے برتن میں سرکہ اور پانی ڈال کر ابالیں۔ اس کی بھاپ اور خوشبو کچن میں پھیلے گی تو ہرطرح کی بُو دور ہوجائے گی۔
مائیکرو ویو اوون کی اندر اور باہر سے صفائی کے لیے اس میں سرکہ اور پانی سے بھرا پیالہ رکھ کر اوون چلادیں۔ بھاپ اوون کے اندر پھیل جائے تو پیالہ باہر نکال لیں، اور جب پانی ذرا ٹھنڈا ہوجائے تو کسی صاف کپڑے کو پانی میں بھگو کر اوون صاف کرلیں۔ بعد میں یہ بچا ہوا پانی اسٹک یا ڈرین میں ڈالیں تاکہ اس کے اندر جما ہوا میل بھی صاف ہوجائے۔

حصہ