یاسر عرفان ست سیئد وزیر قادری کی بات چیت

240

گزشتہ دنوں برطانیہ ، ترکی اور متحدہ عرب امارات جانا ہوا، فائدہ اٹھاتے ہویے برمنگھم میں قیام پزیر لیجنڈ سابق قومی کرکٹ کپتان و کوچ مشتاق محمد اور کینٹ میں مقیم یاسر عرفات سابق قومی کرکٹر سے ملاقات ہوئی اور قارئین جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے گفتگو ہوئی۔
آج چونکے یاسر عرفات کا یوم پیدائش ہے لہذا ان سے ہوئی گفت و شنید کو پہلے جگہ دی جارہی ہے۔اس موقع پر بڑے بھائی سید عاصم علی قادری کا شکریہ جنہوں نے ان سے رابطہ کرکے میرے دورہ برطانیہ میں ان سے ملاقات کو آسان بنایا۔
یاسر عرفات 12مارچ82 19کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے، والد محترم ائیرفورس سے وابستہ رہے۔ میٹرک پاکستان ائیرفورس سیکنڈری اسکول راولپنڈی سے کیا۔ انٹر ایف اے گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے پاس کیا۔ تعلیم کا سلسلہ دوبارہ نہ جڑ سکا۔
1996ورلڈ کپ u/16کے اسکواڈ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد u/19کے لیے بھی ٹیم میں منتخب ہوگئے۔ اسی اثنا پروفیشنل کرکٹ بھی جوائن کرلی۔ اسکاٹ لینڈ میں 2000سے 2006تک کلب کرکٹ کھیلی۔
2006-7سیزن کے لیے succexنے ٹرائل کے لیے بلالیا، مشتاق احمد اور رانا تنویر کی جگہ خالی ہوئی تھی۔ اس سلسلے میں مشتاق احمد کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے متعارف کرایا۔ ٹرائلز میں کامیابی کے بعد فوری طور پر کنٹریکٹ سائن کردیا۔ 3ماہ کھیلنے کے بعد آل راؤنڈر کارکردگی دیکھنے کے بعد کاؤنٹی سے آفر آگئی۔ لہذا kentکاؤنٹی میں 2007 کے اوائل میں شامل ہوگئے۔
2006میں 2ٹرافیاں جیتیں ، لارڈز کے میدان میں۔ پہلے ہی سال 4 کامیابیاں ملیں۔ اس میچ میں مشتاق احمد نے 4وکٹیں لی تھیں۔
u/16اور u/19کھیلتے ہوئے رول ماڈل پاکستان کے سابق مایہ ناز کپتان اور فاسٹ بولر عمران خان کو اپنایا۔running between the wicket جاوید میانداد اور آصف اقبال سے متاثر ہویے۔
2000میں نئی صد صدی کے آغاز پر ڈبیو کیا ۔ ڈومیسٹک کی کارکردگی کی بنیا د پر سلیکشن کمیٹی نے چنا۔ اس وقت سعید انور کپتان تھے۔ اس میچ میں جے سوریا کو آؤٹ کیا تھا اور 5رنز دیے تھے۔ اس کے بعد یاسر عرفات کو واپس وطن بھیج دیا گیا۔ ان فٹ ہونے کی وجہ سے انضمام اور اظہر محمود بھی اس وقت ڈراپ ہوئے۔ پورے سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی اور 2001میں وقار یونس کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر شارجہ میں ملک کی نمائندگی کا موقع ملا۔ اس میچ میں جے وردنے کو آؤٹ کیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر وقفہ آگیا۔ آبدیدہ ہوتے ہویے بتایا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں 70/80وکٹیں لینے پر لگتا ہے oblidge کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
انگلینڈ Aکے 6کھلاڑیوں کو ایک روزہ میچ میں پویلین کی راہ دکھلائی۔ 9رنز دے کر 3وکٹیں لینے کے باوجود ٹیم میں نہیں لیا گیا جبکہ عاقب جاوید، سر رقیب نے متبادل کے طور پر مانگا تھا لیکن سلیکشن کمیٹی نے کان نہیں دھرے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی ہمیشہ کیمپ میں بلاتی اپنا ٹکٹ لے کر کیمپ جوائن کرتا مگر ٹیم میں نہیں لیا جاتا تھا۔ 3/4مرتبہ ایسا ہوا تو بہت دکھ ہوا کہ کارکردگی دکھانے کے باوجود بھی موقع نہیں دے رہے اور سونے پہ سہاگا کہ کاؤنٹی کرکٹ میں بھی بہت مشکلات آتیں جب اس کو چھوڑ کر کیمپ کے لیے وطن واپس لوٹتا۔
اب بھی پاکستان کی جانب سے کھیلنے کے لیے بلایا گیا تو ضرور قوم و ملک کے لیے کھیلنے کو تیار ہوں۔ پہلے میرا وطن پاکستان ہے پھر کوئی اور شناخت۔
گزشتہ سال MPL(ماسٹر پریمئیر لیگ) کا دبئی میں انعقادہوا تو شرط تھی کہ ریٹائرمنیٹ لے کر ہی کھیلنا ہوگا۔ لہذا 2016کو انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمینٹ لے لی۔
گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں نے کوچنگ لیول 3بھی انگلش کرکٹ بورڈ (ECB) سے کرلیا ہے جس کوکرنے میں 6سے 7ماہ لگے۔ اس سے کیرئیر مزید اچھا ہوجائے گا۔ فرسٹ کلاس کھیلی ہے۔ تجربہ بھی بہت ہوگیا۔ اس combination کے ساتھ اچھا کوچ ثابت ہو سکتا ہوں، دنیا کی ہر لیگ کھیل چکا ہوں۔
قارئین جب میرے بارے میں پڑھ رہے ہونگے اس وقت میں 35سال کا ہوچکا ہونگا ۔ 12مارچ میری پیدائش کا دن ہے۔
انہوں نے بڑے جوشیلے انداز میں اپنی شادی کا زکر کرتے ہویے کہا کہ شادی بھی بہت یادگار رہی۔ 2011میں اوول کے میدان میں میری شادی ہوئی۔ ویسے تو وہاں پروگرامات ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کرکٹر کی شادی اس تاریخی اسٹیڈیم میں ہونے کا شرف مجھے حاصل ہوا۔
میرے سسر اور سسرال والوں کو کرکٹ سے بہت محبت ہے اور اسی محبت کا climexمیری ازواجی زندگی کے آغاز کا موجب بنا۔میری بیوی کو کرکٹ کا بہت شوق ہے بلکہ جنون کی حد تک ہے۔ انہوں نے MCCکی ممبر شپ بھی حاصل کرلی۔ اور وہاں جاکر میچ بھی دیکھتی ہے۔ میرا ماشاء اللہ 4 سال کا بیٹا ہے اور 3ماہ کی بیٹی ہے۔ لیجنڈ کرکٹر اور میرے آئیڈیل اور کرم فرما آصف اقبال نے اس کو ریمارکس کے ساتھ کرکٹ بیٹ بھی تحفہ میں دیا ہے۔ یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ 2011میں ، میں سرے serraeکی نمائندگی کررہا تھا اور اسی موقع پر یہ بندھن بندھا۔ انگلینڈ کے کھلاڑیوں کے علاوہ لارڈز نزیر، ممتاز شاعر افتخار عارف، گنگولی، آصف اقبال ، اظہر محمود، ثقلین مشتاق اور دیگر کئی اہم شخصیات نے اس تقریب میں شرکت کی۔
گینز ورلڈ ریکارڈ میں میرا نام آنا ملک و قوم کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں fastest 90وکٹیں لیں صرف 63میچز میں۔ یہ 2010-11کی بات ہے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی دنیا میں برائیو اور ملنگا کو 304وکٹیں لینے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ میری 284وکٹیں ہیں۔ بحیثیت پاکستانی مجھے نمبر 1بولر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
فیصل آباد کے خلاف 5گیندوں پر 5وکٹیں لینے والا میں واحد بولر ہوں جس نے ورلڈ ریکارڈ برابر کیا۔
پاکستان سپر لیگ کے بارے میں میری رائے بہت مثبت ہے۔ اگر انڈین پریمئیر لیگ کو دیکھا جائے تو آپ محسوس کریں گے کہ بھارتی کھلاڑیوں میں اس لیگ کی وجہ سے بہت اعتمادآیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے ملک میں دیگر بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے کا تجربہ اور آمدنی میں بے تحاشہ اضافہ کھیل کے نکھار میں اہم کردار اد ا کرتا ہے۔ اب ہمارے ملک کی پی ایس ایل کے 2ایڈیشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوئے۔ اس سے یقیناًکھلاڑیوں میں اعتماد بحال ہوگا۔پوری قوم کو اس کی حمایت کرنی چایئے۔
منفی سرگرمیاں کسی بھی نوعیت کی ہوں نظم وضبط پر کھبی بھی سودے بازی اور دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے۔ حالیہ لیگ میں جو اسکینڈل سامنے آیا اس کی روک تھام کا ایک ہی کامیاب طریقہ ہے کہ full stopلگاد یا جائے۔ کتنا ہی طاقتور اور بہترین صلاحیتوں کا مالک ہو کھلاڑی یا کوئی آرگنائزر نہ بخشا جائے۔ اگر میچ اسپاٹ فکسنگ کیس میں ملوث کھلاڑیوں پر جرمانہ، سزا اور مستقل پابندی لگادی جاتی تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اس سے ملک کی بہت بدنامی ہوتی ہے۔ اور ہم یہاں پر اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں جواب نہیں دے پاتے۔
پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے بہت اچھا مستقبل ہے۔ گلی سے نکال کر بین الاقوامی میدانوں میں کھلاڑیوں کو لایا جاسکتا ہے۔ اور اگر وہ ٹیکنک کے ساتھ کھیلیں تو کوئی وجہ نہیں ہماری قومی ٹیم تینوں فارمیٹ کی نمبر ون ٹیم نہ کہلائے۔ مگر ایک قدم آگے بڑھ کر آپ کے اخبار کے توسط سے یہ بات بھی باور کرانا چاہتا ہوں کہ جس طرح میرے ٹیلنٹ کو ضائع کیا گیا اور مجھے مستقل بنیادوں پر مواقع نہیں دیے گئے اگر مستقبل قریب و بعید ایسے ٹیلنٹ یافتہ کسی بھی کھلاڑی کے ساتھ زیادتی جاری رہی تو پھر کوئی بھی اپنی قدرتی صلاحیتو ں کو بروئے کار نہیں لائے گا اور مایوس ہوکر وہاں کا رخ کرے گا جہاں اسے عزت بھی ملتی ہے اور مالی طور پر خوشگوار ذندگی بھی۔
مجھے اپنے خاندان سے پوری سپورٹ رہی۔ والد صاحب کو جنون کی حد تک کرکٹ کا شوق تھا۔ کلب کرکٹ کھیلتے تھے تو رات کو والد صاحب دیکھتے تھے کہ کہیں آسمان پر بادل تو نہیں چھا رہے کہ میچ نہ ہوسکے۔ محنت میری اور د عا والد صاحب کی ہمیشہ ساتھ رہی۔
جہاں تک تعلیم کے تعطل کا تعلق ہے اس پر بہت زیادہ پریشان یا پشیمان نہیں ۔ کتنے ڈاکٹرز، انجینئیرر ایسے ہیں جو مقبول ہوں دنیامیں۔ کھیل کے زریعے پورے ملک میں اور اس سے باہر عزت بھی ملتی ہے اور مالی طور پر بھی مستحکم ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ مجھے اس بات پر ہمیشہ رشک رہے گا کہ ملک کی نمائندگی کی۔
جہاں تک پاکستان کرکٹ بورڈ کا تعلق ہے تو اس میں پروفیشنل لوگ آنے چائیں۔ اعزازی خدمات نہ لیں۔ سلیکٹرز، کوچ وقتی طور پر متعین نہ کیے جائیں۔ اشتہارات دے کر انٹرویو کے زریعے میرٹ پرانتخاب کیا جائے۔ کوچ ہو یا کوئی اور عہدیدار ایک سال میں کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک وقت تک اس کو کوئی بھی ذمہ داری سونپی جائے اوروہ بورڈ کو جواب دہ ہو۔ یہ نہ ہو ایک سال کوچ بنادیا پھر ہٹا دیا اور اس کے بعد مینجر کی ذمہ داری سونپ دی۔اس طرح چہرے ایک سیٹ سے دوسری سیٹ پر نظر آتے ہیں۔ ہر سلیکشن کمیٹی کے رکن سے مواخذہ ہو ایک اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو کیوں نہیں لیا گیا اور جس کو لیا گیا اس کی کیا بنیاد تھی۔
پاکستان کے 2شہر بہت اہم ہیں۔ کراچی اور لاہور ان دونوں شہروں میں کلب کرکٹ کو پروان چڑھایا جائے۔ ہمارے وقت میں ہم اخبار پڑھتے تھے اس میں ہماری پرفارمینس تصویر کے ساتھ چھپتی تھی۔ بہت خوش ہوتے تھے۔ اب تو کلب کرکٹ آخری سانس لے رہی ہے۔ اگر کرکٹ کو فروغ دینا ہے تو نچلی سطح (گراس روٹ ) پر توجہ دینا ہوگی۔ سمر کیمپس لگانے ہونگے جن کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے۔ گراؤنڈز ، میدان، اسٹیڈیمز غریب کے لیے ناپید ہیں۔ ہر چیز کمرشل ہوتی جارہی ہے۔ ہزاروں روپے دو تو نائٹ میچ کے لیے جگہ مل پاتی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے ہر بڑے شہر میں کم از کم ایک ایسی ایکڈمی ہونی چاہئے جس میں بیک وقت تمام سہولیات موجود ہوں۔ ریجن کے پاس اپنی ایکڈیمی ہو۔ جس میں انڈور گیمز بھی ہوں۔ اپنا سیٹ اپ ہو۔ لاہور جاکر ایکڈیمی جوائن نہ کرنا پڑے۔ کراچی کی اپنی اکیڈیمی ہو جس کی سرپرستی پی سی بی کرے۔ ہر ریجن میں میڈیکل سیٹ اپ بھی موجود ہو تاکہ اگر کوئی انجری ہوجائے تو اس کو فورا طبی امداد مل سکے۔
آج کل ڈومیسٹک کرکٹ میں اخراجات کم کیے جاتے ہیں۔ گیندیں پرانی ہونے کی وجہ سے کوائلٹی نہیں ہوتی۔سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بنیاد خراب ہے، running between the wicketکو کیسے بہتر کیا جائے یہ سب کلب کرکٹ میں صیح ہونگیں۔ ڈائریکٹ قومی ٹیم میں آکر اس پر توجہ دینے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کو گراس رووٹ پر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ریجن میں کوچ کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ کھلاڑیوں کے بارے میں کوچ سے feedback لیا جائے اس کے علاوہ کھلاڑیوں سے بھی کوچ کے بارے میں ریمارکس لیے جائیں۔
پاکستان میں ایک اور مشکل یہ ہے کہ کسی بھی عہدہ کے لیے مختصر مدت کے لیے آفر ہوتی ہے۔ ایک یا 2سال میں مشکل ہوتا ہے کہ بہت اچھی ٹیم تیار کی جاسکے۔ کم از کم4/5سال کے لیے hireکیا جائے اور اس کی کارکردگی کو judgeکیا جائے۔ چھوٹے لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہویے یاسر عرفات کا کہنا تھا کہ کاؤنٹی کرکٹ میں ابھی تک ہوں، کوچنگ کو بھی اپنانے میں خوشی محسوس کرونگا اور ر ب العزت سے پر امید ہوں کہ اس شعبے میں بھی کامیاب رہونگا۔
جب میں جوئنیر لیول پر توجہ کی بات کرتا ہوں تو ماضی کو سامنے رکھ کر یہ بات کہتا ہوں، u/16, u/19سیٹ اپ سے ہی شاہد آفریدی، فضل اکبر اوردیگر کئی اہم کھلاڑی سامنے آئے۔ میں خود اس کی پیداوار ہوں۔
اب ٹور بھی کم ہوگئے ہیں، Aٹیم بہت کم کسی غیر ملکی دورے پر جا پاتی ہیں، آسٹریلیا کو دیکھیں وہ اس پر بہت توجہ دیتا ہے۔ سمر کیمپ سے لے کر دیگر معاملات کو میرٹ کی بنیاد پر درست کرنے اور چلانے کی ضرورت ہے۔ ایمانداری اور دیانتداری اور سچی لگن، محنت کا پھل رب العزت ضروردیتے ہیں۔
ینگسٹرز کے لیے مشورہ ہے کہ وہ کھیل کو سنجیدہ لیں بہت اچھا مستقبل بن سکتا ہے۔ ملک اور خاندان کا نام روشن کریں۔ دیکھنے والے ان کی پزیرائی کریں گے۔ ٹیموں کی کارکردگی اور پوزیشن اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں لیکن مستقل مزاجی سے اپنے کھیل پر توجہ رکھنا بہت اہم ہے۔ہماری ٹیم ہر وقت جیتے ضروری نہیں ، جتنی محنت کریں گے گراؤنڈ پر نتائج ویسے ہی آئیں گے۔
آئی سی سی چیمپنز ٹرافی 2017کا انعقاد جون میں ہے۔ انگلینڈ اور ویلز میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم میں کئی کھلاڑی نئے ہونگے اور انگلش کنڈیشنز سے بھی بہت زیادہ واقف نہیں ہونگے۔ لیکن گھبرانے کے بجائے ٹریننگ ، فٹنس اور اپنے کام سے مطلب جیسی پالیسی ان کو دشواریوں سے نکال سکتی ہے۔ ہمارے گروپ میں بہترین ٹیمیں ہوتی ہیں اور مقابلہ سخت لہذا جونئیر کے لیے مشکل ہوگا ان حالات کا مقابلہ کرنا لیکن عزم ہ ہمت سے وہ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اچھی ٹیم کے لیے ضروری ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ کو بہتر بنایا جائے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو تجویز دے رہا ہوں کہ ہر کھلاڑی کو مختصر وقت کے لیے نہ چنا جائے ، چند میچ کھلا کر چھٹی نہ کی جائے، ان کو پور ا موقع دیں کہ وہ ملک کی نمائندگی زیادہ دیر تک کرسکیں۔ کھلاڑی اپنے مستقبل کو محفوظ سمجھے گا تو بہتر کارکردگی دکھا پائے گا ورنہ سر پر تلوار کہ اس میچ کے بعد چھٹی نہ ہوجائے۔
کھلاڑیوں کے چناؤ میں سلیکٹرز کے علاوہ مینجمینٹ کی بھی رائے شامل ہونی چایئے۔ اس بات کو ضرور مدنظر رکھا جائے ایک کھلاڑی کو پورا پورا موقع ملے اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا تاکہ کھلاڑی بھی مطمئین ہو۔
صرف پی ایس ایل کے ایک میچ کی کارکردگی کو قومی ٹیم میں شمولیت کا پیمانہ نہ رکھا جائے ، ڈومیسٹک کرکٹ 2-3سال پر مشتمل اس کھلاڑی کی کارکردگی کو جانچا جائے اور پھر اس کو موقع ملے۔ صرف ٹی وی پر میچ دیکھ کر کھلاڑی کو منتخب کرنا یا رد کرنا مناسب نہیں۔
کھلاڑی کے لیے دیگر شہریوں کی طرح کردار بہت اہمیت کا حامل ہے، کردار سازی ایک کام ہے جو گھر، اسکول، معاشرہ اور پھر میدان میں ہوسکتا ہے۔ اچھے کھلاڑی میں تحمل جیسے اوصاف کا ہونا بہت ضروری ہے اور صبر کے ساتھ اپنے پیشے سے نیک نیتی کے ساتھ جڑے رہنا روزی حلال کرنے کے مترادف ہے۔
قارئین جسارت اور آپ کا شکریہ کہ مجھے عزت افزائی بخشی۔ اللہ کریم پاکستان کو دنیا کی بہترین ریاست بنائے آمین۔
یاسر عرفات کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جہاں کا ہیرا ہو وہ اس کی خصوصیت اور اہمیت کو نہیں پہنچان سکے اور دوسرے ایسے ہیرے جواہرات کی طرح صلاحیتوں کے حامل فردکو اٹھا کر اپنے لیے چن لیں اور کامیابی سمیٹھتے رہیں۔
یاسرعرفات (آل راؤنڈر) کی کارکردگی ایک نظر میں
بلے بازی کرتے ہیں سیدھے ہاتھ سے
بولنگ کراتے ہیں سیدھے ہاتھ سے فاسٹ میڈیم
پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز 2000-2012ء میں حاصل ہوا
ٹیسٹ ڈیبیو:(کیمپ نمبر 189) 8 دسمبر7 200ء بمقابلہ بھارت
آخری ٹیسٹ:یکم مارچ 2009ء بمقابلہ سری لنکا
ون ڈے ڈیبیو: (کیمپ نمبر 130) 13 فروری 2000 بمقابلہ سری لنکا
آخری ون ڈے :3 مئی 2009ء بمقابلہ آسٹریلیا
پاکستان ٹیم میں ریسوکھلاڑی رہے:1999-2000ء
ڈیپارٹمنٹ کے آر ایل لبارٹیریز 2000-2006ء
نیشنل بینکآف پاکستان2005-2006ء
کاؤنتٹی :سکس2006, 2009, 2010ء
کینٹ2007-2008ء
اُٹاگو2009-2010ء
سرے 2011ء
برسیل برنرز2012ء
لنکا شائر2012ء
سمرسیٹ 2013,2016ء
پرتھ اسکارچرز2013,2014ء
ہیمپ شائر2015 to dateء

حصہ