(بادشاہ مرگیا ۔۔۔۔بادشہ زندہ باد(سید اقبال چشتی

334

پولیٹیکل سائنس کا مشہور نعرہ ہے کہ بادشاہ مرگیا۔۔۔ بادشاہ زندہ باد۔۔۔کل تک جس باشاہ کے گن گائے جارہے ہوتے تھے، اس کے مرتے ہی اگلے بادشاہ کے حق میں نعرے لگنے لگتے ہیں، کیو ں کہ یہ دنیا ہی طاقت کی ہے اور طاقت جس کے پاس ہے، ہر کوئی اس کے گن گاتا ہے۔ اس وقت ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ پاکستان میں آئندہ سیاسی میدان کس کے ہاتھ لگے گا؟ اس حوالے سے اس وقت کہنا قبل از وقت ہے، لیکن چڑھتے سورج کے پجاری سیاسی پارٹیاں بدلنے والوں کی ادھر اُدھر چھلانگیں یہ پتا دے رہی ہیں کہ آئندہ کیا ہونے جارہا ہے؟ طاقت اور سیاسی کھیل کھیلنے والی اسٹیبلیشمنٹ پاکستانی سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بٹھائے گی، اس کے لیے پلاننگ ابھی سے شروع ہوگئی ہے، خاص طور پر صوبہ سندھ میں۔ اسی لیے گزشتہ دنوں سیاسی جماعتوں میں شمولیت کے حوالے سے خبریں گرم رہیں کہ فلاں نے فلاں کو خیر باد کہہ کر فلاں پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس موقع پر شامل ہو نے والوں کے اعزاز میں تقریبات کی خبریں اور پریس کانفرنسیں الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنی رہیں اور پھر بعد میں ان شامل ہو نے والوں کے مشہور چینلز پر انٹرویو بھی دیکھنے اور سُننے کو ملے۔ میڈیا کو بہترین مو ضوع اور سیاسی لوگوں کو بہتریں قائد اور بہترین پارٹی مل گئی۔
سیاست بھی ایک سائنس ہے اور اس سائنس کو سمجھنے کے لیے عوام کے پاس وقت تو بہت ہے، لیکن دماغ نہیں ہے اور یہ سیاسی بازی گر عوام کی اسی کم زوری کا فائدہ اُٹھا تے ہیں۔ ان پارٹی بدلنے والی نام ور شخصیا ت میں نبیل گبول، جو پہلے پیپلز پارٹی میں تھے اور ان کا اوڑھنا بچھونا ایک وقت سب کچھ پیپلز پارٹی تھا اور لیاری سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن بھی جیتے تھے، اچانک ایسا کیا ہوتا ہے کہ محترم نبیل گبول صاحب کو پیپلز پارٹی میں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں، پارٹی اور پارٹی کے سر براہ سے ایک دو نہیں، ہزاروں اختلافات ہوجاتے ہیں اور محترم نبیل گبول پیپلز پارٹی چھوڑ کر متحدہ قومی مو منٹ میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں اورمتحدہ کی طرف سے بھی ٹکٹ ملنے کے بعد ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوجاتے ہیں پھر قائد تحریک الطاف حسین کے گن گانے لگتے ہیں۔ ہزار برائیوں والا قائد اچھا اور ہزاروں اچھائیوں والا قائد بُرا ہوجاتا ہے۔ ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کی خاطر پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں اور لیاری کی عوام سے خطاب کرتے ہو ئے موصوف کہتے ہیں کہ لیاری کی عوام کو اسلحہ پکڑوانے والوں کا احتساب کیا جائے گا، لیکن یہ تو سب کو معلوم ہے کہ لیاری کیا۔۔۔ پورے کراچی کو اسلحے کے ڈھیر میں کس نے تبدیل کیا اور ابھی تک ہر یونٹ اور سیکٹر آفسز سے لے کر عزیزآباد کے گھروں سے اسلحہ نکل رہا ہے۔ اب اگر آپ نے پارٹی بدل لی ہے تو انتظامیہ کو یہ بھی بتادیں کہ کہاں کہاں اسلحہ چھپایا گیا ہے اور یہ اسلحہ کہاں سے آتا ہے تاکہ صرف لیاری ہی نہیں پورا کراچی امن کاگہوارا بن جائے اور کراچی کے امن کو خراب کر نے والوں کا احتساب بھی کیا جا سکے۔ پیپلز امن کمیٹی سے اختلاف کی وجہ سے نبیل گبول پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر امن کے دشمنوں کی گود میں جا کر پناہ حاصل کرتے ہیں اور واپسی پر کہا جاتا ہے کہ میرے اختلافات ختم ہو گئے ہیں، یعنی چت بھی اپنی اور پٹ بھی اپنی۔ سیاسی آشیانے بدلنے والوں کو معلوم ہے کہ میری اکیلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس لیے وہ کوئی نہ کو ئی پارٹی ضرور جوائن کرتے ہیں۔ انہیں نہ اپنی عزّت کا لحاظ ہوتا ہے اور نہ کسی اور کی عزّت کا۔ پاس پنجابی زبان کا مشہور جملہ ہے کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے اسی لیے ویرات کولھی نے پاکستانی کر کٹر شاہد آفریدی کے متعلق کہا تھا کہ انہیں نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی عزّت کا یعنی آؤٹ ہو تے ہیں تو صفر پر اور کبھی رنز بنانے اور بولر کی پٹائی کرنے پر آتے ہیں تو صحیح کا بے عزّت کر دیتے ہیں، لیکن ہر بار پھر بڑی شان سے میدان میں آتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ گرگٹ کی طرح رنگ بد لنے والے سیاسی بادشاہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھا گھیل رہے ہیں، لیکن یہ لیڈران اچھا کھیلتے کھیلتے اپنے امپائر یا کوچ کے کہنے پر بعض غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ ان غلط فیصلے کرنے والوں کی فہرست بہت لمبی ہے، اس میں اکثریت تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ غلط فیصلوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی کم ازکم سندھ میں اننگز ختم ہوچکی ہے۔ جس طرح تحریک انصاف اپنے امپائر سے انصاف مانگ رہی تھی، اس سے اندازہ لگا نا مشکل نہیں تھا کہ اگر امپائر کی انگلی نہیں اُٹھی تو پھر انگلی اُٹھنے کے منتظر سیاسی آشیانے بدلنے والے لیڈران کی طرف انگلی اُٹھے گی، اس لیے بہت سے لیڈران نے اپنی طرف انگلی اُٹھنے سے پہلے ہی قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنا قائد، رہبر اور پارٹی بدل لی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سیاسی لیڈران حکم راں جماعت مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں، شاید پاکستان میں قومی سطح کی سیاست ماند پڑتی جارہی ہے، اس لیے صوبوں میں بر سر اقتدار پارٹیاں یہ سوچ رہی ہیں کہ بھا گتے چور کی لنگو ٹی ہی سہی کے مصداق صوبے کی حکومت کو تو پکا کرلیں، کیو ں کہ اقتدار صوبائی ہو یا وفاقی، اقتدار ہوتا ہے۔ تحریک انصاف جو بڑی زور و شور کے ساتھ آئی تھی اور تبدیلی کی خواہش کا نعرہ لگاکر، عوام کے دلوں میں جگہ بنانے میں کام یاب ہوگئی تھی اور عوام نے صبر کیا تھا کہ اس دفعہ نہ سہی، اگلی دفعہ تحریک انصاف کی باری ہو گی، لیکن ان کے لیڈران سے صبر نہ ہوا اور تحریک انصاف سندھ کے سابق صدر نادر اکمل لغاری اور تحریک انصاف سندھ کے نائب صدر آ غا رفیع اللہ نے ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش رکھنے والی جماعت تحریک انصاف یو تھ ونگ، کراچی کے صدر بھی تبدیلی لائے بغیر پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ تبدیلی کے نعرے لگانے والے خود اپنے آپ کو تبدیل نہ کرسکے تو وہ کیا تبدیلی لائیں گے؟ مصنوعی تنفس اور میڈیائی دوش کے ذریعے ہوا میں اُڑنے والے بالآخر تھک ہار کر واپس اپنے آشیانے کی طرف واپس آرہے ہیں۔ اخباری اطلا ع کے مطابق تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدربیرسٹر سلطان محمود کے لیے پیپلز پارٹی کا دروازہ کھل گیا ہے۔ پہلے زرداری نے کہا کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے لیے دروازے بند ہیں، لیکن زرداری اور سلطان محمود کے درمیان دبئی میں 13 ملاقاتیں ہوئیں تو یہ دروازہ کھل گیا، لیکن کیا کریں عرفان اللہ مروت نے بھی آصف علی زرداری سے دبئی میں ملاقاتیں کیں تھیں اور ان کے لیے بھی محترم زرداری صاحب نے پارٹی کے دروازے کھول دیے تھے، لیکن زرداری صاحب کی بیٹیوں نے عرفان اللہ مروت پر ان کے سابقہ کردار پر نظر رکھ کر فیصلہ دیا کہ عرفان اللہ مروت کے لیے پارٹی کے نہیں بلکہ جیل کے دروازے کھلنے چا ہیے اور ایسے فرد کو جیل میں سڑنا چاہیے، کیو ں کہ ان کے سابقہ اقدامات اور حرکات انتہائی گھناؤنی ہیں۔ اپنی والدہ کی دوست کے ساتھ ہو نے والے واقعے کو جواز بناکر عرفان اللہ مروت پر پارٹی کے دروازے بند کر دیے گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ ملک اور قوم کے ساتھ دھوکا دینے والے پھر کیسے محترم ہوگئے؟ وہ تمام سیاسی شخصیات بھی، جو پارٹی میں شامل ہوئی ہیں، ایسے ہی گھناؤنے اقدامات کی مر تکب ہو ئی ہیں، جو زرداری صاحب کو نہ جانے کتنے بُرے القابات سے پکارتے تھے اور کئی پر تو ہتک عزت کے دعوے بھی کیے گئے تھے، کیا آپ کی نظر میں باپ کی کو ئی عزّت نہیں ہے؟ جس طرح ایک فرد کے لیے پارٹی کے دروازے بند کیے گئے ہیں، اسی طرح اُن تمام سیاسی لوٹوں کے لیے بھی ایک نہیں، بلکہ تمام پارٹیوں کے دروازے بند ہونے چاہیے۔ جس طرح ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لیے اسمبلی میں جیتنے کے بعد اسمبلی ممبر پارٹی تبدیل نہیں کرسکتا، اگرکوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو اسمبلی کی سیٹ چھوڑنی پڑتی ہے۔ اسی طرح صوبائی اور قومی سطح کی حکو متیں اگر اسمبلیوں میں بل پاس کریں کہ کو ئی سیاسی شخصیت اگر پارٹی تبدیل کرے گی تو وہ شخصیت پانچ برس تک الیکشن لڑنے کی اہل نہیں ہوگی اور ایک پارٹی میں شمولیت کے بعد کم ازکم دس برس تک اس پارٹی میں رہنا ضروری ہے، اس کے بعد ہی پارٹی تبدیل کی جا سکتی ہے، مگر ایسا نہیں ہوگا۔ اپنی حکومتیں بچانے کے لیے تو ہارس ٹریڈنگ کا قانون پاس کرالیا گیا، لیکن سیاسی شخصیات کی ہارس ٹریڈنگ کا بل کبھی پاس نہیں ہوگا، کیو ں کہ ان حکم رانوں کو معلوم ہے کہ کبھی کے دن تو کبھی کی رات بڑی کی طرح یہ سیاسی شخصیات آج ہمارے پاس نہیں تو کل ضرور ہمارے پاس ہوں گے اور یہی سیاسی بلیک میلنگ ہے، جو اپنی بولیاں لگا کر پارٹی تبدیل کر تے رہتے ہیں۔ شاید اسی کو کہتے ہیں تھوک کر چاٹنا۔
پارٹیاں بدلنے والا جب بھی پارٹی بدلتا ہے، ایک ہی بیان دیتا ہے کہ ’’میں نے یہ فیصلہ قوم کے وسیع تر مفاد میں کیا ہے۔‘‘ ملک اور قوم کا مفاد ان سیاسی آشیانے بدلنے والوں کی نظر میں کیا ہے؟ یہ تو نہیں معلوم البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ ان لیڈروں کا مفاد کیا ہوتا ہے؟ ہر بار قوم ان شعبدہ بازوں کے جھا نسے میں آجاتی ہے، وہ تو شکر ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے لیے تبدیل�ئ مذہب کا قانون بنادیا ورنہ یہ مفاد پرست ٹولہ آئے روز پارٹی کے ساتھ مذہب بھی تبدیل کررہا ہوتا اور اپنے پارٹی قائد کے ساتھ اپنا مذہبی قائد بھی تبدیل کرتا رہتا۔ ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کرنے والا اکبر بادشاہ کے دور میں یہ مثال بھی پوری ہوچکی ہے، لیکن کیا کریں سیاسی آشیانے بدلنے والوں کا نہ کوئی قائد ہوتا ہے اور نہ ہی کو ئی مستقل سیاسی پارٹی۔ یہ بادشاہ کے درباریوں کی طرح ہو تے ہیں جب تک بادشاہ کی حکومت ہے، بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگاکر اس کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی بادشاہ کا اقتدار ختم ہوا، یہ اگلے بادشاہ کے استقبال کے لیے لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر نئے بادشاہ کے قصیدے پڑھنے شروع کردیتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا کے اسلامی ممالک میں یہی ہورہا ہے، وہ زمانے لد گئے، جب کہنے والا کہتا تھا کہ سرکار میں نے آپ کا نمک کھایا ہے اور ساری زندگی نمک حلالی کا حق ادا کرتا تھا، اب تو نمک حرام اور طو طا چشم کے جملے سُننے کو بھی نہیں ملتے، کیو ں کہ مو جودہ دور میں برادری ازم، طاقت اور پیسے کی بنیاد پر اپنے حلقہ اثر میں ووٹ کی طاقت سے بلیک میل کر نے والے یہ سیاسی پنڈت سمجھتے ہیں کہ ہم ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کررہے ہیں، قوم کا مفاد یہی ہے کہ سیاسی کھیل کھیلنے والے لوگ اور اسٹیبلیشمنٹ قوم کے حال پر رحم کریں۔ اِدھر ہم اُدھر تم کی سیاست نے ملک دولخت کردیا، اگر یہی سیاسی کھیل چلتا رہا تو ملک کبھی بھی ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا کیو ں کہ کرپٹ عناصر ملک اور قوم کے مفاد کے لیے نہیں، اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ 70 برسوں سے قوم دیکھ یہی رہی ہے کہ باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی۔۔۔نسل در نسل حکمرانی کا یہ سلسلہ چل رہا ہے اور ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ ’’ہم ملک اور قوم کو خوش حالی کے سفر پر لے کر چلنا چا ہتے ہیں۔‘‘ گزشتہ 70 برسوں سے یہ قوم دھوکے پر دھوکا کھا رہی ہے صرف اس لیے کہ قوم ان کرپٹ عناصر کا احتساب نہیں کرتی۔ قوم کو اس بات سے ہی سبق حاصل کرنا چاہیے کہ محترم زرداری صاحب کی بیٹیوں نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی قریبی ساتھی کے ساتھ ناروا سلوک پر ایک سیاسی شخصیت کو مسترد کردیا اور ان کو کہاں ہونا چاہیے ٹھکانہ بھی بتادیا تو کیا قوم کئی بار حکمرانی کے منصب پر براجمان ہو نے والے کرپشن کے شہنشاہوں کو مسترد کرکے کیا ان کا احتساب نہیں کرسکتی ہے۔۔۔ بالکل کرسکتی ہے بلکہ قوم اس بات پر متفق ہے کہ اس ملک میں فساد کی جڑ اور خرابیوں کا اصل سبب کرپشن ہے۔ اس کرپٹ ٹولے سے نجات کے لیے ’’ردالفساد‘‘ کے ساتھ ملک کی ترقی کے لیے ’’کرپشن سے پاک جماعت‘‘ کی ضرورت ہے، جس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو۔ ’’داغ تو اچھے ہو تے ہیں‘‘ کہہ کر سہانے سپنے دکھانے اور ’’بادشاہ زندہ باد‘‘ کہنے والے سیاسی میڈیا اور سیاسی آشیانے بدلنے والوں سے قوم کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے!!

حصہ