(جواب در جوابِ شکوہ(بنتِ حق

246

پچھلے دو ہفتوں میں ایک کتاب پر بحث پڑھ کر ذہن عجیب الجھن میں گرفتار ہوگیا اور بہت سے سوالات یکے بعد دیگرے شاید مجھ جیسے اور بھی کسی قاری کے ذہن میں اٹھے ہوں۔
سب سے بنیادی بات تو یہ کہ تنقید کام کرنے والے پر ہی ہوتی ہے‘ جو کھلاڑی قوم کا سر فخر بلند کرتے ہیں جب خراب کارکردگی دکھاتے ہیں تو یہی لوگ ان پر گندے انڈے پھینکتے ہیں۔ کسی بھی ناکامی کا سہرا کام کرنے والوں ہی کے سر پر بندھتا ہے کہ یہ پراجیکٹ کیوں ناکام ہوا؟ حالانکہ کام تو کیا گیا مگر مطلوبہ تقاضوں کے مطابق نہیں تھا لہٰذا نتائج وہ نہ آئے۔ جن لوگوں کو نوبل انعام ملتے ہیں ان پر تنقید کی جاتی ہے لیکن بڑے کام کرنے والوں کے ظرف بڑے ہونے چاہییں۔ مولانا مودودیؒ نے جس اخلاص سے دین کے لیے کوششیں کیں اس سے زیادہ کس نے کی ہیں مگر اب تک ان کی تحریروں پر لوگ تنقید کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے نظریاتی متفقین کو بھی منع کر دیا تھا کہ بحثوں میں نہ پڑیں نہ صفائیاں پیش کریں۔ لسانیات کے استاد (اگرچہ وہ خود کو استاد نہیں کہتے مگر ہم انہیں اساتذ الاساتذہ) سمجھتے ہیں‘ وہ لسانیات کے باب میں جتنی سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں یونیورسٹیوں کے شعبۂ ادب اردو کے پروفیسر حضرات بھی اس سے بے نیاز ہیں۔
اب اگر ایک کتاب پر لسانیات کے ایک استاد نے کچھ غلطیوں کی طرف نشاندہی کر دی‘ اگرچہ لہجہ کہیں سخت ہوگیا تھا‘ مگر یہ بات کسی پروفیسر اور دانشور کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کا اسی لب ولہجے میں جواب دے۔ اگر والد کے نام کے ہجے پر بات ہوگئی کہ غلط لکھا گیا ہے تو یہ کہنا کہ ’’آپ نے میرے باپ کی حرمت پر حملہ کیا ہے‘‘ ایک دانش مند فرد کی دانش مندی کے خلاف ہے۔
سماجی جائزے یہی بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر قوتِ برداشت برابر کم ہو رہی ہے‘ من حیث القوم ہم جن نفسیاتی جھٹکوں سے گزر رہے ہیں انہوں نے ہمارے اعصاب شل کر دیے ہیں‘ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ جواب دیتا جارہا ہے‘ تحمل ہمارے درمیان سے رخصت ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کردی جس نے ہمیں ردعمل بنا کر چھوڑ دیا ہے۔
کسی تقریب سے آپ گھر واپس آئیں تو اس تقریب کا اہلِ خانہ مختلف انداز سے جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ کوئی کھانے کے مینو کو زیر بحث لاتا ہے‘ کوئی لوگوں کے رویوں کو‘ کوئی لباسوں پر گفتگو کررہا ہوتا ہے تو کوئی تقریب کے انتظامات پر۔ یہ ذہنی رویے ہیں اور شاید یہی اس کائنات کی رنگا رنگی ہے۔ ایک کتاب کی ظاہری ہیئت پر بھی بات ہوگی‘ اس کے مضامین پر بھی‘ اس کے کاغذ پر بھی‘ اس کی چھپائی پر بھی‘ اس کی قیمت پر بھی‘ اس کے سائز پر بھی۔ کوئی کہے کہ اتنے صفحات کی کتاب کی قیمت اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تھی تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ کتاب کے نفسِ مضمون پر بات کریں‘ قیمت پر بات کرنا چھوٹی سطح کے ذہن کی علامت ہے۔ ایک دانشور اور پروفیسر کی کتاب کی اگر لغت کے حساب سے اصلاح کی جارہی ہے تو میرے خیال میں یہ ایک قومی خدمت ہے۔ ہمیں شکر گزار ہونا چاہیے اس خدمت کا اور وہ فرد جس نے اپنا قیمتی وقت نکال کر کتاب کو لفظاً لفظاً پڑھا اور آئندہ کی بہتری کے لیے مشورے دیے۔ آپ کہیں کہ یہ ذاتی خط میں دیے جاتے‘ تشہیر کیوں کی گئی تو میرا خیال ہے کہ اگر کتاب چھپنی سے قبل یہ مسودہ کسی ماہر لسانیت کو دیا جائے تو وہ مسودے پر قلم چلائے گا لیکن جب ایک کتاب کی اشاعت ہوچکی ہے تو وہ تو عوام میں پیش کر دی گئی‘ اب وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ پبلک پراپرٹی ہے۔ اللہ معاف فرمائے ہمارے سماج میں تو پبلک اپنی پراپرٹی کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کرتی ہے البتہ کتاب کے ساتھ تو انتہائی علمی سلوک کیا گیا اس کو لغت کے ترازو میں تولا گیا‘ یہ تو معاشرتی دانش کی انتہائی اعلیٰ دلیل تھی‘ اس کو یوں متنازع بنانا کہ آئندہ اس کام کو کرنے کی کوئی جرأت ہی نہ کرسکے۔ میرے خیال میں مناسب نہیں۔
اردو زبان سے پیار کرنے والے‘ اس کے لیے اتنے حساس ہونے والے‘ زبان و بیان کی غلطیوں پر برہم ہونے والے اب ہم میں دو چار ہی بچے ہیں‘ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے‘ جو زبانِ حال و قال سے ہم سے شکوہ کر رہے ہیں کہ:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

حصہ