جسٹس شوکت صدیقی اور سوشل میڈیا

358

میرا نام سلمان علی ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔
ChallengeAcceptedکے عنوان سے ٹوئیٹر اور فیس بک پر جاری اس ہیش ٹیگ کے ساتھ بے شمار پوسٹیں یقیناً آپ کی بھی نظر سے گزری ہونگی اور آپ نے بھی اپنا حصہ ملالیا ہوگا۔اُمید ہیسماجی میڈیا کی بدولت یہ سلسلہ پاکستان سے شروع ہو کر عالم اسلام میں جلدایک مقبو ل ٹرینڈ بن جائے گا۔کچھ مزید آگے بڑھنے سے قبل یہ بات جان لیں کہ ’’ عشق‘‘ نام ہی ایسی کیفیت کا ہے جس کا تعلق انسانی جذبات سے ہے اس میں عقل،اعتدال پسندی ،معاملہ فہمی ،جیسی اصطلاحات کا عملاً کوئی لینا دینا تاریخ سے ثابت نہیں ۔اس میں انسان بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے، کوئی جان نچھاور کر دیتاہے غرض کہ عقلی طور ہر جن کی قربانی نہیں دی جانی چاہیے ہم جانتے ہیں کہ انسان کسی عشق میں مبتلا ہو کر وہ سب کچھ کر جاتا ہے ۔ یہ عشق کسی کو کتابوں سے ہو جائے تو اُس کی کیفیت آپ الگ ہی دیکھیں گے، کسی کو ملک سے ہوجائے تو آپ اُس کا معاملہ الگ ہی دیکھیں گے کوئی کسی فرہاد کسی شیریں کے عشق میں گرفتار ہو جائے تو داستان بن جاتی ہے ۔عشق نا پوچھے ذات، تیرے عشق نچایا، عشق میں پاگل ہو جانا جیسے محاورے و استعارے جنم لیتے ہیں جن کے پیچھے کئی کہانیاں جڑی ہوتی ہیں۔چند مختصر سی باتیں ابتداء میں بتانے کا مقصد یہ تھا کہ عشق میں صرف جذبات ہی اول تا آخر انسانی اعمال کے لیے کارفرما ہوتے ہیں ۔چونکہ ہمارا موضوع عشق مصطفیٰ ﷺ سے متعلق ہے اس لیے جذبات کا یہاں بھی کارفرما ہونا ناگزیر فطری عمل ہوگا جس کا اظہار عشاق مصطفیٰ ﷺ نے اپنی اپنی بساط کے مطابق سماجی میڈیا پر کیا ہے ۔
معاملہ یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی پسپائی کے بعد سے مغرب نے مسلمانوں کے ایمانی مراکز جن میں قرآن مجید کی حرمت ، نبی پاک ﷺ سے محبت پر مستقل ضربیں لگانے کی ناپاک کوشش کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اظہار آزادی رائے ، سیکولر ازم اور لبرل ازم جیسی اصطلاحات کا سہارا لے کر ان اقدامات کو مختلف انداز سے وقتاً فوقتاً کیا جا تا رہا ہے ۔کبھی پاکستان میں ناموس رسالت ﷺ کے قانون میں تبدیلی تو کبھی اہانت رسول ﷺ ( کی کوشش)کے واقعات کا وقفوں وقفوں سے جاری ہونا اتفاقی حادثات میں سے قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سماجی میڈیا چونکہ باہمی رابطوں کا ایک موثر ذریعہ بنا ہواہے ، ایک آئی ڈی پر پانچ ہزار جبکہ پیج پر کروڑوں لائکس کی صورت آپ کا پیغام ، تحریر، تصویر اس حد تک فروغ پاتی ہے کہ آپ اُس پر عوام کے تاثرات اچھے ، برے، سخت، گر م ، نرم ، سب جان لیتے ہیں۔سماجی میڈیا پر ایسے ہی چند پیجز پر جب نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس سے متعلق گستاخانہ مواد کی اشاعت ہوئی جسے نام نہاد روشن ،آزاد خیال ، لبرل طبقات نے فروغ دیا تو عقدہ کھلا کہ یہسب معاملہ سوچی سمجھی سازش کی مانند ہے ، جس کا فی الفور رد عمل سامنے آیا۔فیس بک انتظامیہ کی ملی بھگت بھی واضح طور پر محسوس ہوئی جب شکایات کے باوجود گستاخانہ مواد نہیں ہٹا یا گیا۔واضح رہے کہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا جامع پہنے ہوئے فیس بک انتظامیہ آپ کی دل آزاری پر مبنی کسی پوسٹ کی شکایت پر اُسے وہاں سے ہٹانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے ، پیج ، ایڈمن کو بلاک بھی کر دیتی ہے ۔اس تازہ مثال گذشتہ سال برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد پاکستان میں فیس بک کی جانب سے بند کیے جانے والے اکاؤنٹس کی ہے ۔گستاخانہ مواد کی اشاعت میں ملوث لوگوں کی اچانک گمشدگی اور واپسی والے واقعات سے قطع نظر ہمارا آج کا موضوع اسلام آباد ہائی کورٹ میں گستاخانہ مواد کی اشاعت کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کے موقع پر جسٹس شوکت عزیز کے ایمان افروزریمارکس پر ہے ۔سماعت کے دوران ان ریمارکس پر مجموعی طور پر دنیا بھر میں اسلام اور پاکستانی محب وطن مسلمانوں نے بے حد سراہا ہے ۔جہاں ایک طرف جسٹس صاحب کے ریمارکس پر ایمانی جذبات کے ساتھ پذیرائی اور حمایت سوشل میڈیا پر فروغ پاتی نظر آئی دوسری جانبunitedagainstblasphemy بھی ٹوئٹر ٹاپ ٹرینڈ میں نظر آیاجن میں درود پاک اور نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں لوگوں نے گلہائے عقیدت و محبت پیش کرکے ایمانی جذبوں کو ترو تازہ کیا کئی عشاق کو ابھارا گیا کہ وہ بھی اس ہیش ٹیگ کا استعمال کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں کیونکہ ٹرینڈ میں آنے کے نتیجے میں وہ معاملہ عالمی سطح پر روشناس ہو جاتا ہے ۔
قارئین کی معلومات اور کچھ عملی حوالے سے کچھ منتخب پوسٹیں اس تحریرکا حصہ بنائی گئی ہیں ، امید ہے کہ ایمانی جذبوں میں اضافے کے ساتھ عمل میں بھی اضافے کا موجب بنیں گی۔
صہیب جمال نے نہایت خوبصورت انداز سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کے ریمارکس کے منتخب حصہ کو اپنی وا ل پر موضوع بحث بنایا ہے ’’سوشل میڈیا پر توہینِ رسالتﷺکیخلاف مولانا عبدالعزیز صاحب کی جانب سے دائر کردہ کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت۔سوشل میڈیا پر کائنات کی سب سے اعلیٰ و افضل ہستیوں کی گستاخیاں کی جارہی ہے، قرآن کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔میں آج ان گستاخوں کو دہشتگرد قرار دیتا ہوں، اس سے بڑی اور دہشتگردی کیا ہوگی؟ تکنیکی امور میں نہیں پڑنا۔پورا سوشل میڈیا بھی بند کرنا پڑا تو کردوں گا۔ بھینسے، گینڈے، کتے بلے سب بلاک ہونے چاہئیں۔۔۔۔اگر انہیں بند نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کردیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے آج 7مارچ کی سماعت کے دوران ریماکس!۔سلام جسٹس شوکت صدیقی!!‘‘
پاکستان کی ایک معروف دینی و علمی درسگاہ جامعۃالرشید کے استاد مفتی رشید احمد خورشید جو کہ سماجی میڈیا پر خاصے متحرک ہیں اپنی وال پر جسٹس شوکت عزیز کی عوامی حمایت میں رقم طراز ہیں کہ ’’سوشل میڈیا پر مذہب اور مقدس شخصیات کے خلاف بولنے اور لکھنے والے عدالت کی رو سے دہشت گرد قرار۔ الحمدللہ ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی شروع ہوچکا ہے۔قوم اس آپریشن میں جناب جسٹس شوکت عزیز صاحب کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انہیں سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔‘‘عاصمہ جہانگیرکے ریمارکس پر کہ ’’عدالت میں جج نہیں مولوی بیٹھا ہے، عدالت کو مسجد بنایا ہوا ہے، جسے اِمام مسجد ہونا چاہیے، وہ اعلیٰ عدلیہ کا جج بن جاتا ہے۔‘‘ شمس الدین امجد نے عاصمہ جہانگیر کے بیان کو سماجی میڈیا پر حمایتی فروغ دینے والے حضرات کے نام بھر پور انداز سے جواب دیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’کوئی عاصمہ جہانگیر کو بتائے کہ مسلم معاشرے میں عدالت مسجد میں ہی لگتی تھی اور قاضی ” مولوی ” ہی ہوتا تھا۔ کیا زمانہ آیا ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں عدالت کو مسجد یا مسجد کو عدالت بنانے پر اعتراض ہو رہا ہے۔ یہ ہے لبرلزم کی اصلیت، جس میں اسلامی شعائر سے اتنی نفرت و حقارت بھری ہوئی ہے۔ یہ ہے سیکولرزم کی اصلیت، جس میں نعوذ باللہ توہین رسالت روا ہے، اور اس کے خلاف کارروائی ناپسندیدہ۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ سیکولرزم، لبرلزم اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔ کس قدر دیدہ دلیری سے جھوٹ بولا جاتا ہے، مگر انھی کی صفوں میں سے کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی یہ اصلیت سامنے لے آتا ہے۔ وہ اپنی چالیں چلتے ہیں اور اللہ اپنی چال چلتا ہے۔ ویسے عاصمہ صاحبہ نے توہین آمیز مواد پر ایک لفظ نہیں کہا، مگر عدالت پر حسب عادت چڑھ دوڑی ہیں۔ سیکولرزم کی یہی اصلیت یہی معراج ہے۔اسلام آباد کے ایک ٹی وی چینل کے میزبان و کالم نگار آصف محمودایڈووکیٹ نے جو سوشل میڈیا پر بھی خاصے متحرک رہتے ہیں ’’ توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ و سلم کیوں ہو رہی ہے؟ ‘‘ کے عنوان سے اس سازش کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایک مفصل و مدلل تحریر پوسٹ کی جسے سوشل میڈیا پر خاصا فروغ حاصل ہوا۔’’کبھی آپ نے غور فرمایا یہ توہین رسالت کیوں ہو رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بھینسے ، سانڈ ، کتے اور بِّلے مسلسل توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ اور کیا وجہ ہے کہ عمائدین حکومت جو نواز شریف کی توہین پر آگ بگولا ہو جاتے ہیں یہاں سکون سے کندھے اچکا کر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی ہی نہیں کہ ان بھینسوں، سانڈوں، کتوں اور بلوں کی بکواس کو بند کر سکیں؟ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے کہ جب بے بسی کے عالم میں علمائے کرام عدالت سے رجوع کرتے ہیں اور صورت حال دیکھ کر ہائی کورٹ کا جسٹس آرڈر لکھواتے ہوئے رو پڑتا ہے اور کہتا ہے ان سانڈوں کتوں بلوں کو روکنے ورنہ سوشل میڈیا بند کرنا پڑا تو کر دیں گے تو سیکولر اہل دانش جج صاحب کو سینگوں پر لے لیتے ہیں اور ان پر فقرے اچھالنا شروع کر دیے جاتے ہیں؟ میرے نتائج فکر کے مطابق یہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ سیکولر انتہا پسندوں کی ایک فکری واردات ہے. واردات کیا ہے؟۔۔۔ میں عرض کر دیتا ہوں۔واردات یہ ہے کہ توہین رسالت اس تواتر سے کرو کہ معاشرہ بے بس ہو کر اسے معمول کی ایک کارروائی سمجھ کر خاموش ہو جائے. یہ سیکولرازم کا شارٹ کٹ ہے. جب معاشرہ توہین رسالت پر حساس نہ رہا تو بس کھیل ختم. پھر اس معاشرے میں جو مرضی کرو۔چنانچہ اب یہ گھناونا کھیل شروع ہو چکا ہے۔بھینسے ،کتے ،بلے سانڈ سب متحرک ہیں، کوئی انہیں روکنے والا نہیں، اسلام آباد جمعیت علمائے اسلام کے بزرگان کے ایک وفد سے برادرم سبوخ سید کے حجرے میں ملاقات ہوئی وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس ناپاک مہم کو روکنے کے لیے کیا کچھ کیا جا سکتا تھا۔ یہی بزرگ اس معاملے کو لے کر عدالت گئے. جج صاحب بھری عدالت میں رو پڑے. انہوں نے کہا حکومت اس سلسلے کو روک نہیں سکتی تو سوشل میڈیا بند کر دیں گے. اب ان پر یلغار ہو گی. پہلے حکومت آئے گی۔ کہے گی ہم بے بس ہیں کچھ نہیں کر سکتے. پھر سیکولر اہل دانش سامنے آئیں گے۔وہسب با جماعت بتائیں گے کہ ہم مسلمان کتنے جاہل ہیں اور ہمیں یہ تک نہیں پتا کہ پاکستان کے پاس ان پیجز کو روکنے کی کوئی ٹیکنالوجی نہیں. جج صاحب کو سینگوں پر لیا جائے گا، کہا جائے گا شوکت عزیز صدیقی تو جماعت اسلامی کے ہیں، یہ تو مولوی ہیں، انہیں تو امام مسجد ہونا چاہیے، یہ تو جدید ٹیکنالوجی سے لاعلم ہیں، یہ تو ہمیں دنیا سے کاٹنا چاہتے ہیں، بات بہت سیدھی ہے. معاشرے کو فیصلہ کرنا ہے کیا نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں توہین ایک معمول کی کارروائی سمجھی جائے یا ان کی شان اقدس کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی جائے؟ مجھے تو فیصلہ کرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں سوچنا. میری رائے تو بہت دوٹوک اور بہت واضح ہے. اگر حکومت آ کر کہتی ہے کہ اس کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں اور وہ کتوں سانڈوں اور بھینسوں پر پابندی لگانے کی ٹیکنالوجی سے محروم ہے اور عدالت سوشل میڈیا پر پابندی عائد کر دیتی ہے تو میں اس فیصلے کو خوشدلی سے تسلیم کروں گا. تسلیم ہی نہیں کروں گا تحسین بھی کروں گا۔۔۔. بلکہ صرف تحسین ہی نہیں کروں گا اس کا مطالبہ بھی کروں گا۔بلاشبہ یہ سوشل میڈیا ایک نعمت ہے. بلاشبہ اس کے بغیر زندگی اذیت ناک ہو گی لیکن اگر اس سوشل میڈیا کی قیمت یہ ہے کہ ہم آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں تمہیں برداشت کر لیں تو یہ قیمت ادا نہیں کی جا سکتی. سوشل میڈیا تو کیا سب کچھ آقا پر قربان۔اسی ضمن میں جب معزز جسٹس شوکت صدیقی پر طنزیہ جملوں کا سلسلہ شروع ہوا تو فہد عبد الہادی نے بھی عاصمہ جہانگیر کے بیان کی حمایت کرنے والے لبرل طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’یعنی کے عاصمہ جہانگیر کے نزدیک اہانتِ رسول صرف امام مسجد کا مسئلہ ہے۔خاتون !بات سنیئے یہ مسئلہ امت کے ہر جاگتے دل کا مسئلہ ہے، گناہ گار، بدکار، سیاہ کار مسلمان بھی اپنا آخری سہارا کالی کملی والے کو سمجھتا ہے۔۔۔. آپ لاکھ بھینسے پال لیں ذلت ورُسوائی آپکا مقدر تھی، ہے اور رہے گی۔‘‘سماجی میڈیا پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے لبرل و سیکولر طبقات کو کوئی ٹھوس مواد نہیں مل سکا تو جسٹس شوکت صدیقی کی کردار کشی کرتے ہوئے کئی پوسٹیں مختلف ناموں سے بھی پھیلائی گئیں جن میں اُن پر عہدے کا غلط استعمال اور کرپشن کے بھونڈے الزامات لگائے گئے ہیں۔ہائی کورٹ کے ایک سینئر وکیل سیف الدین اپنی فیس بک وال پر ’’انتہائی اہم توجہ ‘‘کے عنوان سے ان سارے خدشات پر ایک تحریر لکھی ہے جسے خاصی پذیرائی ملی تحریر یوں ہے کہ ’’اسلام آباد ھائی کورٹ میں حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق انتہائی اہم مقدمہ جاری ہے ۔کچھ بد بختوں کو اس سے بڑی تکلیف ہو رہی ہے ۔وہ حکومت کے زریعے یا سپریم کورٹ کے ذریعے اس کارروائی کو رکوانے کی کوشش کریں گے۔معززجج صاحب کو بدنام کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں ۔اس موقع پر ہم نے دینی حمیت کا ثبوت نہ دیا اور اس فیصلہ کی حفاظت نہ کی تو کہیں سپریم کورٹ سے کسی نام نہاد قانونی نکتہ کی آڑ میں اس کارروائی کو رُکوانے کی کوشش کریں گے ، جیسے سندھ میں شراب خانوں پر پابندی کے پہلے فیصلہ کو سپریم کورٹ نے معطل کرکے شراب خانہ دوبارہ کھلوادئے تھے۔اس موقع پر کم از کم اپنی وال پر ایک جملہ حضور ﷺکی ناموس سے محبت کے حوالے ضرور ڈالیں۔۔۔۔ اپنا حصہ ادا کریں۔۔۔تاکہ ایک دباؤ پیداہو۔۔۔سوشل میڈیا کو فضول بحثوں اور جملہ بازیوں کے لئے توہم ہمیشہ استعمال کرتے ہیں اس مقدس کام کے لئے بھی کچھ وقت نکالیں۔ذُہیب اکرم ایک فعال سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں جنہوں نے اس عمل کے پیچھے ایک بڑے وژن کا نقشہ کھینچا ہے ’’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے شوکت صدیقی کے منہ سے یہ ناموس کی حفاظت والی بات کہلائی ہی اس لیے ہو کہ اس کے رد عمل میں لبرل کیا کہیں ، اس کے ردعمل میں اعتدال جیسی بکواس کرنے والیے لبرلوں کی طرف مائل بکواسئے کیا کہیں۔ اس طرح دودھ کا دودھ پانی کا پانی مزید چھَن جائے۔۔ باقی رہے نام اللہ کا۔۔ اس کی حکمتیں وہی جانے شاید کچھ بڑا ہونا ہے آنے والے کچھ سالوں اسی لیے اللہ کیمپ مختص کر رہا ہے ۔واللہ خیر الماکرین‘‘۔ڈاکٹر فیاض عالم نے بھی اس حوالے سے جذبات سے ہٹ کر ایسے عملی اقدامات پر بہت جامع سوالات اُٹھائے ہیں ۔ ان سوالات کی روشنی میں ملک کے حکمران، قانون سازوں، تمام مذہبی جماعتوں کو بلکہ ہر مسلمان کواپنی اپنی دانست میں انجام دینا ہوگا ۔’’توہین آمیز فیس بک صفحات سے متعلق کیس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اب تک جو ریمارکس دیئے ہیں،جو رویہ اختیار کیا ہے اور جو احکامات جاری کئے ہیں وہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ ایک غیرت مند مسلمان ہیں اور قابل ستائش ہیں۔کچھ باتوں پر ہم سب کو ضرور غور کرنا چاہیئے۔
1۔ توہین آمیز صفحات کا معاملہ ایک سال سے چل رہا ہے۔ اس حوالے سے عدالت سے کس نے رجوع کیا؟ کسی سیاسی یا مذہبی شخصیت نے یا کسی عام آدمی نے؟
2۔ قومی اسمبلی،کسی صوبائی اسمبلی یا سینیٹ میں اس معاملے پر کیا کاروائی کی گئی؟ اور کس نے کیا کوششیں کیں؟
3۔ اس ایشو پر حکومت یا فیس بک انتظامیہ کو دباؤ میں لینے کے لئے کیا جدوجہد کی گئی؟
4۔ سپریم کورٹ یا کسی دوسری عدالت کے کسی جج نے اس اہم ترین معاملے کا سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لیا؟
5۔ اخبارات سے پتہ چل رہا ہے کہ ان منحوس صفحات کو بنانے اور چلانے والے بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں۔ وزارت داخلہ نے ان مبینہ مجرموں کے نام ای سی ایل میں کیوں نہیں ڈالے؟
اب اگر مذہبی یا سیاسی پارٹیاں کچھ احتجاج کر بھی لیں گی تو یہ مجرموں کی واپسی کے لئے کافی نہیں ہوگا، انھیں یہ کام بروقت کرنا چاہیئے تھا؟ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت اول روز سے خود کو لبرل اور سیکولر حکومت منوانے پر تلی ہوئی ہے ورنہ اس معاملے میں اس قدر تاخیری حربوں کا کوئی جواز نہیں تھا۔ یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی ہے کہ پوری دنیا بھی اگر کوشش کرلے تب بھی عشق مصطفی ﷺکو مسلمانوں کے دل سے نہیں نکالا جاسکتا اور سچ یہی ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق مصطفی ﷺنہ ہو وہ دل نہیں ایک قبرستان ہے۔ ہم میں سے ہر ایک فرد کو آئندہ ایسے کسی بھی معاملے پر نہ صرف نظر رکھنی ہوگی بلکہ اپنا عملی کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔ اگر یہ مقدمہ پہلے درج کروادیا جاتا تو مجرم اس طرح فرار نہیں ہوسکتے تھے۔معروف صحافی و سماجی میڈیا پر متحرک فیض اللہ خان نے بھی اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ ’’اگر جسٹس صدیقی نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل حاضر ہے اوپن ٹرائل کرکے انصاف کے تقاضے پورے کیجئے ، انکا پس منظر جماعت اسلامی کا ہے لال مسجد کے وکیل رہے ہیں تو اس جرم پہ توپ کے آگے کھڑا کردیجئے۔ لیکن وہ شخص اگر یہ کہتا ہے کہ توہین آمیز صفحات بند کرکے ملوث خنزیروں کو گرفتار کرو تو یہ بات آئین و قانون کے مطابق ہے۔ لبرل ازم کو بطور مذھب قبول کرنے والے احباب سے گزارش ہے ناموس رسالت کے معاملے پہ آپ ہمیں جاہل کہیں انتہا پسند دقیانوسی یا دہشت گرد۔ بخدا یہ سب الزامات بسروچشم قبول ہیں۔ رہی روشن خیالی تو وہ آپ ہی کو مبارک سلامت رہے ، ہم فاسق فاجر اور سیاہ کاروں کے پلے میں عشق رسول کے دعوے کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس سے محرومی ، ہم خدا سے محرومی سمجھتے ہیں۔ جب تک ریاست میں اسلام نافذ نہیں ہوجاتا ، تب تلک آپ جشن مناتے رہیں۔ بس یہ یاد رہے کہ ” فتح یاب بالآخر اُجالا ہوگا “۔
خرم امتیاز کمپیوٹر سائنس کی فیلڈ سے تعلق رکھتے ہیں اُنہوں نے اپنی وال پر اس معاملے پر یوں اظہار خیال کیا ہے کہ ’’توہین آمیز مواد یا پیجز کی ہرگز ہرگز بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے . اور چند پیجز تو ایسے ہیں کہ انھیں کسی عدالتی حکم کے بغیر ہی فی الفور پاکستان میں بلاک کیا جانا چاہئے، یہ پی ٹی اے جیسے ادارے کے لئے چند منٹوں کا کام ہے.لیکن ہمیں صرف واویلا کرنے اور رونے دھونے سے ایک قدم آگے بڑھنا اور معاملے کے پریکٹیکل حل کی جانب قدم اٹھانا چاہئے . پہلے مرحلے پر اگر یہ فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ توہین/نفرت / اشتعال انگیز مواد پر ہر صورت پابندی عائد کرنی ہے . تو اس پابندی کا اطلاق کیسے ممکن ہو گا. سیدھا سا فارمولا تین مراحل پر مشتمل ہو سکتا ہے۔
1 ۔ مذہبی نمائندوں پر مشتمل ایک ٹیم ترتیب دی جائے گی جس کے ذمے فیصلہ سازی ہو گی کہ کس مٹیریل کو کس کیٹگری میں شمار کرنا ہے۔
2 ۔ دوسرے مرحلے پر پی ٹی ایایسے تمام پیجز کی لسٹ مرتب کرتے ہوئے انکے یو آر ایل کو بلاک کرے گا۔
3 ۔ یہ کام مسلسل جاری رکھنا ہو گا. کیونکہ شر پسند نئی فیک آئی ڈیز اور نئے پیجز بنانے سے باز نہیں رہنے والے۔
مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمیں پہلے مرحلے پر ہی اس عمل کے پریکٹیکل تضادات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے . چند ہی پیجز بلاک ہونے کے بعدہماریرنگ برنگے مسالک ہی اس مقصد کی آڑ میں دیوار بنے نظر آئیں گے. بہت معذرت کیساتھ لکھ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر مسلک کی اپنے تئیں حق گوئی دوسرے مسالک کی نظر میں توہین/اشتعال /گناہ اور کفر کے زمرے میں آتی ہے. چناچہ اگر واقعی اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو مذہب کی ایک یونیفارم ڈیفینیشن ہمیں استعمال کرنا ہو گی، جس کے دائرہ کار سے باہر کی ہر شے پر پابندی ہو (کچھ ایسا ہی نظام متحدہ عرب امارات میں نافظ ہے).اس معاملے میں فیصلہ ساز کمیٹی (کن کن مسالک کے ) کن ارکان پر مشتمل ہو گیاور ان کے پاس متنازعہ مواد کو پرکھنے اور ریجیکٹ کرنے کا کیا کرائٹیریا ہو گا ،وہ برین سٹورمنگ کا متقاضی ہے۔‘‘
فی الحال اس معاملہ میں جائے بغیر کہ سماجی میڈیا کے بے قابو جن کو کیسے قابو کیا جا سکتا ہے ، پی ٹی اے پر پابندی لگنی چاہیے ، افراد کو سزا ملنی چاہیے ، فیس بک پر پابندی لگے ، یا ایسے مواد کوبروقت روکا جائے۔ تکنیکی سہولیات ہیں یا نہیں ان کا احاطہ اگلے مضمون میں کرنے کی کوشش ہوگی البتہ جو کیا جا سکتا ہے اُس کے بارے میں ہمارے دوست احسان کوہاٹی کی خوبصورت پوسٹ سے مضمون کا اختتام کروں گا’’یار غار،صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپوت نے صرف ایک بار چوہدری نثار کو پیشی کا حکم دیا۔بھینسے کے لئے نتھ کی تلاش شروع ہو گئی۔روشنی کے نام پر عریاں تاریکیوں کے لئے بھی شلوار نکال لی گئی اور اس بدقماش موچی کے پھٹے جوتے جیسے دریدہ دہن کو ٹانکے لگانے کے لئے پکی ڈوری بھی مل گئی۔فیس بک پر روشنی،موچی اور بھینسے کے خلاف پرچہ کٹ گیا آج سائبر کرائم کی شکایات کے لئے دیا گیا نمبر ڈائل کیا تو کال بھی وصول کی گئی اور بتایا گیا کہ فیس بک پر کہیں بھی شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی دیکھیں تو اس کے اسکرین شاٹ بنا کر ڈائریکٹر سائبر کرائمز کو ای میل کر دیں۔ قادیانیوں کے علاوہ تمام انسان دوست خواہ وہ کسی بھی مذہب مسلک سے ہوں وہ اس ای میل پر رابطہ کر سکتے ہیں۔helpdesk@nr3c.gov.pkفون نمبر بھی نوٹ کر لیں-9225325. 051۔0800-9106384۔آخر میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو سلام عقیدت اور دعا کہ اللہ تعالٰی شان رسالت میں گستاخی پر انکے اضطراب کو آخرت میں جنت کے سکون سے بدلے‘‘

حصہ