(برصغیر میں السام کے احٰاء اور آزادی کی تحریکیں(نجیب ایوبی

229

23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک (جو اب مینارِ پاکستان کہلاتا ہے) میں صبح سویرے ہی سے قافلوں کی آمد جاری تھی۔ لوگ جوق در جوق شاہی مسجد کے سامنے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ فیصلہ کن اعلان سننے کے منتظر مسلمان منٹو پارک میں موجود تھے اور اپنے عظیم قائدین کی جانب سے اعلانات اور احکامات کے منتظر تھے۔
مگر اجلاس سے چار پانچ دن قبل لاہور کی سیاسی فضا بہت مکدر ہوچکی تھی، اور کانگریس اور خاکسار تحریک کی جانب سے اس جلسے میں گڑبڑ کی اطلا عات بھی گردش میں تھیں، جس کا پس منظر کچھ اس طرح تھا کہ
عین اُس وقت جب مسلم لیگ کا اجلاس ہونے میں چار دن باقی رہ گئے تھے، لاہور میں علامہ عنایت اللہ خاں مشرقی کی خاکسار تحریک نے اپنی جماعت پر عائد حکومتی پابندی توڑتے ہوئے شہر میں وسیع پیمانے پر ایک عسکری پریڈ کا اہتمام کیا۔ جو خاکسار اس میں شریک تھے کہنے کو تو وہ غیر مسلح تھے مگر ان تمام مظاہرین کے پاس ان کا نشان بیلچہ موجود تھا جو مظاہرین اپنے ساتھ لازمی طور پر رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سکھ کرپان کو اپنے ساتھ مذہبی طور پر رکھتے ہیں تو مسلمان بھی بیلچے کو علامتی طور پر اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ ان بیلچہ بردار مظاہرین کو روکنے کے لیے پولیس نے ان پر براہِ راست گولیاں چلا دیں۔ 35 خاکسار اس ہنگامے میں شہید ہوئے۔
یہ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ اس کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی پھیل گئی۔ صوبہ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی جو مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی، لہٰذا اس بات کا امکان تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار ان شہادتوں کا غصہ مسلم لیگ پر اتاریں اور اجلاس نہ ہونے دیں، یا اس موقع پر کوئی ہنگامہ برپا کریں۔
22 مارچ اجلاس کا پہلا دن تھا۔ اجلاس شروع ہوا تو قائداعظم نے اس صورت حال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا اور انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے، یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھرپور ہوگا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب ایک ہی راستہ موجود ہے کہ ان دونوں قوموں کی علیحدہ علیحدہ مملکتیں ہوں۔
اجلاس کے دوسرے دن 23 مارچ کو قائداعظم کی دی ہوئی گائیڈ لائنز پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ
*اُس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ نہ تو قابلِ عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جداگانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔
*وہ علاقے جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں، جن میں شامل یونٹوں کو خودمختاری اور حاکمیتِ اعلیٰ حاصل ہو۔
مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب، سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔ یہ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔
قراردادِ لاہور کے ابتدائی مرحلے میں کچھ سقم باقی رہ گئے تھے جن کو بعد میں غور و خوص کے بعد دور کرلیا گیا۔
اپریل 1941ء میں مدراس میں ہونے والے مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ لاہور کو آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اُس وقت بھی اُن علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی جا سکی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔
پاکستان بطور آزاد ریاست کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل 1946ء کو دہلی میں منعقد ہونے والے تین روزہ کنونشن میں کی گئی، جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چودھری خلیق الزماں اور ابوالحسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قرارداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کیے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی:
شمال مشرق میں بنگال اور آسام، اور شمال مغرب میں صوبہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان۔
اسی ترمیم شدہ قرارداد میں دو مملکتوں (ہندو اور مسلم) کا ذکر حذف کردیا گیا، کیونکہ اب مسلم لیگ کا مطالبہ مسلم ملک کے قیام کے لیے تھا جو قراردادِ لاہور میں بہت واضح طور پر تھا۔ اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔
1940ء میں اس قرارداد کے سامنے آجانے سے کانگریسی حلقوں میں کھلبلی مچ چکی تھی۔ ہندو اخبارات نے اس پر ایک طوفان کھڑا کردیا تھا۔ مسلم لیگ بھی اپنے واضح مؤقف کے ساتھ میدان میں موجود تھی۔ اس قرارداد کی پشت پر مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمان رہنما یکسو ہوکر ساتھ کھڑے تھے۔
قرارداد کا متن اس طرح تھا:
’’اس ملک میں کوئی دستوری خاکہ اُس وقت تک قابلِ علم نہیں ہوگا جب تک وہ مندرجہ ذیل اصولوں پر مرتب نہ ہو:
یعنی جغرافیائی اعتبار سے متصلہ علاقے الگ خطے بنادیئے جائیں
اور جو علاقائی ترامیم ضروری سمجھی جائیں، کرلی جائیں تاکہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں کے اندر مسلمانوں کو ازروئے آبادی جو اکثریت حاصل ہے، وہ یکجا ہوکر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جن کے اجزائے ترکیبی خود مختار اور مقتدر ہوں۔‘‘
اس قرارداد کا صاف صاف مطلب تھا کہ تمام مسائل کا واحد حل برصغیر کی تقسیم ہے۔ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کے لیے آزاد مسلم ریاست کا تصور اس قدر خوش آئند تھا کہ اس کا اندازہ ان کے فوری جوش و خروش اور جذبات سے لگایا جاسکتا تھا۔
’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘، ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان‘‘
یہ وہ نعرے تھے جو آزادی کی اس جدوجہد میں ہر بچے، بوڑھے اور جوان کی زبانوں پر تھے۔
1942ء کے آتے آتے جنگِ عظیم دوم کا ابتدائی معرکہ بھی عروج پر آچکا تھا۔ سرکارِ برطانیہ کو شکستوں کا سامنا تھا۔ جاپانی افواج برما میں داخل ہوچکی تھیں۔ سرکارِ برطانیہ نے اپنی فوج کو برما منتقل کرنے کا پروگرام بنایا۔ مسلمان اور ہندو بٹالینز کی بہت بڑی تعداد کو برما کے محاذ پر زبردستی بھیجا جانے لگا۔ ان خطرناک حالات میں سرکارِ برطانیہ نے ہندوستانی عوام کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے سر اسٹفرڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا، جو کچھ تجاویز لے کر یہاں آیا۔ اس کی ان تجویز کو’’کرپس تجاویز‘‘ کا نام دیا گیا۔
ان تجاویز میں یقین دلایا گیا تھا کہ جنگ ختم ہوتے ہی ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی۔
اور وفاقی طرز کا نیا آئین متعارف کروایا جائے گا جس میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔
اور ساتھ ہی ساتھ صوبوں کو اختیار ہوگا کہ وہ چاہیں تو الگ وفاق بنا سکتے ہیں (تاہم اس الگ وفاق کی تشریح نہیں کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ سرکار ملک کی مختلف جماعتوں کو امور سلطنت میں شامل کرنے پر راضی ہے۔
کانگریس نے کرپس تجاویز کی بھرپور مخالفت کی۔ کیونکہ ان تجاویز سے اس بات کا اظہار ہورہا تھا کہ آنے والے دنوں میں مسلم آبادی کو بنیاد بناکر مسلم آزاد مملکت قائم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے لیے یہ بات بھی ناقابلِ برداشت تھی کہ مختلف جماعتوں کو امورِ مملکت میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
کانگریس نے اس بنیاد پر ان تجاویز کو رد کیا، جبکہ مسلم لیگ نے بھی کچھ شقوں پر ابہام ہونے کی بنا پر اس کو پسند نہیں کیا۔ مسلم لیگ کی خواہش تھی کہ گول مول بات کرنے کے بجائے واضح طور پر اعلان کیا جائے۔
کانگریس نے جوابی حکمت عملی کے طور پر سرکارِ برطانیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ حکومت کو دباؤ میں لیا جاسکے اور باور کروایا جاسکے کہ ہندوستان میں کانگریس کو ہی سیاسی برتری اور بالادستی حاصل ہے۔ یہ تحریک غیر آئینی، غیر جمہوری بنیادوں پر استوار کی گئی تھی۔ مسلح دستے بنائے گئے جو ریل کی پٹریاں اکھاڑتے، مال گاڑیوں کو آگ لگاتے اور سرکاری املاک کو جلا دیتے۔۔۔ اور اسی طرح کی دیگر باغیانہ کارروائیاں شروع کردی گئیں۔ حکومت نے اس تحریک کو سختی کے ساتھ کچل دیا اور باغی رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔ اس تحریک کو مسلم لیگ نے مکمل طور پر مسترد کردیا اور کسی بھی قسم کے غیر جمہوری و غیر آئینی اقدام کی مخالفت کی۔
ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی ناکامی سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مسلمانوں کو شامل کیے بغیر کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتی۔
1944ء میں گاندھی جی جیل سے رہا ہوئے تو مجبوراً ان کو مسلم لیگ کی طاقت کو تسلیم کرنا پڑا، اور انہوں نے قائداعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، جو قائداعظم نے منظور کرلی اور یوں مذاکرات کا آغاز ہوا۔
قائداعظم نے ان ملاقاتوں سے انکار نہیں کیا، مگر وہ گاندھی جی کی مکار طبیعت سے بخوبی واقف تھے۔ قائداعظم، گاندھی جی کو قائل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرلیں۔ مگر گاندھی جی اس پر کبھی راضی نہ ہوئے۔ اور اس طرح گاندھی جی کے ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔
(جاری ہے )

حصہ