مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادچ ٹپک رہے ہیں(آسیہ عمران پرنسپل جامعتہ المحصنات کراچی)

267

 کچھ دنوں سے اس میں عجیب سا وحشی پن محسوس ہوتا تھا ۔وہ دانت کچکچانے لگتا جیسے اندرون مین کسی جذبہ کی تسکین چاہتا ہو اور وہ ہو نہ پا رہا ہو۔ننھی فارحہ کو بھی اب وہ ایسی شدید مار مارتا کہ وہ روتی نڈھال سی ہوجاتی کبھی اتنے تیز دانت گاڑ تا کہ خون ہی نکل آتا۔میں پریشان تھی بے حد پریشان۔استفسارپر بھی کوئی خاص بات سامنے نہ آئی۔۔۔بہت سرزنش بھی کی مگر بے سود۔۔۔ان ہی دنوں ایک واقعے نے میری چولیں تک ہلا ڈالیں۔ہوا یوں کہ عصر کی ڈھلتی چھاؤں میں میں کرسی ڈالے صحن میں بیٹھی تھی کہ قریبی درخت پر لگے چڑیا کے گھونسلے سے اڑنے کی کوشش کرتا ننھا بچہ نیچے گر پڑا۔وہ میرے پاس بیٹھا پتھروں کے ٹکڑوں سے کھیل رہا تھا ایک پتھر اٹھائے بھاگتا ہوا گیا اور اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھتی وہ اس چڑیا کو کچل چکا تھا۔ میں نے انتہائی غصے میں اسے ایک تھپڑ دے مارا مگر یہ کیا،وہ ٹس سے مس تک نہ ہوا وہ اس کچلے وجود کو دیکھ کر محویت کے ساتھ مسکرا رہا تھا جیسے لذت محسوس کر رہا ہو پھر اس نے میری طرف دیکھا اس کی نظروں میں وحشت و بر بریت کے سائے تھے ۔میں اندر سے کانپ گئی۔اس کے بعد ہفتہ بھر میری طبیعت انتہائی خراب رہی سکون آور دواؤں کے زیر اثر میں زیادہ تر سوئی رہی۔گھر میں کیا ہورہا ہے ،کون آ اور کون جا رہا ہے کچھ خبر نہ تھی۔ہوش آتا تو لگتا جیسے بہت کچھ چھن چکا ہو۔ننھی وحشت زدہ زدہ آنکھیں ہر سو پھیلتی نظر آئیں۔مایوسی اور اندھیرے کی انتہاؤں میں رب کریم کو پکارا تو کچھ آسرا ہوا۔پھر وہی دن بھر کی روٹین تھی اور میں مگر وہ آنکھیں میرے سامنے سے نہ ہٹیں۔وہ سامنے نظر آتا تو حالت دگرگوں ہونے لگتی وہ بھی زیادہ تر اپنی سر گرمیوں میں مگن رہتا۔اسکول سے آتے ہی دو تین گھنٹے تک کمپیوٹر پر مصروف رہتا بمشکل قرآن پڑھانے کے لئے بھیجتی مگر وہ اکثر نظر بچا کر دوبارہ گھس جاتا۔میں بچوں کو باہر بھیجنے سے بہتر سمجھتی تھی کہ وہ گھر میں مصروف رہیں۔مگر اس دن سے میں کوئی سرا تلاش کرنے لگی کہیں کوئی چیز غلط اور بہت غلط ہورہی تھی۔
ان ہی سوچوں میں مگن سر پکڑے بیٹھی تھی کہ پڑوس کی مرغی کک کک کرتی ننھے بچوں کی فوج کے ساتھ کھلے دروازے سے صحن میں بنی کیاری کی طرف بڑھہ میرا دماغ کسی انجانے خطرے کے احساس سے جھنجھنا اٹھااور وہی ہوا ،اسی لمحہ مرغی نے بھی خطرہ بھانپ لیا تھا کک کک کرتی بچوں کو اپنے پروں میں سمیٹنے لگی ۔وہ ایک درخت کی آڑ میں گھات لگائے مرغی کے بچے کو پکڑنے کی کوشش میں تھا میں ایک جھٹکے سے اٹھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی کمرے میں لے آئی۔وہ انتہائی غصے میں بے قابو ہوئے پوچھ رہا تھا امی آپ مجھے اندر کیو ں لائیں،مجھے مرغی کے بچے کو پکڑنا تھا۔اس لمحے اس کی آنکھوں میں کسی محرومی کی اداسی ابھر آئی تھی۔اب میں نے اس کے معمولات پر تفصیلی نظر رکھنے کی ٹھانی۔اسکول گئی اس کے دوستوں سے ملی،اساتذہ سے بات کی مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آتا تھا۔کھانا بناتے ہوئے بھی وہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ کمپیوٹر کی طرف خیال گیا سر پر ہاتھ مار کر اپنی عقل کا ماتم کرتے اس کے کمرے کی راہ لی۔اسکرین پر پہلی نظر کیا پڑی میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔اب میں تہہ تک پہنچ گئی تھی۔وہ ایک گیم میں ننھی مرغی کے بچوں پر بمباری کر رہا تھا۔۔۔پتھروں کی بمباری! مرغی کے بچے لہولہان ہوئے،مرتے اور ان کے اعضاء بکھر جاتے۔وہ مگن تھا،ایک وحشیانہ خمار اس کی نگاہوں میں انگڑائیاں لے رہا تھا بڑی ہمت سے وجود کو کمپیوٹر کی طرف سے گھمایا ۔چھوٹا بیٹا ریموٹ پکڑے ٹی وی پر کوئی مووی دیکھ رہا تھا ۔گرتے وجود کے ساتھ جو آخری منظر دیکھا وہ خون میں لت پت نوجوانوں کا تھا جن کے وجود پر ہیرو کا وحشیانہ انداز میں قہقہے لگاتا وجود۔۔۔ایک وحشت در وحشت تھی جو ہر طرف رقصاں تھی ۔ڈوبتا ضمیر پوچھ رہا تھا،یہ کیسی کھیتی کی تیاری ہے؟
nn

حصہ