کوفت اور کوفتے(نگہت یاسمین)

238

ڈھائے۔۔۔۔اینکر،تجزیہ نگار ڈاکٹر نے برقی میڈیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔یہ خبر حسب توقع نمایاں نہیں کی گئی۔جمہوری نظام میں میڈیا ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے.چونکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کی آزادی کسی طویل جدوجہد کا نتیجہ نہیں بلکہ بیرونی اشاروں اور امداد کی مرہون منت ہے۔ پھر ایک ڈکٹیٹر نے عوام کو خوف وہراس،لذت و ہیجان میں مبتلا رکھنے کے لیے سب سے پہلے کا نعرہ بلند کیا۔حالانکہ سب سے پہلے رب کی ذات ہے۔ انفرادی طور پر بھی کسی فرد کے لیے پندرہ سال کی مدت معمولی نہیں بلکہ کثیر سرمایہ ہے،کہاں قوم کے اجتماعی پندرہ سال! یقیناً غلطیوں کی معذرت اعلیٰ ظرفی کی علامت ہے مگر جب غلطی کی طوالت ایک عشرہ سے زیادہ وقت پر محیط ہو۔جب یہ لاکھوں انسانوں کو ذہنی،نفسیاتی اورمعاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچائے. ایسے میں خود ساختہ وعدہ معاف گواہ بننا اندرونی احساس جرم کو تو کم کرسکتا ہے مگر حقیقی وجوہات پر بحث کئے بغیر مقدمات، فیصلوں کے مراحل سے گذرے بنا اعتراف بے معنی ہے۔برقی اور کاغذی میڈیا کے ہاتھوں دہشت گردی جوں کی توں برقرار ہے۔ کنویں سے ڈول پر ڈول آلودہ پانی کے بجائے مردہ جانور کو نکالنے پر توجہ کی جا نی چاہئے۔ ہر قوم اپنی ترجیحات کا دائرہ اپنے نظریہ ،اقدار و روایات کی بنیاد پر کھینچتی ہے ،ہمارے عقائد پر قائم تہذیب اسلامی کے مظاہر لباس، زبان ،ادب ،سماجی تعلقات اور رویے ہیں۔مگر ان کی تصویر کشی کے بجائے دور پار کی ننگی بچی ،انسانیت سوز سرگرمیوں کی تشہیر قابل مذمت ہے۔پاکستانی میڈیا کی آزادی کی حدود کا تعین آئین میں درج شقوں کی روشنی میں دیکھا جائے ہر طرح کا اور بار بار انحراف نظر آتا ہے۔ پیمرا میں فحاشی کی تعریف کے لیے شیما کرمانی کی شمولیت بلا تبصرہ ہے۔
میڈیا کے اثرات کیا ہیں؟ یہ ہم بچشم سر دیکھ رہے ہیں۔ مایوسی، چڑچڑاہٹ،تشدد،عدم برداشت،اذیت پسندی،اور تنہائی فرد کے رگ وپے میں سما جائے۔گھر، خاندان،محلوں پورا معاشرہ اپنے بنیادوں سے ہلا مارا جائے۔جرائم کی شرح میں اضافہ آزاد میڈیا کے کڑوے کسیلے پھل ہیں۔بچے اور خواتین معاشرے کے حساس حصہ ہیں۔لہٰذا ان کو ہدف رکھا گیا ہے۔دوسری قوموں اور تہذیبوں کے تہوار،رسوم رواج اردو اور علاقائی زبانوں میں تفریحی انداز میں بتدریج نمایاں کئے گئے آخر کار ایک طبقہ فکر تیار ہو گیا جو اپنی روایات و اقدار سے بے گانہ ہے بلکہ شدید مخالف ہے۔شرع ودین کے حساس معاملات غیر متعلقہ افراد سے بحث و مباحثہ کروا کے جذباتیت کو فروغ ملا۔ملک کی نظریاتی اساس بدلنے کی جدوجہد کھلے عام جاری ہے۔ ایسے میں ایک شخص کی علیحدگی سے میڈیا کی دہشت گردی میں کمی آنے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آزاد میڈیا سے ہمارے دشمنوں نے جو کام لینا ہے وہ بہت اچھی طرح لے رہے ہیں سوال یہ کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟آزادی کے نام پر جرائم کی تشہیر ہو،گھر اور اخلاق کی دھجیاں بکھیری جارہی ہوں،معاشرتی ڈھانچے کے تاروپود تباہ ہوں،امن سکون برباد۔ہم صرف ٹک ٹک دیکھنے اور واویلا کرنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔عمل کرنے کی قوت یکسر مفقود نظر آتی ہے۔ ردعمل کی پالیسی کمزور فرد اور قوم کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس سے بھی اہم نکتہ یہ کہ کیا ہم کچھ کر سکتے ہیں؟دس سال میدان میں کام کرتے ہوئے اس سوال کا بار بار سامنا کیا۔بہت سے افراد کو بد گمان پایا،مایوس دیکھا جو دجالی ایجنڈے کا ما حصل ہے۔ وہ ہمیں کوشش کرنے ،پر امید رہنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ مگرعملی تجربہ کی روشنی میں جواب کل بھی یہی تھا آج بھی وہی ہے صرف اور صرف ہم ہی کچھ کر سکتے ہیں ایک دعوت اور تحریک سے وابستگی کے بعد مایوسی کا کوئی جواز نہیں۔ آج مقابلہ کا میدان میڈیا ہے تو ہمیں بھی جدید مہارتوں اور تکنیک سے خود کو آراستہ کر نا ہو گا۔افراد کو میدان میں اتارنے سے پہلے تربیت اور تربیت سے پہلے بہترین منصوبہ بندی ۔اگلے پانچ اور دس سال کے لیے مربوط منصوبہ بندی۔نظریاتی ادب اور لٹریچر کو جدید خطوط پراستوارکرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ” برے لوگ نیک لوگوں سے زیادہ نہیں۔بات صرف یہ ہے کہ برے لوگ اپنی برائی کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ جب کہ اچھے افراد اپنی انفرادی نیکیوں میں مگن ہیں ” امام حسن البنا کے یہ الفاظ آج بھی فکر و عمل کی راہ متعین کرتے ہیں۔ یقیناْْ نیک افراد کو منظم اور مربوط ہو کر پالیسیاں اور طریقہ کار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
گذشتہ سہ ماہی میں ہونے والے دو عدد گیلپ سروے پر نظر ڈالتے ہیں۔ اخباری مواد کے بارے میں سروے بتاتا ہے کہ اطلاع کے نام پر ہم پر کیا پڑھتے ہیں۔غیر ضروری مواد کی اشاعت تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم افراد میں گھٹن ،مایوسی کا سبب ہے۔اخبارات ہمارے حقیقی مسائل کے حل میں بہتر کردار نہیں ادا کر رہے ہیں جب کہ محدود دائرہ کے باوجود بھی ہمارے ذہنوں اور سماج کو تبدیل کرسکتے تھے۔عوام کے بنیادی حقوق تعلیم اور صحت کی شرح میں اضافہ کی منزلیں طے کروا سکتے تھے۔ الیکٹرانک میڈیا نے پڑھے لکھے ہونے کی رکاوٹ بھی دور کردی۔اب دیہات میں بیٹھا بابا بھی عورتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تازہ ترین مباحث سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
رائے عامہ ہموار کئے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔اور میڈیا نے یہ کام کس خوبصورتی سے کیا ہے۔ گیلپ ہی کے ایک تازہ سروے کے مطابق پچاس فیصدافراد میڈیا سے نشر ہونے والے مواد یعنی خبروں کے انداز ،مباحثوں کے موضوعات کو بالکل درست سمجھتے ہیں۔ بقیہ پچاس فیصد پر کام جاری ہے۔
اگر اب بھی ہم نے خاموشی کی مہر نہ توڑی ڈاکٹر صاحب لاکھ کوفت کا اظہار کریں عوام کے کوفتے بنتے رہیں گے۔
nn

حصہ