(معنی اور تناظر(ڈاکٹر وزیرآغا

672

کتاب
:
معنی اور تناظر
مصنف
:
ڈاکٹر وزیرآغا
صفحات
:
464 قیمت 450 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلسِ ترقی ادب
2 کلب روڈ لاہور
فون نمبر
:
042-99200856-99200857
ای میل
:
majlista2014 @gmail.com
ویب گاہ
:
www.mtalahore.com
ڈاکٹر وزیرآغا مشہور اہلِ قلم، ادیب، نقاد اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ دانشور بھی تھے۔ ان کی تحریروں اور مقالات سے فکر و تفکر کے نئے افق وا ہوتے تھے۔ زیرنظر کتاب ان کے مقالات کا مجموعہ ہے اور دوسری دفعہ مجلس ترقی ادب کے ہاں سے طبع ہوا ہے۔
ڈاکٹر تحسین فراقی تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر وزیرآغا (1922ء۔ 2010ء) ہمارے اُن ممتاز اہلِ قلم میں سے تھے جنہوں نے اپنی وسعتِ علم اور گہری تجزیاتی صلاحیت سے اردو ادب میں اپنا مقام بنایا۔ یوں تو وہ نظم کے شاعر کی حیثیت سے بھی خاصے قابل توجہ ٹھیرتے ہیں لیکن میرے نزدیک ان کی نمایاں ترین حیثیت ایک بہت قابلِ قدر نقاد کی تھی۔ انہیں عالمی سطح پر تنقید کے عہد بہ عہد اور نو بہ نو اوضاع کا گہرا شعور حاصل تھا۔ مطالعہ اور تفکر ان کے عمر بھر کے مشاغل رہے اور اس کا حاصل ان کی متعدد اور متنوع تنقیدی کتب ہیں جن میں جگہ جگہ ان کی تحلیلی و تجزیاتی مہارت کے گوہرِ شب چراغ فروزاں نظر آتے ہیں۔ وہ امتزاجی تنقید کے پرجوش مؤید تھے اور خود ان کی تنقید اس کی ممتاز ترین مظہر ہے۔ نظری تنقید میں تو ان کا رنگِ تفکر جھلکتا ہی ہے، وہ عملی تنقید میں بھی اپنی اس فلسفیانہ افتادِ طبع سے کہیں دستبردار نہیں ہوتے۔ وہ متن میں گہرا اترنے کا اہتمام کرتے ہیں اور معانی کی ان سطحوں تک پہنچتے ہیں جہاں کسی سہل انگار نقاد کی تنقید کے پر جلتے ہیں۔ ’’معنی اور تناظر‘‘ بھی ان کی ایک ایسی ہی قابلِ داد تنقیدی کاوش ہے جس میں نظری و عملی تنقید کے فکر انگیز مباحث ملتے ہیں۔
’’معنی اور تناظر‘‘ کا پہلا ایڈیشن 1998ء میں شائع ہوا تھا جو آغا صاحب کے چالیس طویل و مختصر مقالات کا مجموعہ تھا۔ نئے ایڈیشن میں، جیسا کہ ان سے قربتِ قریبہ رکھنے والے ادیب شاہد شیدائی کا مؤقف ہے، وہ اپنے گیارہ نئے مقالات شامل کرنے کے متمنی تھے۔ ان میں سے بعض نے بعد ازاں ’’تنقیدی تھیوری کے سو سال‘‘ میں جگہ پائی اور اب بقیہ چھے تنقیدی تحریریں مذکورہ کتاب کے پیش نظر ایڈیشن میں شیدائی صاحب نے شامل کردی ہیں۔ یوں یہ کتاب اب اپنی پہلی اشاعت کی نسبت جامع تر اور نمائندہ تر ہوگئی ہے۔
پیش نظر کتاب میں جہاں علامت، حقیقت اور فکشن، ساختیات، ساخت شکنی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے مباحث سے بڑے سلیقے سے اعتنا کیا گیا ہے، وہیں غالب و اقبال اور ان کے دوش بدوش معاصر اردو ادب خصوصاً شاعری کے بعض رخ بھی دکھائے گئے ہیں۔ کہیں کہیں البتہ یہ احساس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف کی عملی تنقید میں نئے لکھنے والوں کے باب میں داد اور حوصلہ افزائی کا عنصر کسی قدر غالب آگیا ہے اور معروضیت کے تقاضوں سے صرفِ نظر ہوا ہے۔ معنی و تناظر کی بعض تعبیرات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا، مگر آخر کسی بڑے سے بڑے لکھنے والے کے مواقف اور توضیحات سے بھی کامل اتفاق کہاں ممکن ہوتا ہے؟ فکر افروز تحریروں کا ایک خاصہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ نئے اور تازہ مباحث کے در وا کرتی ہیں۔ امیدِ واثق ہے کہ آغا صاحب مرحوم کی زیرنظر کتاب سے بھی فکر و خیال کے نئے زاویے مرتب ہوں گے اور نقد و نظر کی نئی تعبیرات کو مہمیز ملے گی۔ ایسی تعبیرات جن کی معاصر اردو تنقید میں بہ استثنائے چند شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔
مجلس ترقی ادب لاہور کے اربابِ علم شاہد شیدائی صاحب کے ممنون ہیں کہ ان کے توسط سے ’’معنی اور تناظر‘‘ اپنی اضافہ شدہ صورت میںِ ؓمجلس کے زیر اہتمام طبع ہوکر قارئین کرام کے ہاتھوں تک پہنچ رہی ہے۔‘‘
کتاب میں شامل مقالات درج ذیل ہیں:
نظری تنقید
(الف) مقالات۔ معنی اور تناظر، اکیسویں صدی، ادراکِ حُسن کا مسئلہ، ثقافت، ادب اور جمہوریت، علامت کیا ہے؟ تنقید کی قلبِ ماہیت۔
(ب) تنقیدی تھیوری۔ اجتماعی شعور کی ساخت، حقیقت اور فکشن، ساختیات اور سائنس، سوسیور کا نظام فکر، رولاں بارت کا فکری نظام، ساخت شکنی، ساختیاتی فکر میں پراسراریت کے عناصر، لکھت لکھتی ہے لکھاری نہیں، ساخت، ساخت شکنی اور ساختیاتی تنقید، اسٹرکچر اور اینٹی اسٹرکچر، تخلیقی عمل اور اس کی ساخت، لکھاری، لکھت اور قاری، جدیدیت اور مابعد جدیدیت۔
(ج) مضامین۔ جدید اردو تنقید، غزل اور جدید اردو غزل، آزاد نظم، انشائیہ اور انشائیہ نگاری۔
عملی تنقید
(الف) شاعری۔ غالب کا ایک شعر، غالب کا ایک اور شعر، اقبال کا تصورِ عشق، پرچھائیاں، ریزہ ریزہ ورق ورق، ہائیکونگاری اور زرد پتوں کی شال، ایک رات کا ذکر، گفتار، وجود ایک واہمہ ہے، رزق ہوا کشید، گوری تیرے روپ!، ہوا کے پر۔
(ب) فکشن۔ عصمت چغتائی کے نسوانی کردار، منٹو کے افسانوں میں عورت، علامتی افسانے کا مسئلہ، مہاجر۔
(ج) تنقید۔ معاصر تنقید، شاعری کا دیار، محمل یا منزل؟ میٹا تنقید کی ایک مثال۔
(د) متفرق۔ ’’میم‘‘ اور ’’جین‘‘، خطبہ صدارت (حلقہ ارباب ذوق، راولپنڈی)۔
کتاب علمی ہے اور محنت سے مرتب کی گئی ہے۔ جناب شاہد شیدائی صاحب شکریے کے مستحق ہیں جن کی توجہ سے یہ مقالات خاص و عام کی دسترس میں ہیں۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت ٹائپ میں عمدہ طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
کتاب
:
اردو کی قدیم منظوم داستانیں
جلد اول (بارہ قصے)
مرتب
:
خلیل الرحمن داؤدی
صفحات
:
648 قیمت 700 روپے
ناشر
:
ڈاکٹر تحسین فراقی۔ ناظم مجلس ترقی ادب
2 کلب روڈ لاہور
مرتب کتاب جناب خلیل الرحمن داؤدی مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اردوے قدیم سے متعلق یہ بارہ منظوم داستانوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ داستانیں تقریباً دو سو سال قبل نظم کی گئیں اور مثنویاتِ اردو کے ارتقا کی اہم کڑیاں ہیں۔ ان میں بیشتر داستانیں گوجری اردو (گجرات کے علاقے کی اردو جس میں گجراتی زبان کے الفاظ کی آمیزش ہے) میں ہیں اور کچھ دکنی زبان میں، جسے اردوے قدیم کے اولین نمونوں کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یہ داستانیں خواہ اپنے پلاٹ کی خوبی، کردار نگاری، زبان کی چاشنی اور بیان کی لطافت کے اعتبار سے نفیس و دل آویز نہ ہوں لیکن اردو کی لسانی تاریخ کے سلسلے میں ایک اہم قیمتی تاریخی دستاویز کی حیثیت ضرور رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ داستانیں طبع زاد ہیں اور کچھ کی اصل فارسی اور ناگری قصے ہیں۔ بہرحال یہ آج سے دو سو سال قبل اس زبان میں نظم کی گئی ہیں جو اس عہد میں مروج تھی، اور ان داستانوں سے زبانِ اردو کے تدریجی ارتقا کے مؤرخ کو خاطر خواہ مواد بہم پہنچ جاتا ہے۔ زبان و ادب کی تاریخ کے سلسلے میں اس قسم کی چیزیں بنیادی مواد سمجھی جاتی ہیں اور دنیا کی ہر اہم زبان کی اس قسم کی ابتدائی کوششیں فراہم و محفوظ کرنے پر فضلا نے اپنی پوری پوری عمریں وقف و صرف کردی ہیں‘‘۔
انقلاب 1857ء سے قبل کسی اہلِ ذوق نے اردو کی قدیم منظوم داستانوں میں سے بارہ کا انتخاب کرکے ایک مجموعہ مرتب کیا اور اس کا نام ’بارہ قصے‘ رکھ دیا۔ اسی کتاب کو تحقیق کرکے داؤدی صاحب نے مرتب کردیا ہے۔
اس مجموعے میں جو بارہ قصے شامل ہیں ان کے نام درج ذیل ہیں:
’’1۔ قصۂ لال و گوہر۔ 2۔ قصۂ لیلیٰ و مجنوں۔ 3۔ قصۂ نازنین و خان والا شان جعفر خان۔ 4۔ قصہ قاضی اور چور کا۔ 5۔ قصہ چوہے اور بلی کا۔ 6۔ قصہ بئر الالم کا۔ 7۔ قصہ جمجمہ بادشاہ۔ 8۔ وفات نامہ حضرت خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراؓ۔ 9۔ قصہ زیتون و محمد حنیف۔ 10۔ قصہ زن تنبولی۔ 11۔ قصہ تمیم انصاری۔ 12۔ قصہ کالی اور گوری کا۔
یہ اس کتاب کی طبع دوم ہے۔ کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے۔ مجلّد ہے۔

حصہ