(وہ ہم میں سے نہیں جس کا ہمسایہ رات کو بھوکا سوئے(پروفیسر عبدالحمید ڈار

2251

اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا، اسے آسمانوں پر جنت میں رکھا، پھر اپنے عظیم حکیمانہ منصوبے کے تحت اسے زمین پر اتارا۔ اسے یہاں ایک مقررہ مدت تک زندگی بسر کرنے کا ضابطۂ ہدایت عطا فرمایا اور اسے بتادیا کہ اگر وہ اپنی زندگی کے شب و روز اس ضابطۂ رشد و ہدایت کے مطابق گزارے گا تو وہ جنتِ گم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرلے گا، اور اگر اس نے اس ضابطے سے روگردانی کی تو اسے جہنم کے دردناک عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گا۔ اس ضابطۂ حیات کی عمارت دو بنیادوں پر استوار ہے۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ حقوق اللہ کے اعتبار سے انسان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کو اپنا خالق و مالک، رب اور حاکمِ مطلق تسلیم کرے اور اس کی ذات، صفات، اختیارات اور حقوق میں کسی مخلوق کو ادنیٰ درجے میں بھی اس کا شریک اور ہمسر قرار نہ دے، اور حقوق العباد کے دائرے میں اسے اپنے ہم جنسوں کے ساتھ روابط قائم کرتے ہوئے فیاضی، عالی ظرفی اور ایثار و قربانی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ معاشرتی زندگی میں ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ گوناگوں رشتوں میں منسلک ہوتا ہے۔ کبھی اسے ماں باپ، اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر رہنا ہوتا ہے، کبھی آجر و مستاجر، خریدار و فروخت کار، مقروض و قرض خواہ، مہمان و میزبان، مسافر و مقیم اور خاوند اور بیوی کی حیثیت سے تعلق قائم کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح انسان کے لیے ایک نہایت اہم رشتہ و تعلق ہمسائیگی کا بھی ہے۔ زیر نظر احادیث میں اسی آخری تعلق کی اہمیت اور نزاکت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
جہاں تک ہمسایہ کے حقوق کی اہمیت کا تعلق ہے وہ اس بات سے ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں حقوق العباد کے ضمن میں رحمی رشتوں یعنی خونیں رشتوں کے معاً بعد ہمسائیگی کے رشتہ و تعلق کا ہی ذکر کیا ہے اور ہمسایہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی ہے۔ (سورہ النساء63) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد بار اہلِ ایمان کو مختلف طریقوں سے ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’جبریلِ امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کی رعایت اور امداد کی تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید پڑوسی کو بھی رشتہ داروں کی طرح وراثت میں شریک کردیا جائے گا‘‘۔ (معارف القرآن، سورۃ النساء بحوالہ بخاری و مسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ’’کسی محلہ کے لوگوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بہتر وہ شخص ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہو‘‘۔ (معارف القرآن، بحوالہ ترمذی و مسند احمد)
’’ایک پڑوسی کو پیٹ بھر کر کھانا جائز نہیں جب کہ اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔‘‘ (معارف القرآن، بحوالہ مسند احمد)
ہمسائے کے حقوق میں یہ شامل ہے کہ اُس کے دکھ سُکھ میں شریک ہوا جائے۔ حاجت مندی کی صورت میں اُس کی مقدور بھر مدد کی جائے۔ معاملاتِ زندگی میں اُس کی رہنمائی کی جائے، اور نیکی و بدی اور حق و باطل کے بارے میں اُسے صحیح بات بتانے کا اہتمام کیا جائے اور اُسے کسی بھی حال میں دکھ اور اذیت نہ دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ’’وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا جس کی شرارتوں اور ایذا رسانیوں سے اُس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔‘‘ (معارف الحدیث، بحوالہ مسلم)
ہمسایہ کے دکھ اور تکلیف سے بے نیازی اور لاتعلقی خدا اور اس کے رسولؐ کی نگاہ میں ایک سنگین جرم کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام دینِ رحمت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رسولِ رحمت ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی اتنا بے فکر اور بے حس ہوجائے کہ خود پیٹ بھر کر خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجائے جب کہ اس کے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوک سے بلبلا رہا ہو۔ ایسے نابکار شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ لاتعلقی کیا ہے اور واشگاف طور پر اعلان فرمایا ہے کہ اس کا یہ طرزِعمل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے منافی اور ان کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹا ہوا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وعید صرف کھانے تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کی تمام ضروریات مثلاً لباس، رہائش، علاج، تعلیم اور روزگار وغیرہ پر بھی محیط ہے۔ ایک آسودہ حال مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کی تمام ضروریات پر نگاہ رکھے اور مشکل اور دشواری کے موقع پر اس کی دستگیری کرے اور اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک وہ اپنی حدِ استطاعت تک اس دشواری سے اپنے پڑوسی کو نجات دلانے کی نتیجہ خیز کوشش نہ کرلے۔
nn

حصہ