(موت سے کس کو رُستگاری ہے (پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی

230

موت برحق ہے۔ جب موت کا فرشتہ آئے گا تو شبنم کی طرح تمہارا وجود بھی باقی نہ رہے گا۔ اگر تم محل یا مضبوط قلعے میں بھی ہو گے تو موت وہاں بھی پہنچے گی۔ اور کوئی نہ بچا سکے گا۔ اے عزیز! موت تمہارا پیچھا کر رہی ہے۔ جب کوچ کا نقارہ بجے گا تو موت سے کسی کو رُستگاری نہ ہو گی۔ اس لیے اے عزیز! توبہ کر لو۔ توبہ اشک ندامت ہے۔ اس سے جہنم کے شعلے بجھ سکتے ہیں۔ نیک و بد کی شناخت کرو۔ جب صیاد اجل تیرا چراغ گل کرے گا۔ اس وقت سے ڈرو اور آخرت کی تیاری کرو۔ اتنے گناہ نہ کرو کہ زمین بھی تمہیں قبول نہ کرے۔ تم جو شب و روز دنیا کے بکھیڑوں میں مصروف ہو۔ ہوس و زن و جواہر کو کم کرو۔ کیا تمہیں معلوم ہے صبح سویرے سحر خیز پرندے تمہیں خواب غفلت سے جگاتے ہیں۔ میں نے گڈریے سے پوچھا جو صبح سویرے شبانی میں بکریاں چرا رہا تھا کہ اے گڈریے! کیا تو نے خدا کو دیکھا ہے۔ تو اس نے کہا کہ وہ تمہارے دل میں رہتا ہے۔ وہیں تلاش کرو۔ شب بیداری اللہ کی رضا کے لیے اہم ہے۔ راست روی اختیار کرو۔ اگر اپنی اصلاح چاہتے ہو تو خود پسندی چھوڑ کر خدا پسندی اختیار کرو۔ چرخ نیلی فام کے نیچے قدم بڑھاؤ، منزل خود بخود قدم چومے گی۔ خوش خلقی اختیار کرو۔ خود ستائی نہ کر۔ اگر توحید کی سمجھ اور عرفان چاہتے ہو تو یقین محکم رکھو اور نیک راہ اختیار کرو۔ اے لوگو! ڈرو س دن سے جب تمہارے ہاتھوں میں تمہارے اعمال نامے دیئے جائیں گے۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ سرخ رو ہوگا۔
اے نوجوان! جب موت تجھے اپنے دامن میں لے لے گی۔ تو تیری زندگی کا بے ثمر درخت جڑ سے اکھڑ جائے گا۔

حصہ