(کھیل سے دہشتگردی کا مقابلہ(سید تاثیر مصطفی

261

1973ء کی اسلامی سربراہ کانفرنس کی طرز کے حفاظتی انتظامات میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں بخیر و خوبی انجام پذیر ہوگیا۔ اس ٹورنامنٹ کا فیصلہ ہوجانے اور پشاور زلمی کی باقاعدہ کامیابی کے اعلان کے بعد بھی پی ایس ایل کا بخار نہیں اترا۔ میڈیا نے میچ سے کئی دن پہلے یہ بخار چڑھانا شروع کیا تھا جس میں وہ ماضی کی طرح اِس بار بھی کامیاب رہا، اور اب اُس کی خواہش ہے کہ اس بخار کے اترنے میں جتنے دن لگ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ میڈیا کی ایجنڈا سیٹنگ ہے یا کسی اور کی، اس کا تو سردست کسی کو علم نہیں، لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ تقریباً ایک ہفتے تک ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے مسلسل یہ تاثر بنائے رکھا جیسے پاکستان ہی نہیں اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ پی ایس ایل کا فائنل ہے۔ یہ فائنل لاہور میں ہوگیا تو پاکستان کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور دہشت گردی اپنی موت آپ مرجائے گی۔۔۔ اور اگر یہ نہ ہوسکا تو خدانخواستہ دہشت گردی پورے ملک پر چھا جائے گی۔
یقیناًکھیل ایک صحت مند تفریح ہے اور ان میں اقوام عالم کی دلچسپی بھی ہے۔ کھیلوں کو منفی سرگرمیوں اور منفی سوچوں کا توڑ بھی کہا جاتا ہے، اور ہوش مند قومیں کھیلوں کے میدان آباد کرکے اپنے نوجوانوں میں نظم و ضبط، صحت کا اعلیٰ معیار اور فتح و شکست میں باوقار اور ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کی عملی تربیت کا بندوبست بھی کرتی ہیں۔ کھیل کے میدان آباد ہوں تو اسپتال ویران ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کھیلوں کے محلّے کی سطح سے لے کر قومی اور بین الاقوامی سطح تک کے مقابلوں کا ہر کوئی قائل ہے، اس کے لیے مزید دلائل کی ضرورت نہیں۔ لیکن کیا دہشت گردی کا مقابلہ کھیلوں سے کیا جاسکتا ہے؟ اور کیا کھیلوں کے میگا ایونٹ منعقد کرکے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو واقعی شکست دی جاسکتی ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جس کا پی ایس ایل کے فائنل کے بعد آغاز ہوچکا ہے، اور یہ بحث قومی اور بین الاقوامی سطح پر یقیناًآگے بڑھے گی۔ اگر واقعتا کھیلوں کے میگا ایونٹس منعقد کرنے اور ان میں بڑے پیمانے پر عوام کی شرکت سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا تو آج کی دنیا جو پوری کی پوری دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، یقیناًاس کا انتظام کرلیتی۔ آج دنیا کے ہر ملک میں کھیلوں کے زبردست اور شاندار مقابلے ہورہے ہوتے اور دہشت گردی دور کہیں منہ چھپائے آخری سانسیں لے رہی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر یہ نسخۂ کیمیا ہمارے فیصلہ سازوں کے ہاتھ آہی چکا تھا تو پھر دس پندرہ سال کیوں ضائع کیے گئے؟ دہشت گردی کی جنگ میں پچاس ہزار سے زائد جانوں کی قربانی کا کیوں انتظار کیا گیا؟ جیسے ہی دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہوا تھا، ملک کے کسی حصے میں پی ایس ایل کے میچ شروع کراکے دہشت گردی کو اپنی موت آپ مار دیا جاتا۔
دنیا جانتی ہے کہ کھیلوں کے بڑے مقابلوں کے انعقاد، ان میں عوام کی کثیر تعداد میں شرکت، اور میڈیا میں ان کی زبردست کوریج کے ذریعے عوام کی یہ تربیت تو کی جاسکتی ہے کہ وہ دہشت گردی سے گھبرانے کے بجائے اپنے معمول کے کام جاری رکھیں، تفریح کے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ وہ دہشت گردی سے خوفزدہ نہیں ہیں اور قربانیاں دینے کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ خوف اور سوگواری کی فضا کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور عوام میں جینے اور زندگی کا بھرپور لطف اٹھانے کا عزم زندہ کررہے ہیں۔ یہاں تک تو بات درست ہے، لیکن دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ دہشت گردی پر حقیقی قابو پانے کے لیے کچھ اور اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے لیے سیاسی و عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے انتہائی ضروری ہے۔ یہ قیادت دہشت گردی سے نمٹنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہو اور اس کے لیے غور و خوص بھی کرتی ہو۔ دہشت گردی کے اس جن پر قابو پانے کے لیے ملک کی تمام سیاسی قوتوں، مذہبی حلقوں اور دوسرے طبقات کو ساتھ لے کر فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں، پھر ان فیصلوں پر حوصلے، تسلسل اور نیک نیتی سے عملدرآمد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشت گردی سے نبردآزما اداروں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنا اور ان کی اعلیٰ تربیت کرنا بھی ضروری ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے پشت پناہ عناصر کی نشان دہی اور ان پر ہاتھ ڈالنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وقتی اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے۔ کئی بار اپنے ووٹ بینک کو بھی ناراض کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار سیاسی حلیفوں کی مخالفتیں بھی برداشت کرنا ہوتی ہیں، لیکن مشکل اور بڑی حد تک ناقابلِ قبول فیصلے کرنا پڑتے ہیں، تاکہ اپنے سیاسی نقصان کے باوجود قوم کو ایک بڑے عذاب سے نجات دلائی جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ پی ایس ایل پر بڑے بڑے دعوے کرنے والوں نے کیا یہ انتظامات کررکھے ہیں؟ میڈیا اور سیاسی قیادت دعوے تو یہ کررہی ہے کہ
* پاکستان جیت گیا۔ فسادیوں کو شکست
* پاکستانیوں نے دہشت گردوں کو واضح پیغام دے دیا
* پورے ملک میں کرکٹ بخار۔ خوف نے دم توڑ دیا
* دہشت گردوں کو شکست دے دی۔ شہباز شریف
* مشکلات اور خوف سے نکل آئے۔ دنیا پر ثابت کردیا کہ ہماری تنہائی کے دن گئے۔ نوازشریف
یقیناًاس میچ میں لاہور ہی نہیں، پورے ملک کے باشندوں نے شرکت کرکے یہ پیغام دیا کہ وہ حوصلے میں ہیں اور دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں سے خوفزدہ نہیں۔ لیکن یہ پیغام تو ہمارے شہری پہلے دن سے اپنے عمل کے ذریعے دے رہے ہیں۔ جب بھی دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوتی ہے ہمارے ادارے اور شہری اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کو پہنچتے ہیں۔ انہیں خون اور ادویات فراہم کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فوری احتجاج کرنے کے لیے میدان میں نکلتے ہیں اور اس متاثرہ شہر نہیں متاثرہ جگہ پر بھی چند گھنٹوں بعد معمول کی زندگی بحال کرکے ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔
پی ایس ایل کے فائنل کے موقع پر یہ نعرہ بھی دیا گیا کہ خوف نے دم توڑ دیا ہے۔ اس دن کی حد تک تو یہ بات درست ہے، لیکن کیا آج مائیں بے خوف ہوکر اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہی ہیں؟ کیا بوڑھے والدین اپنی جوان اولاد کو روزگار پر بھیجتے ہوئے واقعی بے خوف ہیں؟ اور کیا سڑکوں، پارکوں اور بازاروں میں لوگ واقعی بے خوف ہوکر گھومنے لگے ہیں؟ اگر پی ایس ایل فائنل نے یہ نتائج دے دیے ہیں تو یقیناًملک کی سیاسی قیادت، کرکٹ بورڈ کے حکام اور پی ایس ایل کے کارندے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور اگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے تو اب ہمیں نعروں سے نکل کر عملی انتظامات کرنا ہوں گے تاکہ ہمارے یہ دعوے درست ثابت ہوسکیِں۔
وزیراعلیٰ شہبازشریف دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردوں کو شکست دے دی۔ گویا یہ کوئی کرکٹ میچ نہیں دہشت گردوں سے مقابلہ تھا۔ اس طرح کی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کی سطح کے لوگوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ یقیناًمیچ سے معمول کی فضا قائم ہوئی ہے جس میں لوگ حوصلے سے شریک ہوئے ہیں۔ اب اس فضا کو قائم اور محفوظ رکھنا اور محفوظ بنانا آپ کی ذمہ داری ہے، اور اس کے لیے آپ کو بیانات سے بڑھ کر کچھ ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔ دہشت گردوں کو شکست دینے کے دعویدار وزیراعلیٰ کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ میچ کی ایک اننگ دیکھنے کے بعد چلے گئے۔ حالانکہ اس روز لاہور میں میچ کے سوا کوئی بھی کام نہیں ہورہا تھا۔ وزیراعلیٰ کو تو اسٹیڈیم سے آخری آدمی کے نکلنے تک وہاں موجود رہنا چاہیے تھا تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ اس قوم کا منتخب لیڈر اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے عوام کے ساتھ ہے۔ اور وزیراعظم نے تو عجیب و غریب دعویٰ کردیا کہ مشکلات اور خوف سے نکل آئے ہیں، دنیا پر ثابت کردیا کہ ہماری تنہائی کے دن گئے۔ جناب وزیراعظم قوم تو پہلے بھی خوف میں نہیں تھی،وہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کررہی تھی۔ لیکن آپ کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس ایک میچ سے ہمارا ملک اور قوم تنہائی سے نکل آئے ہیں۔ جس تنہائی کے لیے ہمارے دشمن سالہا سال سے کام کررہے ہیں اس سے ہم تین گھنٹے کے ایک میچ کے بعد نکل آئے، یہ دعویٰ کرنے والے وزیراعظم کا تو حال یہ ہے کہ وہ اعلان کے باوجود، کرکٹ سے بے پناہ دلچسپی رکھنے کے باوجود، اور نجم سیٹھی کی ہر معاملے میں سرپرستی کرنے کے باوجود میچ دیکھنے نہیں آئے، حالانکہ وہ اس روز لاہور میں تھے، بلکہ انہوں نے قذافی اسٹیڈیم جہاں میچ ہورہا تھا، کا فضائی جائزہ بھی لیا۔ اسٹیڈیم میں نہ آکر اور اسٹیڈیم کا فضائی جائزہ لے کر وزیراعظم نے اس موقع پر قوم کو کیا پیغام دیا؟ یہی کہ ان کی جان اسٹیڈیم میں موجود 25 سے 30 ہزار تماشائیوں اور ان کی حفاظت پر مامور اتنے ہی حفاظتی عملے اور انتظامی کارکنوں سے زیادہ اہم ہے۔ یا وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ تمام حفاظتی عملہ اور اہلکار شاید ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ وزیراعظم خود سوچیں کہ وہ دعوے تو اتنے بڑے بڑے کررہے ہیں اور ان کا خود کا عمل دنیا کو کیا پیغام دے رہا ہے! وزیراعظم خود اپنے اس عمل کی کیا توجیہہ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم کی تنہائی کے دن گئے۔ یعنی ہمیں دنیا بھر میں سیاسی و سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی جوکوششیں ہمارے دشمن عرصے سے کررہے ہیں وہ اس میچ کے لاہور میں انعقاد سے ناکام ہوگئی ہیں، اور اب پاکستان کو تنہا کرنے کے دن گزر گئے! اللہ کرے وزیراعظم کا یہ دعویٰ یا خواہش درست ہو۔ اگر پاکستان کو تنہا کرنے کی سازشوں کو اس طرح ناکام بنایا جاسکتا تھا تو یہ میچ کئی سال پہلے کرالیا جاتا۔ اس کے لیے ہماری وزارت خارجہ اور سفارتی عملہ کئی سالوں سے جو سفارتی کوششیں کررہا تھا ان کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ وزیراعظم کو سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ اس معاملے کا جائزہ لینا چاہیے۔
پی ایس ایل فائنلکو میڈیا اور حکومتی اہلکاروں نے اس طرح پیش کیا جیسے اس میچ کے بعد نہ صرف دہشت گردی دم توڑ جائے گی بلکہ ہمارے تمام مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ اب میچ ہوچکا، اگر اس سے واقعی دہشت گردی ختم ہوجائے اور ہمارے تعلیم، صحت، امن و امان، روزگار اور تحفظ کے مسائل حل ہوجائیں تو یہ قابلِ مبارکباد ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہوسکے گا؟ اور اس میچ کے بعد بھی حالات پہلے جیسے ہی رہے تو اس کا جواب کون دے گا؟ ابھی سے سوچ لیا جائے۔
nn

حصہ