انسان کون ہے؟

853

انسان کون ہے؟ انسان کیا ہے؟ انسان کیسے ہے؟ انسان کیوں ہے؟ انسان کب سے ہے؟ اور کب تک رہے گا؟ انسان ہونا کیا ہوتا ہے؟ یہ تمام سوالات انسان کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ مگر ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ کیا انسان ہی انسان کے پیدا کردہ سوالات کے جوابات دے سکتا ہے‘ یا انسان سے وسیع یا ماورا کوئی وجود ان سوالوں کے جوابات دے گا۔ اس موضوع پر انسانی فکری تاریخ میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے سمجھا کہ خود انسان بس انسان کے سوالوں کے جوابات دینے کا اصل اہل ہے اور کسی نے سمجھا کہ ماورا سے کوئیو جود جو کہ ان کے خیال سے انسان کا خالق ہے۔ وہی ان سوالوں کے حقیقی جوابات دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کسی نے درمانی صورت نکالنے کی کوشش کی۔ اذیت ناک بات یہ ہے کہ آج تک کوئی فکر کوئی مکتب انسان کے اٹھائے گئے ان سوالات کا قطعی جواب نہیں دے پایا۔ گو کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر فکرنے قطعیت کا دعویٰ کیا‘ انسانی وجود کا سنگین المیہ یہی ہے کہ ساری انسانی فکری تاریخ بس انہیں سوالات کے مختلف جوابات کی تاریخ ہے۔ یہی سوالات بار بار انسان کو تنگ کرتے رہے اور انہی سوالات کے قطعی جوابات کی خواہش انسان کو فکر کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ ہر فکر اپنے دور میں کسی حد تک اپنے مخصوص زمان و مکان میں ان سوالات کے جوابات دے پائی مگر کلی طور پر یہس عی ناکام رہی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فکر بھی گزر گئی مگر دو بنیادی مکاتب مختلف صورتوں میں ہمیشہ رہے ایک مادہ پرست اور ایک غیر مادہ پرست۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سوالات ہمیشہ سے تھے تو کون لوگ ان سوالوں کے جوابات دیا کرتے تھے اور دیا کرتے ہیں۔ یقیناًاپنے اپنے زمانوں کے اہل علم لوگ ہی ان سوالوں کے جوابات دیا کرتے تھے۔ یعنی ’’علم‘‘ وہ شے ہے جو ان سوالوں کے جوابات فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’علم‘‘ اپنے ہونے میں انسان کا محتاج ہے۔ بنا انسان کے کوئی انسانی علم وجود نہیں رکھ سکتا۔ یعنی اگر اس بات کو یوں کہا جائے کہ ہر علم دراصل انسان کے ہونے کے ایک ممکنہ امکان کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے خہ علم نفسیات سے انسان کی تعریف انسان کے ہونے کی ایک صورت ہے کہ انسان نفسیاتی مخلوق یا وجود ہے۔ اسی طرح معاشیات کی انسانی تعریف سے انسان کا معاشی جانور ہونے کی صورت بیان ہوتی ہے۔ علم سیاسیاست سے انسان کے سیاسی جانور ہونے کی تائید ہوتی ہے۔ علم سماجیات سے انسان کیس ماجی جہت نکل کر آتی ہے ریاضیاتی علوم سے انسان کا ریاضیانہ پہلو واضح ہوتا ہے۔ آرٹ و جمالیاتی علوم سے انسان کی جمالیاتی حس و صلاحیت نکل کر سامنے آتی ہے۔ مدعا صرف اتنا سا ہے کہ ہر علم انسان کے ہونے کے ایک نئے امکان کو منوانا چاہتی ہے۔ اور اسی طرح ابھی کئی علوم پیدا ہونے کے امکان ہیں کہ وہا نسان کی ایک نئی تشریح کرسکیں انسان کا فکری سفر دراصل اپنے ہونے کے امکانات کی تلاش کا سفر ہے۔ انسان ہو نہیں رہا بلکہ انسان تو ہے۔ ہم انسان اپنے انسان ہونے کی جہتوں کی تلاش میں ہیں۔ یعنی انسان فقط نفسیاتی وجود نہیں۔ انسان تو نفسیاتی وجود تھا۔ جسے انسان نے پالیا۔ انسان سماجی مخلوق ہوا نہیں جیسا کہ سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ تھا ہی بس اس نے جان لیا۔ انسان معاشی جانور ہوا نہیں ہے۔ بلکہ وہ تھا۔ بس اس نے دریافت کرلیا۔ اور اسی طرح ابھی بہت کچھ اور ہے جو وہ پاتا رہے گا اور بتاتا رہے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ انسان ہورہاہے۔ اس بات کو ایک اور زاویہ سے یوں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک ہی عمل کو بار بار دہرایا جائے اور پھر مختلف نتائج کی توقعی رکھنا دیوانگی یا پاگل پن ہے۔ جیسا کہ کچھ سمجھتے ہیں تو پھر ساری انسانی دیوانی او رپاگل ہے کہ ایک ہی سوال کو ہزارہا سال سے اٹھاتی ہے۔ اور مختلف حل کی امید کرتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ انسان نے ایک ہی سوال کے جواب میں مختلف قسم کے نتائج دیے ہیں۔ لیکن آج کے سرمایہ دارانہ دور میں اپنے امکانات کی تلاش کے راستے تقریباً بند ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہ سلسلہ رک گیا ہے۔
اب تک کی گفتگو سے دو نکات اہم ہیں جس کے بعد اصل موضوع سے متصل ہونا ہوگ۔ا ایک تو انسان کا سوال اٹھانا اور دوسرا اس سوال کے جواب میں پیدا ہونے والا وہ علم جو انسان کی ایک نئی جہت کی دلییل انسان کے ایک نئی پہلو کا امکان ہوتی ہے۔ دور حاضر میں انسان پھر اسی کرب و اذیت سے ہی سوالات اٹھاتا رہا ہے۔ جس کے مسلسل جوابات دیے جارہے ہیں۔ ہر مکتب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنا دفاع بھی کررہا ہے اور اپنے خیالات کا پرچار ایسے میں مذہب ایک گھبراہٹ کا شکار ہرنی کی مانند اپنا بچاؤ اور دفاع کرتی ہوئی دیکھائی پڑتی ہے۔ عام ابراہیمی مذاہب اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ا س دور حاضر میں پیدا ہونے والے سوالات کو حل کرنے میں کوشاں ہیں۔
زیرنظرکتاب ایک یہودی فلسفی ابراھام جوشوا کے معرکۃ آرا مضامین اور کتاب کا ترجمہ ہے۔ کتاب کے متن پر گفتگو سے قبل مصنف کے انداز تحریر کو سمجھناآئندہ پڑھنے والوں کے لیے سودمند ہوسکتا ہے۔ جس کا ذکر محترم ترجمیں نے کیا ۔ مصنف کا انداز انتہائی سادہ اور گفتگو کا سا ہے۔ انتہائی پیچیدہ مسائل فلسفہ پر گفتگو کرتے ہوئے بھی روایتی فلسفیوں کی طرح لفظوں کے پہاڑ تلے نہیں دباتے۔ سقراطی انداز میں جسے فلسفہ کی زبان میں didete کہا جاتا ہے۔ اسی انداز میں لکھتے چلے جاتے ہیں تقریباً ہر پیراگراف ایک سوال سے شروع ہوکر ایک جواب پر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر قاری اس طرز کو ذہن میں رکھ کر کتاب کا مطالعہ کرے تو کافی بہتر سمجھ پیدا ہوسکتی ہے۔ مصنف کے کاموں پر زیادہ تبصرہ یوں مناسب نہیں کہ مترجم حضرات کافی بہتر طریقے سے تعارف کرواچکے اس لیے پھر سے کاغذ بھرنا کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ ابراھام جوشوا دراصل دور حاضر میں پیدا ہونے والے انسانی سوالات کا جواب فلسفہ اور مذہب بالخصوص یہودیت کے دائرہ میں رہ کر دینے کے خواہشمند ہیں۔ وہ اپنی تحریر میں جابجا نہ بائبل کے ارشادات کا حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر فلسفہ کی گفتگو میں آجاتے ہیں۔ اور یہ کوشش کوئی نئی کوشش نہیں۔ ہم یہاں اس بات پر گفتگو کریں گے کہ آخر اس طرح کی کوشش کیوں کامیاب نہیں ہوپاتی یا اگر ہو بھی جائے تو وقتی کیوں ہوتی ہے محترم مترجمین ابراھام جوشو اکے کام کو ایک نئیا مید یا کم سے کم ایک نیا راستہ ضرور سمھجتے ہیں۔ جو کہ حقیقت میں اتنا خوش آئند نہیں ہے‘ اس سے پہلے بھی یہ کام مسلسل ہوتا رہا اور مسلسل ناکام۔ بندہ کی ناپختہ اور جقر رائے یوں ہے کہ جب ہم رکشہ کے اوزار سے گاڑی کا پنکچر لگائیں گے یا گاڑی کے اوزار سے ٹرک کا پنکچر لگائیں گے تو ممکن ہے کہ ہماری مہارت سے پنکچر لگ جائے مگر نقصان ہوگا۔اوزار بھی خراب ہوسکتا ہے اور ٹائر کے نٹ بولٹ پر بھی اثر پڑسکتا ہے۔ یہی بات اس طرح سے ہے کہ فلسفہ کا علاج مذہب سے یا مذہب کا دفاع فلسفہ سے کیا جائے۔ کیونکہ یہ دونوں علوم اپنی ماہیت میں بالکل مختلف علوم ہیں۔ مذہب یقین سے شروع ہے اور یقین کا راستہ جبکہ فلسفہ فقط یقین کی تلاش کا نام ہے۔ فلسفہ شک کی دنیا ہے فلسفہ کی تاریخ گواہ ہے فلسفے کا حاصل شدہ یقین بھی عبوری یقین ہے ہاں فلسفے سے حاصل شدہ یقینی اور دائمی ہوسکتا ہے۔ مگر فلسفے کا یقین دائمی نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں جب آپ یقین کے دائرے سے بے یقینی کے دائرے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یا بے یقینی سے یقین کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو آپ دراصل اپنے یقین اور اپنی بے یقینی دونوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور زیادہ نقصان یقین کو پہنچتا ہے یعنی مذہب کو۔
ابراھام جوشوا کا کام ان معنوں میں نیا کام ضرور ہے کہ وہ سوال کو ہی بدل ڈالتے ہیں۔ سوال کہ انسان کیا ہے کو کون ہے؟ کردینا اور پھر اس کا جواب لکھ ڈالنا اس دور کے انسانی فکر کا حل نہیں ہے یہ کام فلسفے کی رواج میں اب عام ہوچکا ہے۔ ہائیڈگر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جوشوا بھی سوال بدل دیتے ہیں جیسے ئایڈگر نے سولا بدل رک انسان کیسے ہے کہ سوال کا جواب دینے کی کوشش کی یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے انسان اپنے بھولے ہوئے سوالوں کو یاد کرکے اس کے جواب تحریر کررہا ہے۔ مگر مسئلہ وہیں موجود ہے۔ ہر نیا سوال ایک نئے مکتب کو تو جنم دے رہا ہے۔ ایک مسئلہ تو حل کردیتا ہے۔ مگر ساتھ ہی کئی مسئلے پیدا بھی کردیتا ہے۔ سوال بدل کر جواب دینے کی یہ روش ایک فکری بہتری کی نشآندہی تو کرتا ہے۔ مگر سوال بدلنے سے مسئلہ بدل نہیں جاتا۔ یہ انداز اور بھی فلسفیوں کے ہاں ملتا ہے کہ وہ انسان کے پھولے ہوئے سوالوں کو مخاطب کرتا ہے۔ ج یسے چارلس ٹیلر بھی انسان کا بھولا ہوا اخلاقی سوال پھر سے اجاگر کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ مذہب اور فلسفہ اپنی ماہیتوں میں ایک دوسرے سے مخٹلف ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ فلسفہ آزادی فکر کا قاتل ہے۔ یہ نام نہاد دعویٰ کتنا سچا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے مگر مذہب اپنے دائرے میں بہت سے مسائل پہ گفتگو کی اجازت نہیں دیتا۔ جبکہ مذہب مایوسی کو کفر سمجھتا ہے ان امور پر سوچنا جنس ے انسان کا ایمان جاتا ہو مذہب میں قطعی منع ہے جبکہ فلسفہ میں مایوسی ‘ یاسیت ایک پورا مکتب ہے وہ نہ صرف مایوسی اور یاسیت کو سوچتا ہے بلکہ اس پر پورا ایک مکتب فکر تشکیل پاچکا ہے۔
مذہب کا مزاج تعبدی ہوت اہے۔ فلسفہ عقلی اس لیے اس طرح کی کوئی کوشش جس میں مذہب کا فلسفیانہ دفاع ہو یا فلسفہ کی مذہبی تشریح اب تک کی تاریخ میں کوئی مستقل یا آفاقی نوعیت کا حل پیش نہیں کرسکا۔ فکری کوشش کو سراہا ضرور جانا چاہیے مگر اس کے عملی نتائج مذہب کے حق میں بہتر ثبات نہیں ہوئے۔
آخر مذہب کے ساتھ مسئلہ کیا ہے یا مذہب کا آخر مقابلہ ہے کس سے؟ یہ وہ اہم ابت ہے جسے سمجھنا اس لیے اہم کہ پھر اصل تشخیص ممکن ہوسکے گی۔ ابراھام جوشوا بھی ’’جدید‘‘ انسان کے مسائل کے حل کی کوشش کرتے ہیں مگر مذہب کا مقابلہ کسی غیر تشخیص شدہ چیز سے سمجھتے ہیں۔ مذہب کا مقابلہ دراصل مذہب سے ہے۔ اب تک اس تحریر میں لفظ ’’جدید‘‘ سے عمداً اجتناب برتا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ اس لفظ ’’عصرحاضر‘‘ ہم معنی سمجھا جائے۔آج مذہب کا مقابلہ جدیدیت سے ہے۔ اور جدیدیت ایک مذہب بن چکا ہے۔ جدیدیت کی بطور مذہب تشخیص آج کے دور کے مذہبی لوگوں کے لیے اہم ترین نکتہ ہونا چاہیے۔ اگر مذہب عقائد‘ رسومات‘ اخلاقیات ‘ معاشیات اور سیاسی نظام کے مرکب کا نام ہے۔ تو پھر جدیدیت ان تمام شرائط کو پورا کرتی ہے۔ (مذہب اور دین کے فرق کی بحث بیان کرنا ضروری نہیں)
جدیدیت کے اپنے عقائد جیسے کہ آزادی یہ وہ آزادی نہیں جو مذہب دیتی ہے۔ ترقی بھی جدیدیت کا اہم عقیدہ ہے۔ جو کہ کسی بھی طرح اس ترقی کے مترادف نہیں جو مذہب دیتا ہے۔
مساوات بھی جدیدیت کے اہم عقائد میں شامل ہے اور ویسی مساوات نہیں جیسے مذہبی مساوات ہوتی ہے۔ یا کم از کم اسلامی نظریہ مساوات جیسی تو ہرگز نہیں۔ جدیدیت کی مساوات میں مگر مذہبی مساوات میں یہ شاید ممکن نہیں۔ جدیدیت کی اپنی اخلاقیات ہیں جو مذہبی اختلافات سے براہ راست متصادم ہیں۔ اسی طرح اگر کسی مذہب کا اپنا سیاسی نظام او رمعاشی نظام ہے۔ تو پھر اس کے مقابلے میں جدید انسان کا اپنا بنایا ہوا سیاسی اور معاشی نظام ہے۔ لہٰذا جدیدیت مذہب کی ہر تعریف پر پورا اتر کر یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ جدیدیت کو صرف فلسفیانہ تحریک نہ سمجھیں اور فقط لفظ ’’دورحاضر‘‘ کا مترادف ہے سمجھنا ترک کردیں اور اسیا لائحہ عمل پر غور کریں جس میں مذہب کا مقابلہ براہ راست مذہب سے ہوتاہے۔ اور اگر مذہبی لوگ مذہب کو بچانا چاہتے ہیں تو جنگ ناگزی رہے۔
اس گفتگو کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مذہب کا دفاع اور جدیدیت کی رو یا جدیدیت کا دفاع اور مذہب کا رذ کیا جائے بلکہ کوشش صر فیہ ہے کہ کم از کم فرق اور حیثیت واضح ہوجائے او ریہ نشاندہی کہ ابراھام جوشوا کے ہاں یہ فرق واضح نہیں ہوتا یا شاید وہ اس فرق کو سمجھنے سے قاصر رہے۔
دور حاضر (دور جدید) کے انسانوں کے ان سوالات کا جواب اس لیے بھی ناکام اور ناممکن ہوگیا ہے کہ علم کا مسئلہ پیچیدہ ہوگیاہے۔ علم کا تصور انسانی تاریخ کا معمہ ہے اور آج علم ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے۔ایک عجیب مقام پر آکھڑا ہے۔ علم آقا بھی ہے اور غلام بھی۔ آخر علم ہی کو تو ان سوالوں کے جواب دینے ہیں۔ جب علم خود غیریقینی ہو تو یقینی حتمی جواب کیسے ممکن ہے۔ آج علم آقا ان معنوں میں ہے کہ وہ انسان کو بناتا ہے ہم اپنے حساب سے پھر انسان علم کو غلام ایسے بناتا ہے کہ وہ اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اب علم ایک اوزار بن گی اہے۔ جیسے کمانے کے لیے استعمال ہونا ہے۔ یہ ہقیقت اپنی جگہ کہ علم اپنے ہونے میں انسان کا محتاج ہے مگر اب وہ استعمال بھی انسان کے نفس کے مطابق ہوت اہے او رجب علم غلام ہوجائے تو وہ اپنا اصل مقصد اور ذمہ داری انجام دینے کے قابل نہیں رہتی یہی آج کے علم کا المیہ ہے۔
زیرنظر کتاب ابراھام جوشوا کے معرکہ آرا کتبا انسانکون ہے اور چند اہم مضامین کا ترجمہ ہے۔ ترجموں میں کہیں کہیں یہ گنجائش موجود ہے خہ اسے مزید سہل بنایا جاسکے۔ مگر اس فلسفے کی بنجر زمین پر یہ کام قابل قدر اور قابل تحسین ہے۔ چونکہ اس کا کتاب کے موضوع میں لسانی فلسفہ و فلسفہ مہ زبان (Phih of Dam Langnage) بھی شامل ہے۔ تو یہ گزارش بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اردو زبان مغربی فلسفہ کے وہ معنی و مفہوم مہیا کرنے میں ناکام ہے۔ جو معنی و مفہوم مغربی فلسفہ کے متن میں موجود ہے۔ ہر زماں و مکاں کا پانا ایک تاثر و مزاج ہوتا ہے جو وہاں خی مٹی اور لوگوں کے مزاج کو ابھی تک اس طرح جذب نہ کرپائی ہے جیسا کہ ہونا چاہیے۔ سندھڑی‘ چونسہ اور لنگڑا آم یہاں ٖیدا ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں نہیں اور اگر کسی طرح سے پیدا کربھی دیا جائے تو اس کا وہ ذائقہ ممکن نہیں جو اس مٹی میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح مغربی فلسفہ اسی زمین کی پیداوار ہے۔ اسی مزاج کا عکس پھر جب یہاں کا زمین مغربی افکار کو جذب کرکے فلسفہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی مثال اس hybial کی مانند ہے۔ جو امریکہ میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ مشکل میں یہاں کے آم کی مانند ہوسکتاہے۔ مگر ذائقے میں نہیں۔ اس لیے ضروری ہے۔ ابراھام جوشوا یا کسی اور کے کام کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی تہذیب کا مسئلہ اپنی تہذیب کے اصولوں اور مزاج کے مطابق سلجھائیں جیسا کہ محترم مترجمین کا مشورہ ہے۔ مصنف کے کام کو ایک راہ نما سمجھنا چاہیے کہ جو کہ مناسب مشورہ معلوم نہیں ہوتا۔
کتاب مترجمین کے مقدمہ او رپس نوشت کے علاوہ بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں سے سب سے دلچسپ باب انسان کون ہے قابل مطالعہ ہے ایک پیچیدگی جو مسلسل دوران مطالعہ رہتی ہے وہ یہ کہ مصنف کئی اہم سوالات اٹھاتے ہیں او ران کے ایک ایک دو دو پیراگراف میں جواب دے ڈالتے ہیں جو کہ فلسفہ کے مزاج میں پسندیدہ نہیں۔ کئی ایک اہم سوالات تو ایسے ہیں جو علیحدہ کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مثلاً نبی کس طرح کا انسان ہوتا ہے؟ کیا مذہب کی اپنی کوئی آزاد حیثیت ہے؟ یا فقط قوم پرستی کا آلہ بن چکا ہے۔ مذہب کہاں مل سکتا ہے! کیا ہم آخری نسل انسانی تو نہیں۔ انسان کی زندگی میں کیا ہورہا ہے او رہم کیا اس کا ادراک کرسکتے ہیں کیا انسان کو لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ہم کیا جاننا چاہتے ہیں؟ کیا انسان کی حیوانیت اور حیوان کی حیوانیت میں کچھ فرق ہے؟ کیا اہم ہے انسان کیا ہے یا انسان ہونا کیا ہے؟ کسی موجود کو انسان کہلانے کے قابل کیا شے بناتی ہے؟ انسان سے سامنا ہونے پر محور کیا نظر آٹا ہے؟ کیسے جیا جائے۔ انان کے معنی کون ہے ماورا کا فہم کیسے ہو؟ اور اس طرح کے کئی ایک سوالات جو کہ ایک ہی کتاب میں مفصل بیان نہیں ہوسکتے۔ یہاں بہتر ہوت اکہ کتاب کی اہم اقتباسات کا جائزہ لیتے اور پیش کرتے بہتر ہوگاکہ فلسفہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اسے ضرور پرھیں ویسے کتاب ایسی ہے کہ ایک اچھا قاری کافی حڈ تک مباحت کو سمجھ سکتا ہے۔ کتاب سے چند ایک دلچسپ جملے پیش خدمت ہیں۔ مذہبی مبالغہ آرائی پر لھکتے ہیں’’جو شے ایک مبالغہ محسوس ہوت ہے وہ اکثر محض زیادہ گہری نظر کا نتیجہ ہوا کرتی ہے‘ پھر لکھتے ہیں اسرائیل کی تاریخ خدا اور تمام انسانوں کے ڈرامے پر مشتمل تھی۔‘‘
*۔۔۔نبوت کا مقصد سنگدلی پر غالب آنا‘ تاریخ میں انقلاب لانے کے ساتھ ساتھ داخلی انسان کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
*۔۔۔ نبی بننا ایک ناخوشگوار کام ہوتا ہے۔
*۔۔۔ کوئی نبی‘ نبی ہونے اور اپنی کامیابیوں پر شداں و فرحاں نظر نہیں آتا۔
*۔۔۔ خدائے رحیم کے بغیر کائنات ایک جہنم ہے۔
*۔۔۔ انسان کا انسان ہونا ایک دوسرے پر منحصر ہے۔
*۔۔۔انسان اپنی حیوانیت کو نہیں انسانیت کو سمجھنا چاہتا ہے۔
*۔۔۔ ہمارا بڑا مسئلہ انسان ہے۔
*۔۔۔ انسان اپنے متعلق دریافت کرنے والی ذات ہے۔
انسان اور انسانیت دونوں خطرے میں ہیں اور انسانیت کو شاید زیادہ خطرات درپیش ہیں۔
*۔۔۔اخلاقی مسئلہ فقط ایک ذاتی مسئلے کے طو رپر حل کیا جاسکتا ہے۔
*۔۔۔ جب انسان خود اپنائیت بن جائے تو الواح ٹوٹ جاتی ہیں۔
*۔۔۔ انسان ہونا حیرت سے عبارت ہے کو سامنے کی بات نہیں۔
*۔۔۔ کیا انسان گورکھ دھندہ کے لیے کوئی رہنمائی موجود ہے۔
*۔۔۔ معمول سے ہٹنا ہی مسرت بخش ہے۔
اس طرح کے کئی ایک دلچسپ جملے کتاب میں مل سکتے ہیں گو کہ ان میں سے کئی ایک سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔
کتاب کے ترجمے کے حوالے سے کچھ اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ اس متن کے مطالعے میں نہیں رہا۔ جتنی باتیں اور جو مواد ترجمے کے ذریعے سے پہنچی ان سے اخذ شدہ افکار اور ان میں مسائل اپنے قاری تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اس سارے معاملے میں فلسفے کی گاڑھی اصطلاحات سے اجتناب برتا گیا کہ اصل مقصد حاصل ہو اور ایک سادے قاری تک فکر کو پہنچایا جاسکے۔
جناب قیصر شہزاد صاحب کے مقدمے میں جدیدیت پر لکھی ان کی رائے قابل قبول اور ناچیز کی رائے کے مطابق درست ہی اور محترم نے کئی ایک مقامات پر ابراھام جوشوا کے خیالات کے جواب میں اسلامی نقطۂ نظر سے اچھے جوابات یا تشریحی فٹ نوٹس بھی لکھ دیے ہیں جو کہ مسئلہ کو سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
پھر پس نوشت بھی اٹھایا گیا سوال اس دو رکا سب سے اہم سوال ہے۔ کم از کم مذہبی حلقوں کے لیے تو بہت ہی اہم ہے کہ اگر حدیث سے اس قدر مسئلہ ہے تو پھر کیوں آج کا ذہن اسی شج رکے پھل کھانے اور اسی کے چشموں سے پھوٹتا پانی پینے پر مجبور ہے؟ جو ان کیف کری مباحث کی رو سے ہر صورت زہریلا ہے۔ ناچیز کی رائے میں اسی سوال کا جواب ہی اس دور کا نسخہ کیمیا ہے۔ جو بھی اس بات کا جواب دے پایا وہی اس دور کا حکیم الامت ولی ہوسکتا ہے۔ جوشوا ہیشل کی بھی یہی کوشش تھی جو کامیاب یاکارآمد نظر نہیں آٹی۔ محترم عاصم بخشی صاح: اس بات پر خوش اور پرامید نظر آتے ہیں کہ یہ ایک نیازاویہ تو کم سے کم ضرور کھولتا ہے۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ نئے پن کی یہ تلاش یہی دراصل قدیم اور خیرالقرون کے افکار کو مضبوط ہونے سے روکتے ہیں۔ نئے پن کی روش یہ ماہیت ہی دراصل جدیدیت کی ایک غیرمحسوس ماہیت و حقیقت ہے۔ جو ہم سب میں سرائیت کرچکی ہے۔ لیکن اس کتاب میں شامل سب سے اہم سوال میری نظر میں عاصم بخشی صاحب کا یہی سوال ہے جسے انتہائی سنجیدگی سے سوچنے اور کوئی قابل عمل صورت نکالنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مذہب کا یہ زوال ہمارے معاشرے میں اس کے اختتام پر ہی منتج ہوگا۔
جوشوا ایک وجود فلسفی ہے۔ اس لیے وجودی زاویے ہی سے مذہب کا دفاع کرتے معلوم ہوئے فی زمانہ مذاہب کے ایک کلی دفاع کی ضرورت ہے۔ پاس زاویہ حل قابل قبول اور قابل عمل نہیں ہوسکتا۔ جوشوا ان تمام مسائل کا شکار ہیں وجودی فلسفہ کی خصوصیات میں شامل ہیں۔
وجودی فلسفہ کبھی کبھی زندگی لخوبت کا قائل ہوتا نظر آٹا ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی ہے کم از کم ماچیز یہی سمجھتا ہے کہ زندگی کی لغویت کو کسی بھی سطح پر یا جانا شعور کی بلوغت کو پہنچ جانے جیسا ہے۔ مگر اس لغویت میں درحقیقت ایک معنویت پوشیدہ ہے۔ اس لغویت کو پاجانے میں جو طریقہ اور زاویہ ہے وہ وہی آنے والی زندگی کا مقدمہ ہے۔ اور اسی راستے پر ہی آئندہ کا لائحہ عمل منحصر ہے۔ لغویت تو عموماً بے معنونیت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ یہ ایک مخصوص معنویت کا حصول ہے۔ مگر کن حالات‘ واقعات‘ افکار‘ کیسی علمیت اور تجربے کے نتیجے میں کوئی شخصاس مقام پر پہنچتا ہے۔ یہ اہم بات ہے۔
کتاب کھولتے ہی پہلی سطر ہے کہ مذہب جزیرہ نہیں ہوتا حس یہ قیصر صاحب کی اچھی شرح ہے۔ مگر مذہب ایک خاص معنی میں ہی جزیرہ نہیں ہوتا او رایک خاص نظر سے مذہب جزیرہ ہی ہوتا ہے جب تک مذہب جزیرہ نہ ہو تب تک اس کی انفرادیت اور خصوصیات سامنے نہیں آتے۔ اس کی جداگانہ حیثیت و مقام باقی نہیں رہتا۔ یہ ساری گفتگو کتاب کی سرورق پر لکھے عنوان انسان کون سے شروع ہوئی اور کتاب کے پہلے صفحے کی پہلی سطر یعنی مذہب جزیرہ نہیں پر ختم ہوتی ہے۔ باالفاظ دیگریہ سارا سفر سرورق سے لے کر کتاب کی پہلی سطر تک کے درمیان کی گفتگو تھی۔

حصہ