(اسازشہکرام میں مطلوب صفات پروفیسر عطیہ محمد الابرشی ترجمہ(مولانا رئیس احمد جعفری ندویؒ

278

(1) پہلے باپ یا مدرس
مدرس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے وہی محبت کرے جو ایک باپ اپنے بیٹے سے خرتا ہے او ران کے بارے میں اسی طرح فکر مند ہو‘ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ ہر تربیت دہندہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قبل اس کے کہ وہ کسی کو آدمی بنانا چاہے‘ خود آدمی بن لے۔ اپنی اولاد کو اگر کامل بنانا چاہتے ہو تو پہلے خود کامل بنو۔ اپنے بیٹوں کو اخلاق فاضلہ کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتے ہو تو خود بھی صاحب اخلاق بنو۔ اپنے بیٹوں اور شاگردوں کا احترام کرو‘ وہ تمہارا احترام کریں گے۔ بچے کی شخصیت کا احترام کرو تاکہ وہ اپنے جذبات و احسانات ظاہر کرسکیں۔
ایک مدرس اگر اپنے فن اور علم سے پورے طور پر واقف ہے تو بھی وہ کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل بچوں اور شآگردوں کی محبت سے لبریز نہ ہو۔ جو مدرسہ اطفال کی محبت سے خالی ہو وہ تلامذہ اور مدرسین کا اکھاڑہ بن جاتا ہے۔ اگر معلمین کے دلوں میں شاگردوں کی محبت نہیں ہے تو وہ اس سے بھاگیں گے‘ اس کے خلاف دل میں کینہ رکھیں گے۔ آپ اکثر دیکھیں گے کہ شروع شروع میں بچے معلم سے محبت کرتے ہیں پھر جیسے جیسے پہچانتے جانتے ہیں ‘ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں‘ مدرسہ میں آنے سے ہچکچانے لگتے ہیں۔
ولایت متحدہ امریکہ کے ایک مدرسہ کا واقعہ ہے کہ ایک مدرس نے مدرسہ کے پرنسپل کو ایک طالب علم کی رپورٹ بھیجی کہ اسے اس کے درجہ سے کسی دوسرے نیچے درجے میں منتقل کردیا جائے‘ اس لیے کہ وہ شریر اور مجرمانہ ذہنیت کا لڑکا ہے۔ یہ لڑکا بدزبان‘ بداخلاق اور روکا سوکھا تھا۔ پرنسپل نیا نیا ایا تھا‘ وہ اس لڑکے کی خانگی حالت سے ناواقف تھا‘ اس نے لڑکے کو اپنے دفتر میں بلایا اور اس سے باتیں کیں۔ اس نے سوچا‘ سزا دینے سے پہلے اس کے والدین سے بھی پوچھ تاچھ کرلینی چاہیے‘ چنانچہ وہ اس کے گھر گیا۔ ایکی چھوٹا سا گھر تھا‘ صرف دو کوٹھریاں تھیں ماں گھر میں تھیں۔ پرنسپل نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی اور لڑکے کی شکایت کی اور بتای اکہ اب وہ اس کا درجہ گرادے گا اور بید مارے گا لیکن ماں نے کچھ بھی پروا نہیں کی۔ اب وہ واپس جاہی رہا تھا کہ ایک بدصورت اور شقی آدمی آتا ہوا دکھائی دیا۔ پرنسپل کو یقین ہوگیا کہ یہی باپ ہے۔ اس نے اسے بھی تمام واقعہ کی خبر دے دی۔ باپ نے پرنسپل کے سامنے لڑکے خوب ٹھوکا اور پرنسپل کے سامنے گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ آپ یہاں آنے کی تکلیف نہ کیجیے گا آپ کو اجازت ہے‘ جب جی چاہے اس کو قتل کردیجیے۔
پرنسپل لڑکے کو اپنے ساتھ مدرسہ واپس لایا۔ یہ رنگ دیکھ کر اس کا غصہ اتر گیا اور بچے سے رحم کا برتاؤ کرنے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہوگیا اور بجائے سزا دینے کے اس سے وہ ملاطفت کا سلوک کرنے لگا۔
(2) استاد اور شاگرد
مدرس اور تلمیذ کے درمیان روحانی رشتہ اور تعلق ہونا چاہیے‘ وہی رشتہ جو باپ کا بیٹے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر مدرس اور تلمیذ کے درمیان ضرب و عقاب کا رشتہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ مدرس اپنے طلبہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے‘ وہ ان سے الگ تھلگ رہتا ہے‘ اس اندیشہ سے کہ اگر ان میں گھل مل گیا تو اپنی کرامت اور بزرگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا‘ لیکن یہ بالکل مہمل خیال ہے۔ مدرس اگر صحیح طور پر اپنے فرائض انجام دے تو واقعی وہ باپ کا درجہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس کی تعزیر میں بھی شفقت جھلکتی ہے‘ غبی اور شریر سب اس کی محبت سے سیراب ہوتے ہیں۔
جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مدرس کو باپ کا قائم مقام ہونا چاہیے تو باپ سے ہماری مراد صرف بات نہیں ہے‘ ماں باپ دونوں ہیں۔ مدرس ماں اور باپ دونوں کی نیابت کرتا ہے‘ اس میں باپ کی سختی اور ماں کی نرمی دونوں چیزیں ہونی چاہئیں۔
(3)
ہمارے دور میں ہماری سوسائٹی میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ یہ خیال کچھ عام سے ہوگیا ہے کہ بچہ طبعاً شریر ہوتا ہے اور اس کی شرارت صرف مارنے ہی سے دور کی جاسکتی ہے۔ اس کے فطری میلانات اور طفلی لذات کا قلع قمع کرنے کا واحد ذریعہ ڈنڈا ہے۔ اسی جہالت کے سبب والدین بچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اور ان سے امر محال کی توقع کرتے ہیں۔ بچپن ہی کے زمانے میں انہیں کسب معاش پر لگادیتے ہیں خواہ وہ کارخانہ کی مزدوری ہو یا کسی گھر کی ملازمت۔کیا قوم سمجھتی ہے کہ وہ کانٹے بوئے گی اور گلاب کے پھول کاٹے گی؟ ہرگز نہیں‘ وہ کاٹے گی جو بوئے گی وہ کانٹے کاٹے گی گلاب کے پھول نہیں۔
بچوں کی عدالت کے ایک امریکی جج نے مقدمہ میں اپنا فیصلہ د یتے ہوئے صاف و صریح الفاظ میں اعتراف کیا کہ ان جرائم کے اسباب میں بچوں کی عدم نگہداشت اور عدم تربیت ہی سب سے بڑا سبب ہے۔ اگر بچے کی تربیت پر پوری توجہ دی جائے‘ اسے اچھی سوسائٹی اور اچھا گھر ملے‘ اس کے معاملات مین حکمت ملحوظ رکھی جائے‘ مدرس اور تلمیذ کے درمیان محبت اور شفقت کا رشتہ ہو‘ باپ اور بیٹے کے درمیان عمدہ برتاؤ ہو‘ تو ایک شیطان رجیم بچہ بھی ملک کریم بن سکتا ہے۔
مدرس کو اپنے شاگردوں سے الگ تھلگ نہیں رہنا چاہیے‘ بلکہ ان میں گھل مل کر رہنا چاہیے۔ اگر وہ اس کے ساتھ کھیل کے میدان میں گیند کھیلے‘ باغی کی تربیت و تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹائے‘ غرض ان کے تمام اعمال میں شریک و سہیم بن جائے تو اور اچھا ہے۔ اسے یہ اندیشہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح اس کا اکرام و احترام طلبہ کے دل سے کم ہوجائے گا‘ اس لیے کہ احترام تو ایک روحانی رشتہ ہے جو اخلاص‘ اتحاد اور تعاون ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ سوچنا چاہیے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر پرنسپل مدرسین سے‘ کمانڈر فوج سے‘ مدرس طلبہ سے بے تعلق رہے تو اچھے اور خوش گوار نتائج کیوں کر مرتب ہوسکتے ہیں۔
(4) مدرس اور سوسائٹی
مدرس کو ہر قدم پر سوسائٹی کے فائدے کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسے ہمیشہ یہ محسوس کرنا چاہیے کہ تعلیم کی ہر شاخ سوسائٹی کے درخت ہی کا ایک جزو ہے۔ اس طرح مدرس اپنے طلبہ میں حب وطن اور حب قومی کے جذبات پیدا کرسکتا ہے اور اس طرح طلبہ کے ساتھ قوم اور سوسائٹی کی بھی بڑی خدمت کرسکتا ہے۔
(5) نمونہ کا مدرس
مدرس کو طلبہ کے سامنے ایک اچھا نمونہ بن کر آنا چاہیے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف مائل ہی نہ ہوسکیں۔ بچے سے بڑھ کر بہترین ناقاد کوئی نہیں اس کی نظریں بے لوث اور بے غرض ہوتی ہیں وہ وہی کہتا ہے جو اس کا اعتقاد ہوتا ہے۔ عقل و شعور کے سوا اس کا کوئی اور رہنما نہیں ہوتا۔ وہ آپ سے سچی محبت کرے گا‘ دل سے آپ کی اطاعت کرے گا‘ اگر یقین کرلے گا کہ آپا س کے مستحق ہیں لیکن پہلے اس کے بن جایئے‘ اسے ہکم نہ دیجیے‘ سمجھایئے۔
فریڈرک ولیم فروبل (1782 ء۔1850 ء)کا قول ہے:’’معلم اور تلمیذ‘ امراور اطاعت کے درمیان ضروری ہے کہ ایک حکم اور ثالث کارفرما ہو‘ جو معلم اور متعلم دونوں کے لیے یکساں کارآمد ہو‘ یہ حکم یا ثالث حق ہے‘ یعنی عدالت جو کسی حالت میں نطرانداز نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
(6) مدرس اور اخلاص
مدرس اور اس کے طلبہ کی کامیابی کا سب سے بڑا واسیلہ اور ذریعہ صرف اخلاص ہے۔ سبق پڑھانے کی تیاری نہ کرنا اور درجہ میں تعلیم دینے کے لیے پہنچ جانا اخلاص نہیں‘ یہ تضیع اوقات ہے جس سے طلبہ کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ وقت مقررہ پر مدرس اگر درجہ میں نہ پہنچے تو اس سے بھی طلبہ کو کوفت ہوتی ہی او ران میں بددلی پیدا ہوتی ہے‘ مدرس کو اپنے طلبہ کے سامنے حفظ اوقات کا خاص طو رپر خیال رکھنا چاہیے۔ اور درجہ میں فرض کیجیے چالیس طالب علم ہیں تو گویا مدرس نے پانچ نہیں دو سو منٹ ضائع کیے۔
مدرس کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس کا کام ناتمام نہ ہو اور وہ اپنے فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مجرم نہ ہو‘ اس سے تعلیم کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اور درجہ کھیل کا میدان بن جات اہے۔ جہاں تعلیم کی آواز نہیں گونجتی‘ ہنگامہ اور شوروغل سے کان میں پڑی آواز نہیں سنائی دیتی‘ جس کا جی چاہتا ہے کھیلتا ہے‘ کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے سے گندے مذاق کرنے لگتے ہیں‘ جس سے مدرسہ اور درجہ کا ضبط و نظم بالکل ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔
(7) مدرس اور زندگی
مدرس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدرسہ کے باہر کی زندگی‘ سیاست ‘ اجتماعیت ‘ ادبیت‘ علمیت اور فنیت سے پورے طور پر آشنا ہو‘ تاکہ وہ اپنے طلبہ کی زندگی سنوارسکے۔ انہیں آئندہ زندگی کے لیے تیار کرسکے‘ اگر وہ خود ان چیزوں سے بے بہرہ ہے تو اپنے شاگردوں کو کیا بنائے گا؟
مدرس اگر یہ چاہتاہے کہ تلامذہ کے نفوس میں اس کی بتہ زیادہ عظمت و منزلت ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ امور حیات کا راز داں ہو‘ عالموں‘ لیڈروں ‘ فنکاروں‘ ادیبوں‘ شاعروں‘ افسانہ نویسوں کے احوال و کوائف سے پورے طو رپر واقف ہو۔ ایک مدرس کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ خارجی زندگی سے واقف ہو‘ اسی طرح اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ داخلی زندگی سے بھی پور ے طور سے آشنا ہو۔ وہ اپنے ملک کے حالات سے واقف ہو‘اس کی قدیم و جدید تاریخ سے واقف ہو‘ اس کی صنعت و زراعت سے بھی واقف ہو‘ اس کی تجارت اور سیاست بھی اس کی نظر سے اوجھل نہ ہوں‘ تاکہ وہا پنے تلامذہ کے افکار میں پختگی اور ہمواری پیدا کرسکے۔ حیات خارجی و داخلی کے معاملات و مسائل کی طرح مدرس کو حیات علمی سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھنا چاہیے۔ اسے ہوائی اڈہ‘ جہاز‘ سرنگ‘ بم ‘ آبدوزکشتی‘ توپ اور گولے‘ بجلی اور دھواں کی طاقت ‘ علم و ایجادات سے بھی کچھ نہ کچھ واقف ہونا چاہیے۔ تاکہ اگر طلبہ میں اس سے کوئی اس قسم کے معاملات پر اس سے سوال کر بیٹھے تو وہ گونگا نہ ثابت ہو۔
(8) ٹریننگ کالج
ٹریننگ کالج سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد ایک مدرس یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب اس کی تعلیمی زندگی کا دور ختم ہوگیا۔ اسے جاننا چاہیے کہ علم کی کوئی آخری حد ہے ہی نہیں‘ بلکہ مدرسہ سے نکلنے کے بعد ہی طالب علم کا اصل زمانہ شروع ہوتا ہے۔ مدرسہ تو صرف راستہ کھول دیتا ہے‘ اب راہ روی خود آپ کا کام ہے‘ لہٰذا ضروری ہے کہ علم اورمعلومات کے حصول میں ہمیشہ آدمی لگارہے تاکہ فکر کا دروازہ بند نہ ہو۔ علم و اطلاع‘ بحث و تجربہ اور خبر نظر کی طرف دلچسپی کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔
انگلستان کے مدرس صرف کالج کی تعلیم اور تجربات پر اکتفا نہیں کرتے‘ سالانہ تعطیلات کے زمانہ میں ہر سال دو ہفتے یا ایک مہینے کے لیے موسم بہار کے مدارس میں شرکت کرکے تعلیم و تربیت پر اہم لیکچر سنتے اور اپنی معلومات بڑھاتے رہتے ہیں۔ علم النفس میں مزید درک حاصل کرتے ہیں اور غیرملکی زبانوں کو سیکھ کر ان کے لٹریچر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو‘ اگر معلمین کو زیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کی جائے۔
مدرس اگر کتب خانوں‘ لائبریوں اور عام لیکچروں سے استفادہ کا عادی ہو اور مطالعہ کتب جدیدہ کا خوگر ہو تو بھی اسے کافی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘ اور اس س فائدہ سے وہ اپنے طلبہ کو بھی خاطر خواہ فائدہ پہنچاسکتا ہے۔
(9) مدرس کی توجہ
مدرس کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ مدرس ہے‘ اسے مرتب اور مہذب ہونا چاہیے‘ بغیر اس کے وہ کامل مدرس نہیں بن سکتا‘ اسے تعلیم پر قادر ہونا چاہیے‘ اپنے ادارہ کا ایک بہترین انسان بننا چاہیے‘ اپنے کام میں حکمت عملی کا خوگر ہونا چاہیے۔
تربیت و تعلیم کی جدید روح اور اصول سے بھی مدرس کو پوری طور پر واقف ہونا چاہیے‘ مثلاً
-1 طلبہ میں تعاون کی روح پیدا کرنا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں اور استادوں سے تعاون کرسکیں۔
-2 تعلیم اور عمل میں ربط پیدا کرنا چاہیے۔
-3 خوامخواہ زجروتوبیخ سے کام نہ لینا چاہیے۔
-4 تلمیذ کو اعتماد نفس کے جذبہ سے آشنا کرنا چاہیے۔
-5 شاگر کو عمل کا شوق دلانا چاہیے۔
-6 تلامذہ کی طبیعتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔
-7 زندگی اور دنیا کے معاملات ومسائل سے اس کا قریبی رشتہ قائم ہو تاکہ وہ اپنے طلبہ کے سامنے کسی مسئلہ میں اپنی کم علمی کے سبب خاموش نہ رہے۔
-8 علم سے غیرمعمولی شغف رکھتا ہو۔
-9 فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہ نہ ہو‘ سختی کے موقع پر سختی اور نرمی کے موقع پر نرمی کرتا ہو لیکن اس کی سختی میں قسادت نہ ہو اور اس کی نرمی ضعف کے سبب نہ ہو‘ حکمت عملی سے کام کرنے کا عادی ہو۔
-10 تربیت جدیدہ کے اصولوں سے واقف ہو۔
-11 عزم اور ارادہ کا قوی ہو۔
-12 توانا و تندرست ہو۔
-13 حاضر جواب‘ صائب الرائے‘ وسیع النظر اور واضح الخیال ہو۔
-14 برے کاموں سے مجتنب رہتا ہو‘ رکیک باتوں سے دور رہتا ہو‘ تاکہ احترام و اجلال کا سزاوار بن جائے۔
-15 حلیم و بردبار ہو‘ کشادہ قلب ہو‘ صبر و برداشٹ کی قوت رکھتا ہو‘ نفس و شعور کو ضبط و نظم کا خوگر رکھ سکتا ہو‘ ذرا سی بات پر بھڑک نہ جاتا ہو‘ معمولی باتوں سے متاثر نہ ہوجاتا ہو۔
-16 زبان پر پوری قوت رکھتا ہو تاکہ اپنے خیال کی صفائی کے ساتھ وضاحت کرسکتا ہو اور اپنا مفہوم اچھی طرح سمجھ سکتا ہو۔
-17 طلبہ کو خود کام کرنے کا اہل بنانے کا جذبہ رکھتا ہو‘ ان کی صرف اسی وقت مدد کرتا ہو جب وہ خود طالب امداد ہوں۔

حصہ