محمود عالم صدیقی

222

فاضل مصنف نے چند کتابیں نمونے کے طور پر پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر کو بھی بھیجی تھیں‘ جس کے توسط سے یہ کتابیں بنگلہ دیشی حکومت کو موصول ہوئیں، ڈاکٹر جنید احمد کی اس کتاب نے بنگلہ دیش، بھارت اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ایک ہلچل مچادی ہے اور پاکستان اور مصنف، قاتل بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کے وزیر طفیل احمد کے غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ انہوں نے فروری کے دوسرے ہفتے میں پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دل کھول کر ہرزہ سرائی کی اور کتاب کی اشاعت کو پاکستان کے اور اس کے فوجی ادارے آئی ایس آئی کی سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے خلاف پاکستانی پروپیگنڈا کی نئی کوشش ہے۔ پارلیمنٹ میں غیرطے شدہ ایجنڈے سے ہٹ کر تقریر کرتے ہوئے حسینہ واجد نے کہا کہ بنگلہ دیش پاکستان کے خلاف اس اقدام پر باضابطہ سرکاری طور پر سخت احتجاج کرے گا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا کہ پاکستان کو ایسی کتاب لکھنے اور اسے ہمارے ہائی کمشنر کو یہ کتاب بھیجنے کی جرات کیسے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ۲۵ مارچ کو نسل کشی کا دن منائے گی‘ جب پاکستان کی قابض فوج نے بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی نسل کشی شروع کی تھی جبکہ اس کتاب میں اس نسل کشی کو جھٹلایا گیا ہے اور پاکستان کی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں اور عورتوں کی بے حرمتی کی تعداد کو مبالغہ آمیز حد تک کم کرکے پیش کیا گیا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کے دوران بے پناہ مصائب اور تکالیف کا سامنا کیا، جان و مال کی بیش بہا قربانیاں دیں لیکن تکلیفوں اور قربانیوں کا یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا سب سے زیادہ المناک سانحہ ہے‘ جس سے نہ صرف ملک کے جغرافیائی علاقوں کے چھن جانے کا دکھ بلکہ خاندان، ملکی یکجہتی، باہمی اعتماد، عزت و وقار اور اپنی شناخت کھودینے کے احساس نے لوگوں کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ اور ماؤف کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ کبھی مندمل نہ ہونے والا وہ زخم ہے جس کی کسک سے دل خون کے آنسو روتا ہے بلکہ اس کے ساتھ احساسِ زیاں، ندامت، ناکردہ جرائم کے ناواجب الادا الزامات کے پچھتاوے اور دکھ بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر جنید احمد کی تازہ تصنیف بنگلہ دیش کا قیام تصور سے بھیانک انجام تک (Creation of Bangladesh: Myths Exploded) پاکستان کے خلاف سدا کی بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرنے والی اور جھوٹے بھارتی اور عالمی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتی ہے اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے بارے میں اصل حقائق دستاویزی ثبوتوں اور شہادتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
یہ کتاب، مشرقی پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کے جنم کے پس پردہ اصل حقائق کے انکشافات کے ساتھ ساتھ نئے معروضی اور تحقیقی پہلوؤں اور زاویوں کو سامنے لائی ہے۔
یہ تصنیف اس المیے میں شریک اداکاروں، ان کی سازشوں، ان کی ناکامیوں اور ان کے نقائص کا ادراک کرتے ہوئے تاریخ وار روشنی ڈالتی ہے جن کی بداعمالیوں یا کرتوتوں کے کارن سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی خونی تخلیق اور پاکستان کے موافق اور متحارب فریقوں کے جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے نے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بری طرح مجروح کرتے ہوئے نسل کشی کی آگ بھڑکانے کے جھوٹے بہتان عائد کرکے اس کی تاریخ کو داغدار رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب ان غلط فہمیوں اور پوشیدہ سچائیوں کو بے نقاب کرنے کی منفرد کوشش ہے جن کی وجہ سے بنگلہ دیش کی تخلیق کے دوران پیش آنے والے واقعات میں پاکستان پر بنگالیوں کے خلاف ہولناک مظالم کا ارتکاب کرنے کا انتہائی غیرمنصفانہ لیبل چسپاں کرکے اس دور کی پوری تاریخ کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔
مستند حقائق اور ستم زدہ مظلوموں اور عینی شاہدوں کے بیانات کے بل بوتے پر یہ کتاب اس بدگمانی کو یکسر رد کردیتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ کے دوران پیش آنے والے خوفناک واقعات میں خون کی ہولی کھیلی گئی اس میں غیربنگالیوں کو کوئی زک نہیں پہنچی۔ ڈاکٹر جنید احمد کی اس تصنیف نے جو بھرپور اور واضح تحقیقی دلائل کی مدد سے ترتیب دی گئی ہے، بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں حیران کن طریقے سے کھرا سچ عیاں کردیا ہے جس نے جھوٹ اور سچ میں تمیز کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کرکے رکھ دیا ہے۔
بنگلہ دیش کا جنم۔ ایک ہولناک سانحہ
۱۶ ؍دسمبر ۱۹۷۱ء کے منحوس دن چونتیس ہزار پاکستانی فوجیوں نے بنگلہ دیش میں ہتھیار ڈال کر متحدہ پاکستان کے خواب کو چکنا چور کردیا گیا۔ یہ صرف ایک عسکری محاذ پر ہی ناکامی نہیں تھی بلکہ تمام محاذوں پر سب کی ناکامی تھی۔سیاستداں‘ متنوع پاکستانی طبقوں میں یکجہتی برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ ابلاغ عامہ کا شعبہ‘ ہندوستان اور اس کے حواریوں کے مکروہ پرو پیگنڈے کی مہم کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ پاکستان کے سفارتکار ۱۹۷۱ء کے سیاسی بحران کے بارے میں دنیا کے سامنے پاکستان کا مؤقف پیش کرنے میں ناکام رہے اور ملکی دفاع کرنے والے‘ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف نظریاتی اور علاقائی سرحدوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے۔
اب جبکہ اس سانحے کو گزرے ہوئے پینتالیس برس سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان پر ایک قوم کی حیثیت سے اپنی تقسیم کے سانحے کا اثر ابھی تک باقی ہے۔ ہر سال ۱۶ ؍دسمبر کی تاریخ غم افسوس اور احساسِ جرم کے جذبات پھر تازہ اور زخم پھر ہرے ہوجاتے ہیں۔ اب بھی ہم میں سے کئی اپنی فاش غلطیوں کا ماتم کرتے ہیں۔تاہم بحیثیت قوم‘ مشرقی پاکستان کی جدائی کا صدمہ سہنے کے سوا ہم نے اپنی تاریخی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا جبکہ عظیم قومیں اپنے ماضی سے اکتساب کرتی ہیں۔ ہماری خام سیاسی اور سفارتی حکمت عملیاں بدستور ہمارے قومی مفادات کا تحفظ کرتی نظر نہیں آتیں جس کی وجہ سے پرانے دشمنوں کو دوبارہ اور نئے قومی‘ علاقائی اور عالمگیر دشمنوں کو پاکستان کی سالمیت‘ خود مختاری اور وجود کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے کا موقع مل گیا ہے۔
۱۹۷۱ء کے بعد سے اس بارے میں پوری دنیا سے کئی دانشوروں ‘ ماہرین تعلیم‘ عسکری شخصیات‘ صحافیوں ‘ سفارتکاروں اور سیاستدانوں نے تحریری طور پر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بارے میں ایک جامع نقطہ نظر اور حقائق ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے ہیں۔ اس تصنیف کے ذریعے یہ کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں ایک جامع اور متوازن تصویر دنیا کے سامنے آئے۔ پاکستان ۱۶ ؍دسمبر ۱۹۷۱ء کو یکایک تقسیم نہیں ہوابلکہ حالات اور واقعات کا ایک تسلسل ہے جن کی وجہ سے اس کی تباہ کن تقسیم عمل میں لائی گئی۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کے ذریعے ان تاریخی‘ سماجی‘ کلیدی ‘ سیاسی‘ معاشی اور نظریاتی بنیادوں کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو پاکستان جیسے معجزے کے خاتمے کے دن کا سبب بنیں۔
اس کے علاوہ پاکستان اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے کی غرض سے بھارت اور اس کے ایما پر بنگلہ دیشی حکومت نے ذہنی طور پر جو فرضی واقعات تخلیق کیے اور ان کا پرو پیگنڈہ کیا اور دنیا بھر میں اس کو پھیلایا۔ یہ کتاب ان کے بارے میں ایک جامع نقطہ نظر فراہم کرتی ہے۔ یہ کتاب آٹھ ابواب اور کئی ضمیموں پر مشتمل ہے۔
کتاب کے ابواب کی تلخیص۔ ایک تجزیاتی جائزہ
پہلا باب تعارفی ہے جس میں بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں تشہیر کیے گئے مختلف مفروضوں اور تصورات اور تمثیلیں اور اصل حقائق سامنے لائے گئے ہیں اور مختلف تخیلات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے مثلاًیہ کہ اگر تلہ کے مقدمے کو ایک سازش گرداننا اور مکتی باہنی کو ایک رجعت پسند قوت ( جبکہ در حقیقت وہ سب بنیادی طور پر دہشت گرد تھے) کی حیثیت سے کس طرح دیکھاجائے او رکیسے بھارت کے ساتھ جنگ شروع کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا۔دوسرے فرضی قصے جیسے افواج پاکستان کے ہاتھوں تیس لاکھ بنگالیوں کی ہلاکت اور بنگلہ دیش میں ترانوے ہزار پاکستانی فوجیوں کا بطور جنگی قیدی گرفتار ہونا ان سب مفروضوں اور فرضی حکایتوں کو دلیلوں سے غلط ثابت کیا گیا ہے۔ باقی ابواب میں ان میں سے ہر ایک مفروضے یا فرضی حکایت یا دیگر پر تفصیلاً غور‘ تجزیہ اور بحث کی گئی ہے۔
دوسرے باب میں قیام پاکستان کے بارے میں تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ہندوؤں اور برطانیہ نے پاکستان کا ادراک کس طرح کیا۔ یہ ہندوؤں کے اس یقین کا شاخسانہ تھا کہ پاکستان اکھنڈ بھارت کا پیدائشی اور جڑا ہوا حصہ ہے اور وہ یقینی طور پر ہندوستان سے آملے گا اور ہندوستان پاکستان دوبارہ ایک ہوکر پہلے کی طرح پورا غیر منقسم ہندوستان ہوجائے گا۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی بے شمار دشمنوں نے پاکستان کا قیام عمل میں آتے ہی اسے تباہ و برباد کرنے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔ ان دشمنوں میں صرف ہندو قوم پرست جماعتیں ہی نہیں تھیں بلکہ ہندوستان تمام اسلامی اور مسلم جماعتیں بھی ان میں شامل تھیں۔ پاکستان کا دو لخت ہونا ان دشمنوں کی کامیابیوں میں سے ایک تھی۔
تیسرا باب پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ کی ابتدا کے بارے میں ہے۔ جس میں ان تمام واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو مشرقی پاکستان کے باشندوں کے ایک علیحدہ وطن کے مطالبوں سے متعلق تھے قومی زبان کے مسئلے ‘ اقتصادی محرومی‘ حکومتی تعصب اور جانبداری اور دوسرے مسائل کی مکمل تصویر، مشرقی اور مغربی پاکستان کے مابین اقتصادی تفاوت کو دور کرنے کی حکومتی کوششوں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کی تفصیل اور اس کے بارے میں حقائق بھی پیش کیے گئے ہیں۔
چوتھے باب میں بھارت کی ریشہ دوانیوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس میں بھارت کا کچا چھٹا کھولتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اس سارے ڈرامے میں کٹھ پتلیوں کو نچانے والے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ وہ کس طرح سکم ‘جونا گڑھ ‘ حیدر آباد اور کشمیر کی ریاستو ں پر قابض ہوا اور وہ اپنے تمام پڑوسی ملکوں نیپال ‘ بھوٹان اور سری لنکا کو اپنا اطاعت گزار بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے معاملے میں اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارتی کردار کے بارے میں تفصیل سے بھارت کی خارجہ پالیسی اس کے مجیب اور مکتی باہنی سے تعلقات اور بنگالیوں کی طر ف سے علیحدگی کے لیے عملی مدد طلب کرنے پربھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی را (RAW)کے پیش پیش ہونے پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیاہے کہ بھارت نے مکتی باہنی کے دہشت گردوں کے ایک سو اسی ۱۸۰ تربیتی کیمپ قائم کر ررکھے تھے۔پاکستان کے خلاف جاسوسی اوور دہشت گردی کی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی تھیں اور پچاس ہزار سے زیادہ بھارتی فوجی مکتی باہنی کے دہشت گردوں کا کھل کر ساتھ دے رہے تھے۔
پانچویں باب میں ۱۹۷۱ء کی بغاوت اور ان حالات کاذکر کیا گیا ہے جو پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا سبب بنے۔ مختصراً پاکستان کے ۱۹۷۰ کے انتخابات اس کے اثرات اور نتائج اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح یحییٰ‘ بھٹو اور مجیب کی طاقتور مثلث نے رونما ہونے والے واقعات کو سامنے لانے میں کیا کردار ادا کیا ہے جن کے نتیجے میں بالآخر بنگلہ دیش قائم ہوکر رہا۔اس باب میں آپریشن سرچ لائٹ اور اس کے نتائج اور ۱۹۷۱ء کی جنگ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس باب میں بھارت کی بے جا مداخلت اور پاکستانی سیاستدانوں کی ان فاش اور تباہ کن غلطیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے‘ جن کے نتیجے میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور شرم اور بدنامی سے دوچار ہوا اس بات کے آخر میں ملک میں اور باہر اقوام متحدہ میں بھٹو کے کردار ‘ پاکستانی انتظامیہ کی غلطیوں اور ہندوستان کی سفارتی اور ابلاغی مہمات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے‘ جو پاکستان کی تقسیم کے عمل کی تکمیل میں پس پر دہ اپنا اپنا کردار ادا کررہی تھیں۔
چھٹے باب میں مکتی باہنی کے وحشیانہ مظالم کا ذکر ہے۔ اس میں مکتی باہنی کی دہشت گرد کاروائیوں اور مظالم کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے جو اس نے ہندوستان کی مدد سے کیے۔اس باب میں مکتی باہنی کی دہشت گردی کی کاروائیو ں کے تفصیلی واقعات پیش کیے ہیں اور ان مظالم کا انکشاف بھی کیا گیا ہے جو مکتی باہنی نے بھارتی امداد سے کیے تھے۔ ہندوستان نے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بے گناہ بنگالیوں کی اموات کی تعداد کو جس طرح بڑھاچڑھا کر پیش کیاہے‘ اس باب میں اس کی تردید کرنے کے ساتھ ساتھ مکتی باہنی کے ہاتھوں مغربی پاکستان کے شہریوں پر بے رحمانہ ا ور بے دریغ قتل عام کے بارے میں حقائق پیش کیے گئے ہیں اور ان واقعات کے ثبوت کے طور پر قابل اعتماد بنگالی‘ بھارتی اور مغربی ذرائع سے شہادتیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
ساتویں باب میں ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی تقسیم کے بعد کے حالات بیان کیے گئے ہیں اس باب میں بنگلہ دیش کے قیام کے بارے میں مختلف ملکوں کے رد عمل ‘ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک اور ہندوستان کا اپنی چالبازیوں کے ذریعے بنگالیوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا اور انہیں اپنے قابو میں رکھنے کے عمل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ باب کے آخر میں بھٹو کے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے سیا سی طور پر خود غرضانہ اور غیر محب وطن عمل کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے‘ جس نے قوام متحدہ کی مطلوبہ رکنیت کے لیے بنگلہ دیش کے وجود کا قانونی طور پر جواز پیدا کردیا۔
آٹھویں باب میں پاکستان کی خون آلود اور داغدار شہرت کی بحالی کے لیے اقدامات اور ۱۹۷۱ء کی آفت زدہ بپتا سے متاثرہ بنگالیوں اور پاکستانیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بھارتی اور بنگلہ دیشی حکومتوں نے کئی موقعوں پر پاکستان اور ۱۹۷۱ء اس کے کردار کے بارے میں ایسے مخالفانہ بیانات جاری کیے تھے‘ جن کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو بدنام اور برا ثابت کرنا تھا۔اس باب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت اور اس کی قائم کردہ نام نہاد جانبدار عدالتوں نے پاکستان کا ساتھ دینے والے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے ساتھ جو ظالمانہ اور سنگدلانہ سلوک کیا ان کے بارے میں حقائق سامنے لائے جائیں اور ان کے ہاتھوں مقامی اور بین الاقوامی سطح پر جنگ آزادی کی دفعات کی جو صریحاً خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ ان کا انکشاف کرکے ان کی زیادتیوں کو سامنے لاکر تدارک کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے۔
یہ کتاب ایک مستند، متوازن اور مکمل تاریخی دستاویز ہے۔
اس کتاب میں ۱۹۷۱ء کے المیے کے بارے میں ایک متوازن اور مکمل دستا ویز مہیا کرنے کے لیے ایک جامع طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔
اس تحقیقاتی کام میں اصل اور براہ راست اور قانونی دونوں ذرائع سے کام لیا گیا ہے ایک بہتر تفہیم کے لیے بنگلہ دیش ‘ہندوستان اور پاکستان تینوں ملکوں میں لکھی جانے والی تحریروں اور بیانات کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ ۱۹۷۱ء کے سانحے کے بارے میں ہندوستانی اور بنگالی فوجی افسروں ‘ جنگجوؤں ‘ سیا ستدانوں اور دانشوروں کی تصنیف شدہ کتابوں کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے تاکہ اس بارے میں ان کے مؤقف کو سمجھا جا سکے۔ پاکستانی سپاہیوں‘ فوجی افسروں ‘ پاک فضائیہ اور بحریہ کے ارکان، شہریوں اور دانشوروں کے انٹرویو بھی حاصل کیے گئے تاکہ مشرقی پاکستان میں ان کے تجربے اور مشاہدات کے بارے میں میں براہ راست معلومات حاصل ہوسکیں۔مستند معلومات کے حصول کی خاطر معاہدوں‘ سرکاری رپورٹوں‘ قرطاس ابیض اور پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مابین سمجھوتوں کے اصل متن بھی حاصل کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں بین الاقوامی نکتہ نظر اور مؤقف جاننے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں‘ سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی کاروائیوں کا بھی مطالعہ کیا گیا ہے۔ مکمل طور پر معتبر حقائق کے حصول کے لیے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے ارتکاب کردہ بہیمانہ جرائم کے خلاف جو رپورٹس(FIR) درج کی گئی تھیں۔ ان کی نقول بھی حاصل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قومی اخبارات پاکستان آبزور‘ ڈان ‘ جنگ‘ ہندوستانی اخبارات ‘ ٹائمز آف انڈیا ‘ لندن ٹائمز ‘ وال اسٹریٹ جنرل ‘ نیوز ویک‘ ٹائمز‘ اور اکنامسٹ جیسے معروف اخباروں کا تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے تاکہ ۱۹۷۱ء کے پیچیدہ مسئلے کوجامع طور پر سمجھا جاسکے۔ ایک تفصیلی اور عمیق طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے مصنف نے اس کتاب کے ذریعے یہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کی تباہ کن ٹوٹ پھوٹ کے بارے میں ایک تازہ اور جامع تحریر سامنے لائی جاسکے۔
فاضل مصنف نے اصل اور اہم دستاویزات مصدقہ معلومات اور پوشیدہ حقائق کے حصول کے لیے بڑی تگ و دو کی اور آخر میں ضمیموں کی شکل میں کشمیر، سقوطِ ڈھاکہ اور بنگلہ دیش، پاکستان اور انڈیا کے مابین سہ فریقی سمجھوتے کے مسودات کتاب میں شامل ہیں۔ یحییٰ خان کا وہ حلف نامہ بھی جو انہوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ۲۹ مئی ۱۹۷۸ء میں رٹ پٹیشن کے طور پر جمع کرایا تھا اور ۵۷ صفحات پر مشتمل ہے‘ اس میں شامل ہے۔ جس میں انہوں نے حلفیہ طور پر سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کے دور کے سارے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ یہ کتاب تاریخ پاکستان کے ضمن میں ایک اہم دستاویز ہے، یہ کتاب دسمبر ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی ہے، اب اس کا اردو ترجمہ بھی جلد آرہا ہے جو خاکسار کررہا ہے۔ کتاب کم و بیش ۵۳۶ صفحات پر مشتمل ہے اور ایک ہزار (۱۰۰۰) کی تعداد میں شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے ناشر و طابع اے جے اے پبلشرز، این ایم سی انٹرپرائز ہیں ‘جن کا دفتر پی آئی ڈی سی ہاؤس کی پہلی منزل پر واقع ہے۔
nn

حصہ