سابق چیف جسٹس آف پاکستان سجاد علی شاہ

212

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سجاد علی شاہ انتقال کرگئے۔ آپ گزشتہ کچھ روز سے علیل تھے اور ایک نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ بدھ کی صبح ڈیفنس کی امام بارگاہ میں ان کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد سپرہائی وے پر واقع وادی حسین قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔
سجاد علی شاہ 1933ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں چیف جسٹس آف پاکستان منتخب ہوئے اور انہوں نے 1994ء سے 1997ء تک پاکستان کے تیرہویں چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ اس سے قبل انھیں 1989ء میں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا اور تقریباً ایک سال کے بعد ترقی دے کر سپریم کورٹ بھیج دیا گیا تھا۔ سابق صدر غلام اسحاق خان نے جب 1993ء میں میاں نوازشریف کی حکومت کو آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کیا تو سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کی اور حکومت کو بحال کردیا۔ 11 رکنی بینچ میں سجاد علی شاہ واحد جج تھے جنھوں نے حکومت کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کی تعیناتی کی منظوری دی، جس کے بعد ان پر یہ الزام لگا کہ دو سینئر ججوں کی موجودگی کے باوجود وزیراعظم نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس تعینات کیا۔ تاہم جب صدرِ پاکستان فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا تو اُس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس چھے رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے ان الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھا۔1997ء میں جب سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت کی تو مسلم لیگی کارکنوں نے عدالت پر دھاوا بولا، اُس وقت بھی سجاد علی شاہ ہی چیف جسٹس تھے ، اور فریقین میں اختلافات کی ایک وجہ چیف جسٹس کی خواہش کے برعکس خصوصی عدالتوں کا قیام بھی بنا تھا۔
1997ء میں میاں نوازشریف کے دورِ حکومت میں جب پاکستان کے آئین میں 13ویں ترمیم کرکے صدرِ مملکت سے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات چھین لیے گئے تو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ان اختیارات کو بحال کیا تھا۔ تاہم اسی دن ایک دوسرے بینچ نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی سربراہی میں ان اختیارات کو معطل کردیا اور اس فیصلے سے سجاد علی شاہ کے نہ صرف وزیراعظم بلکہ عدلیہ سے بھی اختلافات سامنے آگئے تھے۔ ان حالات میں عدالت عظمیٰ بظاہر منقسم نظر آئی اور بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور مزید احکامات تک انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا، اور بعد میں 10 رکنی بینچ نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن مسترد کردیا۔ سجاد علی شاہ کے بعد اجمل میاں کو چیف جسٹس بنایا گیا اور کچھ ماہ بعد سعید الزماں صدیقی اس عہدے پر تعینات کیے گئے، جن پر میاں نواز شریف کی آخری وقت تک نظرِ کرم رہی۔ سجاد علی شاہ اپنی پنشن اور مراعات سے بھی محروم رہے اور 2009ء میں جب انھوں نے اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے حکومت کو حکم دیا کہ سجاد علی شاہ کو پنشن ادا کی جائے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ میں آج بھی دیگر چیف جسٹسز کے ساتھ سجاد علی شاہ کی تصویر موجود ہے باوجود اس کے کہ اسی عدالت نے انھیں اس عہدے سے سبکدوش کردیا تھا۔

حصہ