(بھارت سے دوستی خود فریبی (ہے اے۔اے۔سیّد

226

فرائیڈے اسپیشل: اس وقت کشمیر میں پاپولر uprisingشورش کی کیفیت ہے۔ خود بھارت کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا کی زیر قیادت سرکاری وفدکے دورے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی نوجوان نسل خوف سے بے نیاز ہوگئی ہے۔ بھارت نے زمینی حقائق کا ادراک نہ کیا تو 2017ء اور 2018ء میں جموں وکشمیر کے حالات تباہ کن رخ اختیار کرسکتے ہیں، اس صورت حال پر آپ کا کیا خیال ہے؟
عبدالرشید ترابی:1947ء میں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کیا، جب سے جہاد جاری ہے اور ایک تہائی کشمیر آزاد ہوگیا۔ بھارت خود اقوام متحدہ میں گیا، سلامتی کونسل کی قراردادیں منظور ہوئیں، بھارت نے پوری دنیا اور کشمیریوں کے ساتھ وعدہ کیا کہ کشمیری جو فیصلہ کریں گے اُس کو قبول کریں گے۔ اس کے بعد ہمیشہ انہوں نے کوشش کی کہ وقت حاصل کریں اور حالات کو تبدیل کرکے اپنے حق میں لے جائیں۔ جتنے تجربات انہوں نے کیے ہیں، ابھی تک تو انہیں ناکامی ہوئی ہے۔ گزشتہ 26،27 سال سے جو تحریک چل رہی ہے اس کو کچلنے کے لیے انہوں نے طاقت کا استعمال کیا۔ دنیا کی بدترین ریاستی دہشت گردی اگر کہیں ہورہی ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر ہے۔ آٹھ لاکھ سے زیادہ فوج کشمیر میں تعینات ہے، بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔ استعمار کے جتنے ہتھکنڈے آپ کو نظر آئیں گے ان سب کا ریکارڈ بھارت نے توڑا ہے، اور پچھلے آٹھ مہینے سے عمومی قتل عام کے ساتھ پیلٹ گن کا استعمال ہورہا ہے۔ یہ سارے حربے جو بھارت نے استعمال کیے ہیں ان کا ہدف یہی تھا کہ کشمیری نوجوان دب جائیں، اور خاص طور پر نوجوان جس عزم کے ساتھ اٹھے ہیں وہ مایوس ہوجائیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اسی جذبے کے ساتھ یہ تحریک موجود ہے، جس کا اعتراف یشونت سنہا جو بی جے پی کے مرکزی رہنما ہیں، بھارت کے وزیر خارجہ رہے، ایک کمیٹی لے کر خود آئے اور انہوں نے کئی دورے کیے اور لوگوں سے ملے۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔ ان کے ایک اور مرکزی وزیر نے بھی یہ بیان دیا ہے کہ ہم کشمیر کھوچکے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق ہیں۔ اور وہ فاروق عبداللہ جس کے والد کی غلطی کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا، وہ بھی اب بولنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ بھارت کو آنکھیں کھولنا ہوں گی اور اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ لیکن بھارت یہ سمجھتا ہے کہ طاقت اور تشدد سے ہم جو بھی کریں، ہمیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس صورت حال میں بین الاقوامی سطح پر جو دباؤ اُس پر ہونا چاہیے وہ موجود نہیں ہے۔اس کے باوجود بھارت دفاعی پوزیشن پر ہے، ہر جگہ اس کو صفائی پیش کرنا پڑ رہی ہے۔ اس لیے جو ماحول بنا ہوا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی چیف آف اسٹاف نے جس طرح سے دھمکی دی ہے کہ پاکستان کا جھنڈا کسی نے لہرایا اُس کو بھی ہندوستان کا دشمن سمجھ کر سلوک کیا جائے گا۔ مجاہدین کے خلاف جب فوج آپریشن کرتی ہے تو آبادی کی آبادیاں اس جگہ کو گھیر لیتی ہیں، مجاہدین کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں۔ اس پر بھی انہوں نے سخت وارننگ دی ہے کہ یہ عمل برداشت نہیں۔ بھارت کے حربے اپنی جگہ، لیکن کشمیری پُرعزم ہیں۔ انہوں نے قربانیاں دے کر ایک ماحول پیدا کیا ہے، اب ذمے داری حکومتِ پاکستان کی ہے، پاکستانی فوج کی ہے، پاکستان کی سیاسی قیادت کی ہے، کہ وہ کشمیریوں کی بھرپور پشتی بانی کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بڑے عزم اور حوصلے سے بھارت کا مقابلہ کیا ہے اور قربانیاں دی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کا کیا کردار رہا؟ آزاد کشمیر ، کشمیر کی تحریک آزادی کا بیس کیمپ ہے، لیکن عام خیال یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی یہ کردار ادا نہیں کرسکے۔ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
عبدالرشید ترابی:1947ء میں آزاد کشمیر کے لوگوں نے ایک مرحلے پر بڑی قربانیاں دی ہیں اور ایک عظیم الشان جہاد کی تحریک آزاد کشمیر کے لوگوں نے برپا کی، اور ان کا ساتھ دیا اُس وقت کے قبائلی عوام نے۔ اس کے نتیجے میں ایک بڑی کامیابی ہم نے حاصل کی۔ اس کے بعد ہماری بدقسمتی ہے کہ آزاد کشمیر کو ہماری سیاسی قیادت نے اپنی جنگِ اقتدار کا اکھاڑا بنالیا ہے۔ اس میں جہاں ہماری آزاد کشمیر کی قیادت قصوروار ہے، وہیں پاکستان کی حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ ’’بیس کیمپ‘‘ کا تصورقائداعظم کا وژن تھا، انہوں نے اپنی حیات میں ریاست آزاد کشمیر کے خدوخال پیش کیے تھے، یعنی 1947ء میں کشمیریوں کی جو تحریک تھی وہ تو تحریکِ پاکستان کا تسلسل تھا اور الحاقِ پاکستان اور پاکستان سے ملنے کی ساری جدوجہد تھی۔ لیکن جب وہاں پر جہاد رک گیا، جنگ بندی ہوگئی، قائداعظم کی بصیرت نے یہ محسوس کیا کہ یہ جنگ طویل ہوگئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ پاکستان براہِ راست معرکہ آرائی نہ کرسکے، تو آزاد جموں و کشمیر سے یہ جدوجہد جاری رہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خاکہ پیش کیا گیا کہ وہاں کی حکومت کا ایک الگ تشخص قائم ہو۔ ہمارے بانی صدر سردار ابراہیم اقوام متحدہ میں گئے تحریک آزادی کی ترجمانی کرنے کے لیے۔ 1947ء میں جتنا جہاد ہوا وہ آزاد کشمیر کی وزارتِ دفاع کے تحت ہوا۔ آزاد کشمیر کا باقاعدہ ایک وزیردفاع تھا اور مجاہدین کی ساری تنظیم اور سرگرمیاں اس وزارت کے ماتحت تھیں۔ پھر جب مہاجرین آگئے تو ان کی بحالی کا کام کیا۔ اور لاکھوں لوگ پاکستان آگئے ان کی بحالی کا کام اُس وقت کی وزارتِ امور کشمیر نے دوسرے صوبوں کے ساتھ مل کر سرانجام دیا۔ بتدریج بیس کیمپ کا تصور کمزور ہوتا گیا، لیکن جماعت اسلامی نے پوری کوشس کی کہ ہم اپنے اس کردار اور تشخص کوقائم رکھیں۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آنے والا کوئی بھی فرد آزاد کشمیر کے عوام اور معاشرے سے مایوس نہ ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کی تحریک کے ساتھ بڑی وابستگی ہے۔ اس تحریک کے دوران بڑی تعداد میں لوگ شہید ہوئے ہیں۔ 19 میں سے 10 سب ڈویژن جنگ بندی لائن پر ہیں۔ آئے روز فائرنگ اور شیلنگ کا عمل جاری رہتا ہے۔ہندوستان کا ہدف یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام خوف زدہ ہوکر اس تحریک سے کنارہ کش ہوجائیں۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ لوگ اس کی پشت پر کھڑے ہیں۔ وادی نیلم کا 12 سال تک محاصرہ رہا اور لوگوں نے ہجرت کی، مصائب برداشت کیے لیکن وہ اس تحریک میں ساتھ کھڑے رہے اور سینکڑوں لوگ شہید ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے اس نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے، اور بطور جماعت الحمدللہ ہمیں یہ اطمینان ہے کہ ہم نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ البتہ جو روایتی پاور پالیٹکس کلچر ہے اس میں ہماری حکومتوں کا وہ کردار نہیں رہا جو اس تحریک کا تقاضا تھا۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے خیال میں مقبوضہ کشمیر کے کشمیری قربانیاں دے رہے ہیں اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت انجوائے کررہی ہے؟
عبدالرشید ترابی: انجوائے تو میں نہیں کہتا لیکن جہاں تک مؤقف کی بات ہے تو سب جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور آزادئ کشمیر ہی ہے۔ لیکن عملاً جو تضاد ہے وہ یہ کہ کوئی ایسا نظام نہیں ہے جس میں آزاد کشمیر کے بحیثیت بیس کیمپ کا کردار متعین ہو۔اس وقت آزاد کشمیر میں جو نظام ہے وہ ایکٹ 74 کے تحت قائم ہے۔ یہ ایک لحاظ سے دہرا نظام ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو جو اختیارات ہیں ان سے زیادہ کشمیر کونسل کے اختیارات ہیں۔ ایکٹ 74 اُس وقت منظور ہوا جب مقبوضہ کشمیر میں اس انداز سے تحریک موجود نہیں تھی۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے سانحے کے بعد عملاً مقبوضہ کشمیر میں مایوسی پیدا ہوگئی تھی، شیخ عبداللہ ہتھیار ڈال دیے اور اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ کرلیا، وہ رائے شماری کے مطالبے سے دست بردار ہوگئے اور وزیراعلیٰ بن گئے۔ ایک لحاظ سے انہوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کوتسلیم کرلیا۔ اس وقت ایکٹ 74 پاس ہوا۔ آج حالات مختلف ہیں، اب اس ایکٹ میں تبدیلی ہونی چاہیے۔ آزاد جموں و کشمیر حکومت کا کردار متعین ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ہم نے تمام پارٹیوں کو اکٹھا کیا۔ آئینی اصلاحات پر ہوم ورک کرکے ساری پارٹیوں کے ساتھ اتفاقِ رائے کے ساتھ وزیراعظم پاکستان جو کشمیر کونسل کے چیئرمین ہیں، ان کو بھیج دیا ہے اور ان سے یہی درخواست کی ہے کہ جلد از جلد اس مسئلے پر سب کو یکسو کریں تاکہ حکومت کے اپنے خدوخال واضح ہوں۔ جب حکومت کا آئینی و قانونی کردار ہوگا تو کسی کو فرار کا راستہ نہیں ملے گا۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ انتخابات میں جو نظام سامنے آیا ہے جس میں وزیراعظم فاروق حیدر اور صدر مسعود خان ہیں اور مفاہمت کے نتیجے میں اسمبلی میں ہماری نمائندگی بھی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اسمبلی اور اداروں سب کو اس تحریک کا حصہ بنائیں کہ جب تک آئینی اصلاحات کا عمل مکمل ہوتا ہے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں بلکہ اپنی ذمے داریوں کو ادا کرتے رہیں۔ گزشتہ چھ آٹھ مہینوں میں ہم نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں کی ہیں جن میں بین الاقوامی کانفرنس کی ہے، سفارتی مہمات چلائی ہیں، مظفر آباد میں ایک عالمی کانفرنس کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ دستیاب حالات میں کوشش کررہے ہیں کہ لوگ تبدیلی محسوس کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کیا یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ 70 سال کے بعد بھی بیس کیمپ کی قیادت ذمے داریوں کے تعین کے مرحلے میں ہے! اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 70 سال ضائع کردیے گئے؟
عبدالرشید ترابی: اس عرصے میں دو تین شخصیات منظرعام پر رہی ہیں۔ ان میں سردار ابراہیم خان صاحب تھے جو آزاد جموں و کشمیر کے بانی صدر تھے، جن کی بڑی قربانیاں ہیں۔ انہوں نے مروجہ نظام سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے گھر پر 19جولائی 1947ء کو اجلاس بلایا جب ایک ابہام تھا اور کانگریس قیادت یہ کوشش کررہی تھی کہ مہاراجا سے الحاق کروائیں، اُس وقت مہاراجا کی اسمبلی میں مسلم کانفرنس کی نمائندگی سردار ابراہیم کررہے تھے۔ ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے منتخب اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہوگا، جو ’قراردادِالحاقِ پاکستان‘ کے عنوان سے منظور ہوئی۔ پھر سردار عبدالقیوم خان تھے جن کا 1947ء کے جہاد میں عملی کردار رہا ہے۔ ان کے بعد کے ایچ خورشید جو تحریکِ پاکستان کے دوران قائداعظم کے سیکرٹری تھے۔ یہ ہمارے قائدین تھے جو باری باری صدارتی کرسی پر متمکن رہے۔ پاکستان میں قائداعظم جلد رخصت ہوگئے اور لیاقت علی خان بھی شہید ہوگئے۔ بیوروکریسی نے اول روز سے کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر سے جان چھڑائی جائے، اور ہمارے قائدین کا بیش تر وقت اس کی مزاحمت میں گزرا ہے کہ سیزفائر لائن کو مستقل سرحد بنانے کی جو سازش تھی، تقسیم کشمیر کے جو منصوبے تھے، ناکام بنائیں۔ اصل ذمے داری تو پاکستانی حکمرانوں کی ہے کہ ہماری ان تین معتبر شخصیات کے ذریعے جن کا تحریک آزادی میں بھی کردار تھا، کے ذریعے عالمی سطح پر بہت سارا کام کرسکتے تھے۔ اب نئے حالات میں ہم اپنے دشمنوں کو بھی پیغام دیں، دوستوں کو بھی پیغام دیں کہ ہم حقِ خودارادیت پر زد نہیں پڑنے دیں گے اور آزادی کے ایجنڈے پر متفق ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: سید علی گیلانی نے پاکستان کی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کی مجموعی کارکردگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ آپ ان کی اس ناپسندیدگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
عبدالرشید ترابی:گیلانی صاحب تو میدانِ عمل میں قربانی دے رہے ہیں 85،86 سال کی عمر میں۔۔۔ اورکئی بیماریوں کے ساتھ ایک نوجوان کی طرح کھڑے ہیں۔گیلانی صاحب پاکستان کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں، وہ کشمیر کی پارلیمانی کمیٹی کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی تشویش کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ جہاں تک کشمیر کمیٹی کا تعلق ہے تو کسی بھی متعلقہ مسئلے پر مولانا سے ہمارا رابطہ رہتا ہے، جو تجاویز کشمیر کی پارلیمانی کمیٹی کو ہم نے دی ہیں اس میں مولانا نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔ لیکن مولانا کا ایک شخصی پروفائل ہے۔ ہم ان سے ملتے ہیں تو ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس کے مطابق آپ حکومت کو جھنجھوڑیں۔ اس مسئلے میں کوئی ایک کمیٹی یا کوئی ایک ادارہ نہیں بلکہ جب تک حکومت کی ساری پالیسیوں، ساری ترجیحات کا رخ مسئلہ کشمیر کی طرف نہیں ہوتا اُس وقت تک گیلانی صاحب مطمئن نہیں ہوں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: آپ کے خیال میں کشمیر مولانا کی دلچسپی کا کوئی سنجیدہ موضوع ہے؟
عبدالرشید ترابی:آپ یہ یہاں کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں، لیکن اگر مولانا نہیں تو پھر اور کون؟ یہاں اور کئی لوگ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔ ماسوائے نواب زادہ نصراللہ خان کے، ان کی اخلاقی کمٹمنٹ تھی، باقی ساری پولیٹکل ایڈجسٹمنٹ تھیں۔ مولانا سے بہتر کردار راجا ظفرالحق کا ہوسکتا ہے۔ ہم نے کہا بھی ہے کہ اگر تبدیل کرنا ہے تو راجا ظفرالحق صاحب ہیں، یا پھر سراج الحق صاحب ہیں جن کی کمٹمنٹ ہے۔ باقی پارلیمنٹ کے یہاں سے جو وفود گئے ہیں ان میں ایک صاحب سندھ سے ایم این اے تھے، ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حریت قائدین اور محبوبہ مفتی میں فرق کیا ہے۔ مولانا کو کم از کم حالات کا اور مسئلے کا تو پتا ہے۔ دلائل سے وہ بات کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک سیکولر لابی ہے جس کو مولانا کی صورت میں ایک ہدف مل گیا ہے، جس پر وہ تیر برساتے رہتے ہیں۔ بہرحال ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ کسی ایک کمیٹی پر نہیں چھوڑنا چاہیے، پوری قوم کی ترجیحات میں اس مسئلے کو ہونا چاہیے۔
فرائیڈے اسپیشل: ترابی صاحب!اس وقت بین الاقوامی منظرنامے میں سب سے بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی انتخابات میں جیت کر اقتدار میں آگیا ہے اور اس نے اقتدار میں آتے ہی فلسطین کے ایشو پر کہہ دیا ہے کہ امریکہ دوریاستی حل کا تائید کنندہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک ریاستی حل کو زیادہ اہمیت دیتاہے۔ خطرہ ہے کہ اس اُصول کا اطلاق وہ مسئلہ کشمیر پر بھی کرے گا۔ آپ اس صورت حال کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں؟
عبدالرشید ترابی: ڈونلڈ ٹرمپ تاریخ کی نفی کررہا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ایک ریاستی ہے اور وہ ایک ریاست فلسطین کی ہے۔ 1947ء سے پہلے اسرائیل کہاں تھا؟ ساری دنیا سے یہودیوں کو وہاں لاکر بسایا گیا، اس کے بعد ان کی ریاست بنائی گئی۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادیں دو ریاستی حل کی ہیں۔ عالمی برادری کا اس پر اتفاق ہے۔ ٹرمپ صاحب جب ایک ریاستی حل کی بات کرتے ہیں تو وہ امریکہ کی ساری سابقہ پالیسیوں کی نفی کررہے ہیں۔ وہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے مؤقف کی بھی نفی کررہے ہیں۔ وہ اپنے آپ سے جنگ کرنے کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی متفقہ قراردادیں موجود ہیں۔ ہندوستان کی تحریک پر وہ قراردادیں منظور ہوئی ہیں۔ ہندوستان بھی طویل عرصے سے یہ بات کرتا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، لیکن دنیا کا کوئی ملک اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تاریخ کی نفی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جن اقوام اور ممالک نے تاریخ سے تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے خود ان کے حصے بخرے ہوگئے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف ٹرمپ ہے، دوسری طرف مودی ہے، اور جس طرف یہ حالات کو لے جارہے ہیں آئندہ ایک دو سال میں دیکھ لیں گے کہ ان کو کتنے داخلی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پھر ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ تاریخ سے جھگڑا کرنے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: مسئلہ کشمیر پر ملک کے کشمیری وزیراعظم نوازشریف کا رویہ بہت ہی معذرت خواہانہ ہے۔ وہ بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کررہے ہوتے ہیں اور وہ یہاں تخریب کاری کررہاہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کیا بھارت سے بامعنی مذاکرات ہوسکتے ہیں؟
عبدالرشید ترابی: میاں صاحب سے ہم نے کہا ہے کہ بھارت اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ ابھی انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں لوگوں نے بھارت سے دوستی کے لیے ووٹ دیا ہے۔ ملک میں جتنے بھی سروے ہوئے ہیں، آج بھی آپ سروے کرالیں کہ آپ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے آپ کا دشمن نمبر ایک کون ہے، سب یہی کہتے ہیں کہ بھارت ہے۔ آپ کے دریاؤں کا پانی وہ روک رہا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش وہ کررہا ہے، آپ کی تجارت میں مشکلات وہ پیدا کررہا ہے۔ بھارت سے دوستی کا تصور خودفریبی پر مشتمل ہے۔ جنرل اسمبلی میں جو خطاب وزیراعظم صاحب نے کیا ہے وہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اور ہم یہی کہتے ہیں کہ اس کو عالمی سطح پر ایک مہم کی شکل دیں۔ اس میں حریت قیادت سے بھی مشاورت کریں۔ دوسری بات یہ کہ جس جگہ حکومت کوئی کمزوری دکھاتی ہے تو اپوزیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو کمزور نہ پڑنے دے۔ یہاں ہمیں اپوزیشن کا کردار حکومت سے زیادہ کمزور دکھائی دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی سے بھرپور کوشش کے بعد ایک بیان دلوا پائے ہیں۔ خان صاحب اتنے دھرنے دے رہے ہیں، کوئی دھرنا کشمیر پر بھی دے دیں۔ ایک ایسے عالم میں جب وہاں ہماری تحریک عروج پر تھی انہوں نے یہاں دھرنوں کی تحریک شروع کردی۔ ہندوستان کو امریکہ اور ساری دنیا کی اسلام دشمن اور پاکستان دشمن طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ کشمیر تو دور کی بات ہے وہ تو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان کی قیادت کو بہت تدبر اور وژن کے ساتھ حکمت عملی بنانی ہوگی اور پاکستان کے اندر بھی ایک ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: اس صورت حال میں ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے دو اراکین آزاد کشمیر اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں لیکن مسلم لیگ حکومت کے وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی مرکز میں نوازشریف کے خلاف کھڑی ہے اور آزاد کشمیر میں نواز لیگ کی اتحادی ہے، اگر اس کو مرکز میں نوازشریف کی مخالفت کرنی ہے تو پہلے وہ اپنے دو اراکین کو آزاد کشمیر اسمبلی سے استعفیٰ دلائے۔ آپ اس صورت حال میں کیا مؤقف رکھتے ہیں؟
عبدالرشید ترابی: اس پر ہمارا مؤقف آگیا ہے۔ پاکستان میں بھی ہماری قیادت نے واضح کردیا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہماری تنظیمیں الگ ہیں۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کی ہمارے ساتھ مفاہمت 2011ء سے چل رہی ہے۔ آزاد کشمیر میں کرپشن کا خاتمہ ہو، میرٹ کی بحالی ہو اور تحریک آزادی کے حوالے سے آزاد کشمیر کا جو کردار ہے بطور بیس کیمپ، اس کو ہم بحال کریں۔ اس پر ہم نے اتفاق کیا ہے۔ ہمارا یہ معاہدہ آزاد جموں و کشمیر میں مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ ہوا ہے۔ ہمارے معاہدے میں یہ شق شامل نہیں ہے کہ یہ اتحاد ہوگا تو پاکستان میں جماعت اسلامی اپنی پالیسی تبدیل کرے گی۔ جماعت اس وقت بھی اپوزیشن میں تھی۔ اس وقت بھی مسلم لیگ میں موجود سیکولر لابی تھی جو یہ چاہتی ہے کہ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ میں مفاہمت نہ ہو۔ اس وقت بھی اس لابی نے یہ کوشس کی تھی کہ ہماری مفاہمت نہ ہو۔ لیکن فاروق حیدر اور ان کی قیادت نے اسٹینڈ لیا کہ ہمارے حالات مختلف ہیں۔ اب بھی وہی لابی متحرک ہے، وہ یہ چاہتی ہے کہ وہاں اصلاح کا عمل رک جائے۔ فاروق حیدر اچھے صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں جو اس لابی کی ڈکٹیشن قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لابی کے اپنے اہداف تھے۔ جس طرح زرداری صاحب کے لوگ تھے جو آزاد کشمیر کی حکومت سے اپنا حصہ وصول کرتے تھے، اسی طرح یہ لابی بھی ہے۔ فاروق حیدر اس لابی کی مزاحمت کررہے ہیں۔ ہم سے زیادہ فاروق حیدر ان کا ہدف ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں تاریخی طور پر موجود ہے۔ جماعت اسلامی کی بے شمار خدمات ہیں، خاص طور پر زلزلے کے موقع پر جو کردار جماعت اسلامی کا رہا ہے پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی، اور آج بھی جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو زلزلے کے بعد بھی تسلسل کے ساتھ خدمات انجام دے رہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اس سب کے باوجود جماعت اسلامی آزاد کشمیر میں مقبول نہیں ہوسکی؟
عبدالرشید ترابی: مقبول تو ہے۔ الیکشن کے موقع پر ہم نے سروے کرایا، اس میں ایک سوال تھا کہ تحریک آزادی کشمیر اور خدمتِ خلق کے حوالے سے کس جماعت کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں؟ 70 فیصد لوگوں نے جماعت اسلامی کے حق میں رائے دی۔ یہ مقبولیت کا بڑا گراف ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اقتدار کی ڈائنامکس یہ ہیں کہ اسلام آباد میں جس کی حکومت ہوتی ہے لوگ اس کو ووٹ دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی آزاد کشمیر میں کوئی پاپولر پارٹی نہیں ہے، پیپلزپارٹی میں الیکٹ ایبل کاایک دھڑا ہے، جب عوامی ماحول بنتا ہے وہ آجاتے ہیں۔ آپ عوام میں جاکر پوچھیں، کوئی یہ نہیں کہے گا کہ میں پیپلزپارٹی میں ہوں۔ لیکن یہاں زرداری کی حکومت تھی تو وہاں پیپلزپارٹی کی حکومت آگئی۔ چودھری مجید نے الیکشن کرائے، ان کی ایوان میں 37 نشستیں تھیں، ابھی ان کو آزاد کشمیر میں صرف دو سیٹیں ملی ہیں۔ مسلم کانفرنس کسی زمانے میں بہت بڑی پارٹی تھی، وہ دو سیٹوں پر آگئی ہے۔ ہمارے لیے طعنہ ہی یہ ہے کہ یہاں پر آپ کی اچھی کارکردگی ہے لیکن پاکستان میں آپ کے پاس حکومت نہیں ہے۔ پاکستان میں اللہ کرے جماعت کا کوئی بریک تھرو ہو تو ان شاء اللہ آزاد کشمیر میں اس کا کئی گنا زیادہ ریٹرن ہوگا۔ ان نامساعد حالات میں جب اس چھتری سے ہم محروم ہیں جماعت اسلامی نہ صرف پیش رفت کررہی ہے بلکہ الحمدللہ ہماری وسعت میں اور ہمارے اثرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ورنہ وہاں بڑی بڑی پارٹیاں تھیں۔ کے ایچ خورشید کی بہت بڑی پارٹی تھی۔ اس نے وہاں حکومت بھی کی۔ اسمبلی میں سکندر حیات خان کی دوسری بڑی پارٹی ہوا کرتی تھی۔ وہ ختم ہوگئی ہے۔ پاپولر پالیٹکس کے دائرے سے باہر ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کا ایک نظریاتی طاقت کی حیثیت سے موجود ہونا اللہ کا بہت بڑا کرم ہے۔ اللہ کرے پاکستان میں صورت حال بدلے تو آزاد کشمیر میں حالات بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
nn

حصہ