(آزدہ اور مساوات کا نعرہ (غزالہ عزیز

271

8 مارچ خواتین کے حقوق کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں خواتین کے حقوق پر بات کی جاتی ہے۔ مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ سیمینار اور مذاکرے ہوتے ہیں جن میں خواتین کی آز ادی اور مساوات کے لیے کوششوں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ خواتین اپنے حقوق کے حصول میں کہاں اور کتنی کامیاب ہوسکیں اور کہاں تک کام باقی ہے؟ اس پر بات ہوتی ہے۔ اور کون کون سے شعبے ہیں جہاں پہلے عورت نہ پہنچ پائی تھی لیکن اب اس نے وہاں کامیابی کے جھنڈے کچھ ایسے گاڑے ہیں کہ مردوں سے آگے نکل گئی ہے۔ یعنی عورت نے آزادی اور مساوات کی راہ پر خوب دوڑ لگائی ہے۔
خواتین کی آزادی اور مساوات کا نعرہ جدید دور کا تحفہ ہے۔ لیکن اس تحفے سے عورت کی زندگی کس قدر پُرسکون اور آرام دہ ہوپائی ہے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے۔
دورِ جدید میں جب زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب آیا تو معاشرتی معاملات بھی تبدیل ہوئے۔ اہلِ یورپ یعنی مغرب نے عورت کی مظلومیت کا مداوا کرنے کا سوچا، اسی احساس کے ساتھ عورت کو آزادی دی، اس کو مرد و زن میں مساوات کا نظریہ ذہن نشین کرایا۔
عین اسی وقت مغرب میں بڑی تیزی سے صنعتی انقلاب آرہا تھا۔ لہٰذا آزادی اور مساوات کے نظریے کا مقصد عورت کی مظلومیت کا مداوا کم اور سرمایہ کار اور صنعت کار کو مستقبل کا سستا کارکن فراہم کرنا زیادہ تھا۔ اس انقلاب نے عورت کے سامنے گھر سے باہر کی زندگی کا ایسا حسین نقشہ پیش کیا جس نے اسے ہر زنجیر کو توڑ کر باہر نکلنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کی۔ اس نے ہر شعبۂ زندگی میں قسمت آزمائی کرنے کا ارادہ کیا، لہٰذا وہ سڑکوں، گلیوں، ہوٹلوں، پارکوں، دفاتر اور اداروں میں نکل آئی، ملازمتیں کیں تاکہ معاشی خودمختاری حاصل کرسکے۔ حقوقِ نسواں کے نام پر عورت کو گھر کی حفاظتی چھتری سے نکال کر بازار، کاروبار اور دفاتر کی زندگی میں لانا مغربی ساہوکار کا ایجنڈا تھا، تاکہ ایک طرف وہ سستی مزدوری کرنے اور دوسری طرف اپنی نسوانیت کے ذریعے کاروبار اور مال کو بڑھانے کا سبب بنے۔
عورت نوکری کرے، گھر چلائے، بچے پالے اور اپنے خلاف ہونے والے رویوں کو بھگتے۔۔۔ یہ مغرب کا طریقہ کار تھا جس نے اس کے خاندانی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔۔۔ اور اب ہمارے مغرب کے کاسہ لیس صاحبِ اقتدار اور این جی اوز وہی طریقے اور قوانین ہمارے معاشرے میں نافذ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ کچھ ماہ قبل پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والا ’’کڑا بل‘‘ اسی سلسلے کی ایک کوشش تھی۔
عورت کی آزادی اور مساوات کے دعوے دار مغرب نے اپنی عورت کو کس مقام پر پہنچایا ہے اس کا اندازہ ایک مطالعاتی جائزے سے ہوتا ہے، جس کے مطابق یونانی معاشرے میں اقتصادی بحران کی یہ صورتِ حال ہے کہ نوجوان لڑکیاں بھوک سے مجبور ہوکر ایک سینڈوچ کی قیمت پر جسم فروشی کے لیے تیار ہیں۔ یونان کے مالیاتی بحران کے باعث اس کاروبار میں نئی شامل ہونے والی لڑکیوں کی عمریں 17 سے 20 سال کے درمیان ہیں۔ یہ ہے وہ آزادی اور مساوات جس کے لیے مغرب کی عورت باہر نکلی، مردانہ ذمہ داریاں سر پر اٹھائیں، لیکن یہ افراط و تفریط اس کو کوئی باعزت مقام نہ دلا سکی۔
آج یورپ کی عورت کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے، لیکن آزادی اور مساوات کے جن کو بوتل میں واپس لانا آسان نہیں۔
یومِ خواتین کی مناسبت سے پچھلے سال برطانوی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی فلوٹیلا بنجمن نے یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مردوں نے خواتین کو محض نمائش کی شے سمجھ لیا ہے، اور ہمیں عورت کو شو پیس سمجھنے والوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’میرے پاس اس بات کا جواب موجود نہیں کہ ہم کس طرح عورت کو اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس دلا سکیں گے؟‘‘
یورپ میں عورت کو آزادی اور مساوات حاصل ہے، لیکن اب اہلِ یورپ کو احساس ہوگیا ہے کہ عورت کی آزادی نے اُس کو گھر سے دور کردیا ہے۔ اب وہاں اس بات کے بارے میں فکرمندی ہے کہ عورت کو واپس گھر کیسے لایا جائے؟
کیونکہ اہلِ یورپ اور اسکینڈے نیوین ممالک یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ ’’اگر عورت نہ ہو تو یہ ملک چل ہی نہیں سکتا‘‘۔ یورپ کی نوجوان نسل بری طرح بگڑ گئی ہے کیونکہ وہاں عورت کو باہر نکال کر محنت کی مشین میں جوت دیا گیا ہے۔ وہ عورت جو ایک گھر کی صفائی کرتی تھی، اس کا خیال رکھتی تھی، اب اس کو دسیوں بلکہ سیکڑوں کے لیے حسین بن کر کام کرنا ہوتا ہے۔
وہ مسائل جن کے لیے یورپ پریشان ہے اور ان کو حل کرنے سے عاجز ہے، اور وہ سوال جس کا جواب فلوٹیلا بنجمن کے پاس نہیں، انہیں اسلام حل کرتا ہے اور ہر سوال کا شافی جواب فراہم کرتا ہے۔ اسلام عورت کو جو مقام معاشرے میں عطا کرتا ہے وہ جدید اور قدیم ہر دور کے افراط و تفریط سے مکمل پاک ہے۔ یہاں نہ عورت شیطان کی ایجنٹ ہے، نہ گناہوں کی پوٹ، اور نہ ہی وہ یورپ کی طرح اس کو ایک نمائشی شو پیس بناتا ہے، نہ مادر پدر آزادی اور مساوات کا لارا دیتا ہے۔
اسلام عورت کو سب سے پہلے انسانیت کا مساوی مقام اور مرتبہ عطا کرتا ہے، کہ اللہ کی نظر میں عورت اور مرد برابر ہیں، ہاں اگر کسی کو مرتبہ اور بزرگی حاصل ہے تو وہ اس وجہ سے کہ کون اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے؟
پھر اسلام عورت سے وابستہ ہر رشتے کو محبت، عزت اور عقیدت کے جذبات کا احساس دیتا ہے، بلکہ بعض مقامات پر مردوں سے زیادہ شرف و احترام بخشتا ہے۔
(باقی صفحہ 41پر)
نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘
بیوی کی حیثیت سے عورت کو مرد کا لباس قرار دیا اور مرد کو عورت کا لباس۔
بیٹی کی حیثیت سے عورت اتنی باعثِ فلاح قرار دی کہ اچھی پرورش اور تربیت جنت کی ضمانت قرار دے دی۔ ماں کی حیثیت تو ہر رشتے سے بلند، کہ اس کے قدموں تلے جنت کا حکم آگیا۔
اسلام میں عورت کا نان نفقہ ہر حال میں مرد کے ذمے ہے۔ مہر، وراثت، حقِ جائداد، پھر اپنے مال کو اپنی صوابدید پر خرچ کرنے کی آزادی دی۔
غرض اسلام معاشرے میں حسین توازن اور اعتدال قائم کرتا ہے۔ اور آخر ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ خالقِ کائنات کا بنایا ہوا قانون ہے جو انسان کا خالق اور اس کی فطرت کا شناسا ہے۔ اللہ کے قانون سے ہٹ کر کچھ اور چاہنے والوں کو قرآن کی اسی ایک آیت پر غور کرلینا چاہیے:
’’کیا یہ لوگ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں؟ یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بڑھ کر کس کا قانون بہتر ہوسکتا ہے۔‘‘ [سورہ المائدہ۔ 50]

حصہ