(حکومت(نذیر انبالوی

286

اقبال نے خود فرمایا ہے کہ یہ شعر سر راس مسعود مرحوم کے مکان ریاض بھوپال میں لکھے گئے۔
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملاّ کو بری لگتی ہے درویش کی بات
قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاعِ کردار
بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات!
گرچہ اس دیر کہن کا ہے یہ دستور قدیم
کہ نہیں میکدہ و ساقی و مینا کو ثبات!
قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا
انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حیات!
دیر کہن: لفظی معنی پرانا بت خانہ، مراد دنیا۔ انگبیں: شہد۔ تلخاب: کڑوا پانی۔ زہر۔
1۔ مرید تو سچی بات کسی نہ کسی طور سن ہی لیتے ہیں، لیکن شیخ اور ملاّ کو درویش کی بات بری لگتی ہے۔ یعنی جو کچھ میں کہتا ہوں، وہ عام لوگوں کو تو برا نہیں لگتا، مگر صوفیوں اور عالموں کو میری باتیں چبھتی ہیں۔
2۔ حق یہ ہے کہ جب ذات و صفات کے متعلق موشگافیاں شروع ہوجاتی ہیں تو پھر قوم عمل کا سرمایہ کھو بیٹھتی ہے۔ قوتِ عمل اُسی وقت تک باقی رہتی ہے جب قوم کے سامنے صرف وہ مسائل پیش ہوتے رہیں جن کا تعلق اُس کے مقاصد ہو اور جو اُس میں عمل کی سرگرمی کو تیز رکھیں۔ جب ایسی بحثیں شروع ہوجائیں، جن سے بے سود الجھنوں کے سوا کچھ نہ نکل سکے تو قوم میں افسردگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں بلند کارناموں کے لیے جوش و خروش باقی نہیں رہتا۔
ذات و صفات سے مراد ہے باری تعالیٰ کی ذات و صفات۔ یعنی ذات کی حقیقت کیا ہے؟ صفات کا ذات سے کیا تعلق ہے؟ صفات کو غیر ذات سمجھا جائے یا عین ذات؟ اس قسم کے متعدد مسائل ہیں جو فلسفیوں نے پیش کررکھے ہیں۔ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اس قسم کے مسئلوں پر غور کرنے کے بجائے مسلمان کو خدا کی نشانیوں پر غور کرنا چاہیے، جو کائنات میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ ان سے ایمان اور قوتِ عمل میں پختگی آتی ہے۔
3۔ اگرچہ اس دنیا کا یہ دستور قدیم زمانے سے چلا آتا ہے کہ یہاں شراب خانہ ہو یا شراب پلانے والا، یا شراب کی صراحی، غرض کوئی بھی چیز قائم رہنے والی نہیں۔ یعنی اس دنیا کی ہر چیز آنی و فانی ہے۔
4۔ تاہم اقبال مندی کے مے خانے سے شراب لینے کا حق اسی قوم کو ہے، جس کے جوان زندگی کے زہر کو شہد سمجھیں، یعنی جتنی تلخیاں، پریشانیاں، مصیبتیں اور آفتیں انہیں پیش آئیں، وہ سب خوشی خوشی جھیل لی جائیں، لیکن مقاصد سے منہ نہ موڑا جائے۔

کردار کے غازی
جب اسکندریہ فتح ہوا تو سالارِ لشکر عمروؓ بن العاص نے معاویہؓ بن خدیج کو قاصد بناکر مدینہ بھیجا اور کہاکہ جس قدر جلدی جا سکتے ہو، جاؤ اور امیرالمومنین کو مژدۂ فتح سناؤ۔ حضرت معاویہؓ ٹھیک دوپہر کے وقت مدینے میں داخل ہوئے اور اس خیال سے کہ آرام کا وقت ہے، امیرالمومنین کے گھر نہیں گئے بلکہ مسجد نبویؐ کا رخ کیا۔ راستے میں امیرالمومنین کی لونڈی ملی، اس نے حضرت عمرؓ کو جاکر اطلاع دی کہ اسکندریہ سے قاصد آیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ جاؤ فوراً قاصد کو یہاں بلالاؤ۔ لونڈی نے جاکر قاصد سے کہا کہ تم کو امیرالمومنین بلاتے ہیں۔ لیکن حضرت عمرؓ حالات جاننے کی جلدی میں قاصد کے آنے کا انتظار بھی نہ کرپائے بلکہ خود چادر سنبھال کر چلنے کے لیے تیار ہوئے۔ اسی وقت معاویہؓ آگئے۔ حضرت عمرؓ نے فتح کا حال سنا تو زمین پر گر پڑے۔ سجدہ ریز ہوکر خدا کا شکر ادا کیا۔ منادی کرکے تمام لوگوں کو مسجد میں جمع کیا۔ حضرت معاویہؓ نے فتح کے حالات بیان کیے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ ان کو اپنے گھر لائے، کھانا کھلایا۔ کھانے سے فراغت کے بعد امیرالمومنین نے پوچھا کہ تم مدینے میں داخل ہوکر سیدھے میرے پاس کیوں نہ چلے آئے؟ حضرت معاویہؓ نے جواب دیا: چونکہ یہ آرام کا وقت ہے اس لیے میں نے خیال کیا کہ شاید آپ سوئے ہوں اور میری وجہ سے آپ کے آرام میں خلل واقع ہو۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ’’افسوس تم میرے بارے میں یہ خیال رکھتے ہو (اگر میں دن کو سویا کروں) تو خلافت کا بار کون سنبھالے گا۔
اقوالِ زریں
حافظ شیرازی
* ہم غرور کے جام سے مست ہیں اور اس کا نام ہم نے ہوشیاری رکھ لیا ہے۔
* رفتگانِ طریقت کو دیکھ کر آدھے جو سے بھی قبائے اطلس و دیبا کو نہیں خریدتے، ان کو اس سے ہزار بیزاری ہے۔
* توکل کے آستانہ پر تو پہنچا جا سکتا ہے لیکن آخرت کی سروری (سرداری) کے آسمان پر عروج کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
* کچھ نہ کچھ عیب سب میں ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ عقلمند اپنے عیب خود محسوس کرلیتا ہے، دنیا نہیں محسوس کرتی۔ بے وقوف اپنے عیب خود نہیں محسوس کرتا، دنیا محسوس کرتی ہے۔
* جو مہربانی کرنے والے کو کمینہ سمجھتا ہے اس سے زیادہ کمینہ کوئی دوسرا نہیں۔
* زمانہ کتابوں سے بہتر معلم ہے۔
* جو بات کسی کو دینے میں ہے وہ لینے میں نہیں۔
* اللہ کے نافرمان کا انجام بہت خوفناک ہے۔
[اقوالِ زریں کا انسائیکلوپیڈیا/ نذیر انبالوی (ایم۔اے)]

حصہ