(کل بھوشن یادیو گرفتاری ایک سال(سید عارف بہار

202

بلوچستان سے دھر لیے جانے والے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کرنل کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کو ایک سال ہوگیا ہے۔ گزشتہ برس مارچ میں کل بھوشن یادیو کو گرفتار کرنے کے چند ہی روز بعد میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے میڈیا کو اپنی کارستانیوں کی پوری داستان سنادی تھی، اور یوں دنیا کو معلوم ہوا تھا کہ خود کو معصوم اور مظلوم بناکر پیش کرنے والا بھارت اس قدر معصوم بھی نہیں، بلکہ وہ پاکستان کے خلاف ایک بھرپور درپردہ جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کی طرف سے بھارت کی کارروائیوں کا اوّل تو ذکر ہی نہیں کیا جاتا تھا، اور اگر رحمان ملک جیسے وزیر داخلہ کبھی کبھار یہ ذکر کرتے بھی تو یہ ’’تیسراہاتھ‘‘ کی ملفوف اصطلاح تک محدود رہتا۔ کل بھوشن یادیو پاکستان میں جاری دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کا سب سے مضبوط اور مؤثر ثبوت قرار پایا۔ بھارت نے پہلے تو اس نام سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا، پھر دبے لفظوں میں یہ تسلیم کیا جانے لگا کہ اس نام کا ان کی بحریہ کا افسر چند برس سے غائب ہے، تاہم اب وہ فوج کی نوکری چھوڑ چکا ہے۔ جب کچھ اور وقت گزر گیا تو بھارت نے پاکستان سے قونصلر تک رسائی کی درخواست کی۔ کچھ عرصے بعد بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے کل بھوشن یادیو کا اعترافی بیان مسترد کیا اور کہا کہ بھارتی نیوی کا ایک افسر ایران میں تجارت کرتا تھا، ممکن ہے اسے اغوا کیا گیا ہو۔ ترجمان نے کہا تھا کہ کل بھوشن یادیو کی وڈیو سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یوں بھارت نے کئی قسطوں میں کل بھوشن سنگھ کو اپنا شہری، اپنا افسر اور ایران میں مقیم تسلیم کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال نے کل بھوشن یادیو کو منظر پر نہ لانے کے لیے پاکستان پر دباؤ اور منت سماجت سمیت ہر طریقہ استعمال کیا، مگر پاکستان میں کچھ حلقوں نے اس پر کوئی سمجھوتا کرنے سے گریز کیا اور عین اُس وقت کل بھوشن یادیو کو میڈیا پر پیش کردیا گیا جب ایران کے صدر حسن روحانی پاکستان کا دورہ کررہے تھے۔
کل بھوشن یادیو ایرانی شہر چاہ بہار میں سونے کی تجارت کے بہانے ’’را‘‘ کا نیٹ ورک چلا رہا تھا اور بلوچستان کی حدود میں داخل ہوکر مسلح دہشت گردی کو منظم کرنا اس کا معمول تھا۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کی پاکستان کے لیے وہی اہمیت تھی جو چند برس قبل لاہور میں گرفتار ہونے والے امریکی سی آئی اے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی تھی۔ اُس وقت امریکہ اور پاکستان میں کشیدگی کا گراف انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ زوروں پر تھی اور افغانستان میں جنگ کا پانسہ مزاحمت کاروں کے حق میں پلٹ رہا تھا۔ امریکہ ایک حکمت عملی کے تحت اس جنگ کو پاکستان تک پھیلانا چاہتا تھا تاکہ پاکستان کو دہشت گردی کے مشترکہ مقابلے کے لیے تیار کرے اورپاکستان دہشت گردی سے اس قدر تنگ آجائے کہ وہ ’’گڈ طالبان‘‘ کے خلاف کارروائی کرنے پر مجبور ہو۔ ان کے خیال میں پاکستان کے ’’گڈ طالبان‘‘ ملاعمر اور جلال الدین حقانی کی قیادت میں امریکی فوج کے خلاف لڑنے والے طالبان تھے، جبکہ ’’گڈ‘‘ اور ’’بیڈ‘‘ کا یہ کھیل پاکستان تنہا نہیں کھیل رہا تھا بلکہ یہ امریکہ اور بھارت بھی کھیل رہے تھے جن کے اپنے گڈ طالبان تھے، اور وہ پاکستان میں جی ایچ کیو، ائربیسز، فوجی کانوائے اور پبلک مقامات پر حملہ کرنے والوں سے گڈ طالبان کا سلوک کرتے تھے۔ امریکی پاکستانی سیکورٹی اداروں کی نظروں سے چھپ چھپ کر اپنا الگ نیٹ ورک تشکیل دے رہے تھے اور یہ نیٹ ورک ملک میں دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اُس وقت ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری سے پاکستان کو امریکہ کے اس متوازی نیٹ روک کو منظرعام پر لانے کا موقع مل گیا اور پہلی بار دنیا کو اندازہ ہوا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان معاملات کی خرابی میں تصویر کا صرف ایک وہی رخ نہیں جو امریکی دکھا رہے ہیں، بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو پاکستان کے مؤقف اور داستانِ غم کو اجاگر کررہا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان کے اداروں کو ملک سے جاسوسی کا یہ متوازی نظام لپیٹنے میں آسانی ہوگئی اور امریکی کھیل بری طرح بے نقاب ہوگیا۔کچھ یہی کام بھارت کے حوالے سے کل بھوشن یادیو کی گرفتاری نے کیا۔ اس عرصے میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی کامیابیاں حاصل کیں۔
کل بھوشن یادیو کا نام پاکستان کی سیاست میں کبھی کبھار ارتعاش پیدا کرتا رہا۔ حکومت نے کل بھوشن یادیو کے نام پر کچھ اس انداز سے لب سیے رکھے کہ حزبِ اختلاف کے راہنماؤں نے کل بھوشن یادیو کو حکومت کی چھیڑ بنائے رکھا۔ ایک بار پیپلز پارٹی کے راہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے چیلنج کے انداز میں اعلان کیا کہ وزیراعظم نوازشریف ایک بارکل بھوشن یادیو کا نام لے کر دکھا دیں۔ اعتزاز احسن کے اس چیلنج کے پیچھے کیا اعتماد جھلکتا تھا یہ معمّا ہی ہے۔ تاہم علامہ طاہرالقادری اس حوالے سے انکشافات کی کہانی کے ساتھ میڈیا میں نمودار ہوتے رہے۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے ایک سال بعد ایک بار سینیٹ میں یہ نام اُس وقت گونجا جب سینیٹر طلحہ محمود نے سوال پوچھا کہ اس بات کا کوئی امکان ہے کہ حکومت کسی وقت ریمنڈ ڈیوس کی طرح کل بھوشن یادیو کو ریڈ کارپٹ پر واپس بھیج دے گی؟ اس پر اعتزاز احسن نے ایک بار پھر سینیٹ میں گرہ لگائی کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کل بھوشن یادیو کا نام کب لیں گے، تو سینیٹر طلحہ محمود کے سوال اور اعتزاز احسن کی گرہ کے جواب میں مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے ایوان میں بیان دیا کہ کل بھوشن یادیو کو بھارت کے حوالے کرنے کا امکان نہیں، اُس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے اور مقدمہ چلانے کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بھارت کے ریاستی عناصر پاکستان میں دہشت گردی کروا رہے ہیں اور اس سے دنیا کو بھی آگاہ کیا جا رہا ہے۔ سرتاج عزیز نے اعتراز احسن کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ وزیراعظم کل بھوشن یادیو کا نام نہ لیں۔ جب مناسب ہوگا وہ کل بھوشن یادیو کا نام بھی لیں گے۔
ایک سال گزر گیا، پاکستان کے سیاست دان، میڈیا اور سفارتی حلقے کل بھوشن کل بھوشن پکار رہے ہیں مگر مناسب موقع کے انتظار میں خود کل بھوشن سنگھ اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت کی طرف سے نظرانداز کیے جانے پر اس مشہورِ زمانہ نغمے کے بول کی تصویر بنا ہوا ہے:
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
nn

حصہ