ایساصحرا جہاں لوگ زہر پی کر زندہ رہتے ہیں

189

انسان میں اپنے گردوپیش، آب وہوا اور ماحول کی دیگر چیزوں سے مطابقت پیدا کرنے کی جو زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے اس کا مشاہدہ چلی کے صحرا ’اٹاکاما‘ (Atacama) کے رہنے والے لوگوں میں کیا جاسکتا ہے، جنھوں نے زہر پینے کی صلاحیت پیدا کرلی ہے۔ یونیورسٹی آف چلی کے سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق صحرا کے ’کیوبراڈا کامارونس (Quebrada Camarones) خطے کے پانی میں سنکھیا (آرسینک) کی مقدار اُس مقدار سے 100 گنا زیادہ ہے جس سے زیادہ کو عالمی ادارۂ صحت نے زہر قرار دے رکھا ہے۔ محققین نے اس علاقے کے 150 افراد کے جینز کا جائزہ لیا ہے اور ان کے ڈی این اے میں ایک ایسے انحرافی جین کا پتا چلایا ہے جو باقی ماندہ نوعِ انسانی میں نہیں ہے۔ اس جین میں ایک ایسے خامرے (اینزائم) کا کوڈ موجود ہے جو سنکھیا کو دو قدرے کم زہریلے مرکبات میں تبدیل کردیتا ہے۔
اس علاقے میں سات ہزار سال قبل جنوبی امریکہ کے اصل مکینوں نے جب آبادیاں بسائیں تو ان کے پاس دو راستے تھے: یا تو وہ علاقے میں دستیاب سنکھیا آلود پانی پینا شروع کردیں، یا پھر پیاسے رہ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ پانی پینا شروع کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان باشندوں کی آئندہ نسلوں کے نظام انہضام میں سنکھیا پینے اور اسے ہضم کرنے کی زبردست صلاحیت پیدا ہوگئی۔
زیر زمین بھی دیوار چین ہونے کا انکشاف
دیوارِ چین دنیا کے عجوبوں میں سے ایک ہے، لیکن چین میں زیر زمین بھی ’’ دیوارِچین‘‘ موجود ہے۔ وہاں زیرزمین ایسی سرنگیں بنائی گئی ہیں جہاں بین براعظمی بلاسٹک میزائل رکھے اور ٹرانسپورٹ کیے جاتے ہیں، اور ان سرنگوں کو غیر رسمی طور پر ’’زیرِ زمین دیوارِ چین‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ان سرنگوں کو دنیا سے چھپاکر بنایا گیا ہے لہٰذا ان کے بارے میں بہت زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں، تاہم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی مدد سے ان میزائلوں کو نہ صرف چھپایا جاتا ہے بلکہ انہیں کہیں لے جانے کے لیے بھی ان سرنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کا چین کو یہ فائدہ ہے کہ اگر نیوکلیئر حملہ ہو تو ان میزائلوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں کسی بھی جگہ سے حملے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں فلپ کاربر نامی تحقیق کار نے ان سرنگوں کا تین سال تک مطالعہ کیا اور بتایا کہ ان سرنگوں کی لمبائی پانچ ہزار کلومیٹر تک ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ان سرنگوں میں چین کے تین ہزار میزائل رکھے گئے ہیں اور حملے کی صورت میں ان سرنگوں کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچ سکتا۔

پاکستان: سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کی شکایات میں تیزی سے اضافہ
پاکستان میں سوشل میڈیا پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے شکایات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، اور ان میں سے بیشتر شکایات کنندگان خواتین ہیں۔
بی بی سی کے مطابق گزشتہ برس سائبر کرائم ایکٹ کے تحت 700 درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور ان میں بیشتر سوشل میڈیا کے حوالے سے ہی تھیں، اور اِس سال ابتدائی دو ماہ میں ہی یہ تعداد 500 تک پہنچ گئی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں درج کروائی جانے والی ایسی درخواستوں کی تعداد 120 ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کے پاس سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے 95 فیصد سے بھی زیادہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہیں اور ان میں سے بیشتر شکایات میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو تصویروں یا ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا جارہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ان درخواستوں پر قانون کے مطابق کارروائیاں کی گئی ہیں اور ان میں ملزمان گرفتار بھی ہوئے ہیں، لیکن اس طرح کے بیشتر واقعات میں فریقین کے درمیان صلح ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ عدالت میں جانے سے پہلے ہی صلح کرلیتے ہیں اور بعض عدالت میں صلح کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں، یہاں تک کہ بڑوں میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا کے حوالے سے شکایات کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن متعلقہ ادارے میں ان کا اندراج کم ہی ہوتا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بیشتر افراد متعلقہ ادارے سے رابطہ کر نہیں پاتے یا پھر کرنا نہیں چاہتے۔

حصہ