(میرا اکلوتا بھائی وطن پر قربانی ہوگیا(ثمن عروج

264

پس منظر: حالیہ لاہور دہشت گردی کے واقعے میں شہید ہونے والے کیپٹن احمد مبین شہید کی فیملی سے مل کر احساس ہوا کہ ایک فرض شناس، ذمہ دار پولیس آفیسر کی فیملی ایسی ہی ہونی چاہیے۔ ایسے پولیس آفیسرز کی عظیم قربانیوں کو قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ شہید کیپٹن احمد مبین کی والدہ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ وطن پر نچھاور ہونے والے ذمہ دار سپوت کی ماں ایسی ہی بلند حوصلہ ہوسکتی ہے۔ بہن سے مل کر معلوم ہوا کہ ایسے قد آور بھائیوں کی بہنیں ہی محبتوں کی ثروت سے مالامال ہوتی ہیں۔ بیٹی سے مل کر لگا ایسے قابلِ فخر باپ کی جانشین بیٹی دعاؔ جوکہ صرف دعا ہی نہیں انعام بھی ہے۔ اس ملاقات کا احوال نذر قارئین ہے:
مسز ثروت قسیم:
ہم دو بہن بھائی تھے۔ مبین مجھ سے تین سال چھوٹے تھے۔ ہم دونوں آپس میں صرف بہن بھائی ہی نہیں تھے بلکہ مبین میرا سب سے بہترین دوست بھی تھا اور میری سہیلی بھی تھا۔ ہمیں بچپن میں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، اس لیے ہم دونوں نے گڑیوں سے لے کر کرکٹ اور ہاکی مل کر ہی کھیلی۔ ہم دونوں کے کھلونے ایک جیسے ہی ہوا کرتے تھے۔ اس جیسا بھائی شاید ہی کوئی اور ہو۔ مبین شہید جیسے بیٹے بہت کم خوش نصیب ماؤں کے ہوتے ہیں۔ سب ہی کہتے ہیں کہ ہم دونوں بہن بھائی کی شکل بہت ملتی ہے۔ اسکول لائف میں ہمیں جڑواں بچے بھی کہا جاتا تھا۔ میٹرک کے بعد وہ جے سی بی میں چلا گیا تھا، اس کے بعد آگے اسی شعبے کی تعلیم کی طرف چلا گیا تھا۔ ہمارے ابو سید قرار حسین زیدی صاحب بھی ڈاکٹر تھے، انہوں نے ہمیں بہترین ماحول فراہم کیا، کیونکہ وہ بہت زیادہ ڈسپلن والے آدمی تھے۔ میرے والد دورانِ سروس کوئٹہ میں ہی رہے، وہیں انہوں نے پرائیویٹ کلینک کیا۔ ان کا انتقال بھی کوئٹہ میں ہوا تھا۔ دادا بھی ڈاکٹر تھے۔ والد صاحب کے انتقال کو پندرہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے فوراً بعد ہی مبین امی کو لے کر لاہور آگیا۔ میں شادی شدہ ہوں، میرے شوہر آرمی میں تھے مگر اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ میری شادی کے تقریباً سات سال بعد مبین کی شادی ہوئی تھی۔ میری بھابھی میری فرسٹ کزن خالہ زاد ہے۔ میری والدہ نے اپنی پسند سے اپنی اکلوتی بہو کا انتخاب کیا۔ میری بھابھی اپنی قسمت پر رشک کرتی تھیں۔ میرا بھائی بہترین بھائی، بہترین شوہر، بہترین بیٹا اور بہترین باپ تھا۔ وہ اپنی فیملی کے لیے بہت devoted تھا۔
مبین کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ مبین کو بیٹے کا بہت شوق بھی تھا، اللہ تعالیٰ سے اس نے مانگا اور اللہ نے اسے بیٹا عطا کردیا، مگر بیٹیوں میں اس کی جان تھی۔ مبین کی سب سے بڑی بیٹی آغا خان یونیورسٹی کراچی میں میڈیکل کے پہلے سال میں پڑھتی ہے۔ اس کا نام حبا ہے۔ دوسری بیٹی ابیرا ہے جوکہ ہوم اکنامکس کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کی طالبہ ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر دعا ہے جو کہ ابھی دس سال کی ہے۔ سب سے چھوٹا اکلوتا بیٹا سید محمد طہٰ فرید ہے۔ سب بچوں کے نام دونوں میاں بیوی نے خود ہی رکھے تھے۔ میرے والد صاحب نے ہم دونوں بہن بھائی کی شادیوں کا فرض خود ادا کیا ہے۔
مبین کی سروس کو تقریباً بیس سال ہوچکے تھے۔ اس گھر کے دروازے ہمیشہ آنے والوں کو کھلے ہی ملتے تھے۔ میرا بھائی بہت بہادر، بہت جرأت مند تھا۔ اس کو تھریٹس تھے، دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ ظاہر ہے وہ پولیس والا تھا اور پولیس والے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے ہیں۔ مبین شہید کو کام کا جنون تھا اور اکلوتا ہونے کے باوجود اُس نے اس مشکل جان لیوا شعبے کا انتخاب اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق خود کیا تھا۔ دراصل وہ یہ کہتا تھا کہ میں اس لیے محکمہ پولیس کو جوائن کرنا چاہتا ہوں کہ عوام میں موجود پولیس کے منفی اور کرپٹ تاثر کو مٹا سکوں۔ ٹھیک ہے کہ اچھے اور برے لوگ ہرجگہ ہی موجود ہوتے ہیں، مگر مبین نے اپنا خون دے کر نہ صرف محکمہ پولیس کی شان بڑھا دی بلکہ وطن عزیز کی محبت میں اپنی جان نچھاور کرکے اللہ کے حضور سرخرو ہوگیا۔ میرا پیارا بھائی بالکل بھی مادیت پرست نہیں تھا۔ اس کا مزاج بالکل ایک درویش جیسا تھا۔ مبین میں پیسے کی چاہ اور طلب بالکل نہ تھی۔ اسے اللہ پر مکمل توکل تھا کہ رزق دینے والا وہ ہے۔ مبین کے مزاج میں نہایت عاجزی اور انکسار موجود تھا۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جو کہ اِس دنیا کے لیے بنا ہی نہیں تھا، اسی لیے اللہ ایسے لوگوں کو اِس دنیا سے بہت جلد اٹھا لیتے ہیں۔ 45سال کی عمر میں وہ پانچ سو سالوں کا کام کرگیا ہے۔ میرے والد بھی بالکل اسی طرح تھے۔ انہوں نے کوئی زمینیں اور جائدادیں نہیں بنائیں۔
مبین کو جو بھی کھانے کو دے دو، وہ کھا لیتا تھا۔ اس میں نخرا نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی، البتہ اس کی پسندیدہ ڈش مٹن تھا۔ میرا بھائی ملنگ فطرت کا مالک تھا۔کپڑوں میں بھی اس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہوتی تھی۔ وہ جو بھی پہن لیتا تھا تو ایسے لگتا تھاکہ جیسے یہ اسی کے لیے بنایا گیا تھا۔ پڑھائی میں بھی مبین نرسری سے لے کر میٹرک تک ہمیشہ toper رہا۔ نہایت لائق و ذہین تھا، پڑھتا کم تھا مگر ٹاپ کرلیتا تھا۔ البتہ محنتی ضرور تھا۔ مبین ہمیشہ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا رہا۔ ہاکی اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔ وہ فٹ بال بھی بہت شوق سے کھیلتا تھا۔
دعا مبین:
مجھے بابا بہت پیار کرتے تھے۔ بابا نے ہمیں کبھی نہیں ڈانٹا، نہ کبھی انہوں نے اونچا بول کر ہمیں ڈرایا۔ میں جب بھی بابا سے کوئی فرمائش کرتی تو مجھے فوراً وہ چیز دلا دیتے تھے۔ بابا ہمیشہ ہماری اسکول کی چھٹیوں میں ہمارے ساتھ آؤٹنگ پلان کرتے تھے۔ جب میں صبح اسکول جاتی تھی تو بابا سے گلے مل کر جاتی تھی۔ جب اسکول سے واپس آتی تھی تو بابا اس وقت گھر پر نہیں ہوتے تھے۔ رات کو جب بابا کے گھر آنے کا وقت ہوتا تھا تو میرا چھوٹا بھائی محمد طہٰ فرید دروازے پر کھڑا ہوکر گنتی گننا شروع کردیتا تھا۔ وہ ابھی صرف ڈھائی سال کا ہے مگر اس کو 20 تک گنتی آتی ہے۔ وہ مجھے کہتا تھا: دعا اسٹاپ! دیکھو بابا آگئے ہیں۔ وہ زور سے جاکر بابا کے گلے لگ جاتا تھا۔
میرے بابا مرے نہیں ہیں بلکہ وہ شہید ہیں۔ اسکول میں مجھے میری کلاس فیلو نے کہا کہ اِس کے بابا مرگئے۔ مگر میں نے کہا: تم چپ کرو، میرے بابا زندہ ہیں کیونکہ شہید مرا نہیں کرتے، یہ قرآن میں لکھا ہے۔ میرے بابا ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے ہیں۔ اتنے دنوں میں بابا مجھے خواب میں بھی ملے ہیں۔ 13 فروری کو میں نے بابا کو ایک کارڈ دیا تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ بابا یونیفارم میں ہیں اور وہ وہی کارڈ لے کر میرے پاس آئے ہیں، اور انہوں نے مجھے یہ کہا: اللہ حافظ بیٹا، اپنا خیال رکھنا۔
nn

حصہ