صحت کے شعبے کی تباہی اور لوٹ مار محمد انور

288

دنیا بھر میں جن شعبوں کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اُن میں صحت کا شعبہ اہم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں صحت کو بھی نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہے جس طرح تعلیم اور روزگار کے شعبوں سے جان چھڑائی گئی ہے اسی طرح حکومت نے صحت کے شعبے کو بھی بے لگام نجی اداروں کے رحم او کرم پر چھوڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ شعبہ اب صنعت کا درجہ اختیار کرتا جارہا ہے۔ چند ایک نامور اداروں کے سوا ہیلتھ سے متعلق تمام ہی ادارے آزاد نظر آتے ہیں۔ مشہور و معروف نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز (این جی اوز) کی نگرانی میں چلنے والے متعدد ادارے حکومتوں سے سہولیات حاصل کرنے کے باوجود عام افراد کو علاج کی سستی سہولیات دینے پر آمادہ نہیں۔ آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب سرکاری اسپتال صوبائی حکومت کے پاس آئے تو صوبائی حکومتوں خصوصاً پنجاب اور سندھ حکومت نے صحت کے شعبے کا بوجھ نجی اداروں اور این جی اوز پر ڈالنا شروع کردیا۔
اطلاعات کے مطابق سندھ حکومت نے رورل ہیلتھ سینٹرز ، بیسک ہیلتھ سینٹرز، اربن ہیلتھ سینٹر ز کو مختلف مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز کے سپرد کرنا شروع کردیا۔ سرکاری ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کراچی کے دیہی اور شہری علاقوں کے آٹھ سو ہیلتھ یونٹس کو این جی اوز کے حوالے کیا جاچکا ہے یا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ان میں کراچی کے ابراہیم حیدری کورنگی، لانڈھی، ملیر، بن قاسم، بابابھٹ شاہ کیماڑی، ماری پور، لیاری، پرانا گولیمار، ہاکس بے، بلدیہ ٹاؤن اور منگھو پیر کے علاقوں میں واقع رورل ، اربن ہیلتھ سینٹرز، بیسک ہیلتھ سینٹر اور بچوں کے اسپتال شامل ہیں۔ نارتھ کراچی میں واقع چلڈرن اسپتال کو بھی ایک غیرملکی این جی او کے سپرد کیا جاچکا ہے اس حوالے سے صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ ’’پرائیویٹ پبلک پارٹیسپشن پروگرام (پی پی پی) کے مختلف اسپتالوں اور ہیلتھ سینٹرز کو این جی اوز اور دیگر اداروں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔
سرکاری اسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا انکشاف !
سندھ میں اس حوالے سے صحت کے شعبے میں جو سرگرمیاں بڑھی ہیں وہ دیکھنے کے قابل ہیں۔ یہ سرگرمیاں فضل اللہ پیچوہو کی بطورسیکرٹری صحت تقرری کے بعد سے شروع ہوئی ہیں۔ فضل اللہ پیچوہو سیکرٹری تعلیم بھی رہ چکے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں انہوں نے جو کچھ کیا وہ بھی ایک تکلیف دہ مثال ہے۔ سیکرٹری صحت فضل اللہ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے بہنوئی ہیں اس لحاظ سے وہ ایک طاقتور بیورکریٹ ہے۔ اسپتالوں اور ڈسپنسریوں، اربن و رورل ہیلتھ سینٹرز کو این جی اووز اور نجی اداروں کے حوالے کرکے اپنی ذمے داریوں کو منتقل کرنے کا منصوبہ موجودہ سیکرٹری صحت کا ہی ہے آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب ہیلتھ سے متعلق ان اداروں کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب عالمی ادارے ہمیشہ ہی سے صحت کے شعبے کے لیے اسپتالوں سمیت دیگر ہیلتھ یونٹس چلانے کے لیے مجموعی طور پر سالانہ اربوں روپے دیتے ہیں تو پھر کیوں انہیں این جی اوز کے حوالے کیا جارہا ہے؟ غیر ملکی اداروں سے فنڈز لینے کے باوجود سرکارکی جانب سے ان اداروں کا انتظام دیگر کے حوالے کرنا کیا اچھا قدم ہوگا؟
کتنے افراد کے لیے کتنے اسپتال اور ڈاکٹرز ہیں!
اب بات کرتے ہیں کہ ملک میں صحت کے حوالے سے موجودہ اسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسوں کی۔ اکنامک سروے کی رپورٹ 2015-16 کے مطابق صحت کی ذمے داریاں فراہم کرنا بنیادی طور پر حکومت کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں سرکاری شعبے میں اسپتالوں کی کل تعداد 11 سو 67 ہے جبکہ ڈسپنسریوں کی کُل تعداد 5 ہزار 6 سو 95، بیسک ہیلتھ یونٹ کی تعداد 5 ہزار 464، رورل ہیلتھ سینٹرز 675 اور مدر اینڈ چائلڈ 733 ہے۔ مالی سال 2015-16 میں ملک بھر میں ڈاکٹروں کی کل تعداد ایک لاکھ 84 ہزار 711، ڈینٹسٹ کی تعداد 16 ہزار 652 اور اسپتالوں میں دستیاب بیڈز کی کُل تعداد 11 لاکھ 8 ہزار 869 ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں اوسطاً ایک ہزار38 مریضوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ اسپتال کا ایک بستر 1613 مریضوں کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اس طرح ایک ڈینٹسٹ اوسطاً11 ہزار 513 مریضوں کے علاج کے لیے دستیاب ہے یہ اعداد و شمار پاکستان میں دستیاب علاج کی سہولیات کا اندازہ لگانے کے لیے کافی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران بیرون ملک مہنگا علاج کراتے ہیں ان کے علاج پر آنے والے اخراجات سے ایک کلینک قائم کیا جاسکتا ہے۔
پرائیویٹ اسپتال اور کلینکس کو کون کنٹرول کرے گا؟
اہم بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اسپتالوں ،کلینک اور ڈاکٹرز کی فیس کا تعین کرنے کے کوئی قانون ابھی تک موجود نہیں ہے جس کے باعث غریب افراد نجی اسپتالوں اور کلینکس سے علاج کرانے کاتصور بھی نہیں کرسکتے۔ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے سیاست دانوں نے آج تک اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے لیے کوئی قانون وضع ہی نہیں کیے ہیں یہ بات جمہوری نظام کے منہ پر طمانچہ سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے70 سال ہورہے ہیں مگر یہاں نہ تو علاج کی سرکاری سطح پر بہترین اور سستی سہولت دستیاب ہے اور نہ ہی نجی اسپتالوں اور کلینکس سے بحالت مجبوری علاج کروانے والوں کے لیے فیس یا چارجز کی وصولی کے کوئی قوانین موجود ہیں۔ کراچی میں نجی اسپتال ’’شوروم ‘‘ بن کر رہ گئے ہیں جہاں غریب کیا متوسط طبقہ بھی جانے سے گریز کرتا ہے کیونکہ بہتر علاج اگر ہوجائے تو فیس کس حساب سے وصول کی جارہی ہے، یہ بتانے والا کوئی نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ علاج کے دوران ڈاکٹرز یا اسپتال کے عملے کی غفلت سے کوئی مریض جاں بحق ہوجائے تو اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس حوالے سے کوئی قانون ہی موجود نہیں ہے نہ ان اسپتالوں کو کنٹرول کرنے والے اتھارٹی موجود ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ حکمراں بیمار نہیں ہوتے یہاں کے تین حکمران غلام محمد، ایوب خان او ریحییٰ خان شدید ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا رہے لیکن ان حکمرانوں نے بھی صحت عامہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ ملک کے مختلف شہروں میں صحت عامہ کے شعبے کی صورت حال کس قدر خراب ہے اِس کا اندازہ شہروں اور قصبوں میں واقع سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے لگایا جاسکتا ہے۔ ادویہ کی شدید قلت، میڈیکل کی ناکافی سہولتوں کے علاوہ اکثر اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی شکایات عام ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ وطن عزیز میں جی ڈی پی کا محض 0.6 فیصد صحت کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔
سرکار ی اسپتالوں میں کرپشن کا نیا طریقہ !
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کراچی کے بڑے سرکاری اسپتالوں کارڈیو وسیکولر ، جناح اسپتال ، سول اسپتال اور امراض اطفال کے اسپتال میں اب کرپٹ عناصر مجبور مریضوں کو نہ صرف بیڈ فراہم کرنے کے لیے رشوت لینے لگے ہیں بلکہ ان کے ساتھ موجود افراد کو بیٹھنے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی پیسے لے کر بینچ فراہم کرتے ہیں جبکہ صاف ستھرے بستر فراہم کرنے کے لیے علیحدہ سے پیسے لیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس وقت سے ہورہا ہے جب سے اسپتالوں کا نظام صوبائی حکومت کے ہاتھ آیا ہے۔
وزیراعظم کا صحت پروگرام بھی کیا بیمار ہوگیا؟
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو صحت کے لیے بھی اپنے نام سے خصوصی پروگرام کے اعلان کی ضرورت پڑتی ہے جیسے میاں نواز شریف نے دو سال قبل ’’وزیراعظم اسکیم‘‘ کے تحت کیا تھا۔ مگر یہ پروگرام کہاں اور کن علاقوں میں چل رہا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہیں دے پارہا۔ ابتدائی طور پر کہا گیا تھا کہ اس پروگرام کے تحت 32 لاکھ خاندان استفادہ کر سکیں گے۔ پروگرام کا آغاز ابتدائی طور پر 15 اضلاع میں کیا گیا ہے، شروع میں 12 لاکھ خاندانوں کو قومی صحت کارڈ جاری کیے جائیں گے بعدازاں ان میں مزید 8 اضلاع کے 20 لاکھ خاندانوں کا بتدریج اضافہ کیا جائے گا مگر لگتا ہے کہ اس پروگرام کو بھی کرپشن کی ہوا لگ گئی ہے یا یہ بھی بیمار ہوگیا ؟
ڈاکٹر کے لبادے میں قسائی
علاج کی سہولت کے حوالے سے ادویہ کا حصول اور ان کی قیمتوں پر کنٹرول کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے مگر حکمران 70 سال میں صرف ڈرگ ریکولیٹری اتھارٹی قائم کرسکے جس کے قوانین اب تک غیر واضح ہے جس کے نتیجے میں ادویہ ساز کمپنیاں جب چاہتی ہیں دوائیوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیتی ہیں۔ ادویہ کی خرید و فروخت کے حوالے سے پڑوسی ملک شاید ہم سے ایک قدم آگے ہے جہاں مختلف ادارے ادویہ کے فارمولے ناموں پر بنی دوائیاں سستے داموں فروخت کرتے ہیں ۔ ان کی قیمتوں میں پچاس تا ستر فیصد کمی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے ملک میں جب ڈاکٹری کے شعبے میں مسیحاؤں کے نام پر موجود قسائی ہوں تو سستی دوائی کا حصول کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ کمپنیاں اپنی ادویہ کی زیادہ سے زیادہ فروخت کو یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹروں کو تحفے تحائف کے ساتھ ساتھ غیر ملکی دورے بھی کراتی ہیں نتیجے میں ڈاکٹر کے روپ میں بیٹھے قسائی ایسی دوائیاں بھی لکھ دیا کرتے ہیں جس کی مریض کو قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ معاشرے میں کرپشن اس نہج پر پہنچ جائے تو اسے روکنے کے لیے ہر شعبے میں جہاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس لیے ہم سب کو ایسے ڈاکٹروں کا احتساب کرنا چاہیے۔

حصہ