(برصغیر میں اسلام کے احیاء اورآزاد ی کی تحریکیں(نجیب ایوبی

296

1930ء تک کی صورتِ حال یہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاست ایک تاریک گلی میں بند ہوکر رہ گئی تھی۔ ان پر یہ احساس غالب آتا جارہا تھا کہ وہ اقلیت ہیں اور ان کے مفادات کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب وہ ہندو اکثریت کی ہاں میں ہاں ملائیں۔
سائمن کمیشن کی رپورٹ کے بعد برطانوی سرکار نے لندن میں گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کانفرنس کے تین دور 10 نومبر 1930ء تا 24 نومبر 1932ء منعقد ہوئے۔ ہندوستان سے شریک ہونے والے مسلمان رہنماؤں نے پہلی گول میز کانفرنس میں ہندوؤں کے زیراثر آتے ہوئے متحدہ ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر اکھنڈ بھارت کے لیے آزاد ہندوستان کا آئینی خاکہ منظور کرلیا تھا۔
مگر ایسے میں ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں پُرزور دلائل کی بنیاد پر یہ ثابت کردیا کہ مسلمان ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ امت اور آزادی کے اس تصور نے برصغیر کی مسلمان سیاست کو اقلیت کی سیاست کی اندھی گلی سے نکال کر مستقبل کے آزاد پاکستان کی جدوجہد کے راستے پر گامزن کردیا۔
ڈاکٹر محمد اقبال کے اس بروقت اعلان نے سرکارِ برطانیہ کے ایوانِ اقتدار میں ایک زلزلہ برپا کردیا۔
’’دی ٹائمز‘‘ لندن نے اپنے ایڈیٹوریل میں آزاد مملکت کے اس تصور کو ’’پان اسلامک سازش‘‘ سے تعبیر کیا۔ جبکہ اُس وقت کے انگریز وزیراعظم سرریمزے میکڈونلڈ نے اس خیال کو ڈاکٹر اقبال کی ایک خطرناک شرارت قرار دیا۔
جس کے جواب میں ڈاکٹر محمد اقبال نے انگلستان کے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
The prime minister of England refused to see that the problem of india is international and not national. Obviously he does not see that the model of British democracy cannot be of any use in a land of many nations.
اور پھر دس سال بعد لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور کرنے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بھی اسی خیال کو کم و بیش انہی لفظوں میں یوں پیش کیا:
The problem in india is not of an international character but manifestly of an international one,and it must be treated as such.
آل انڈین نیشنل کانگریس کی پوری کوشش تھی کہ مسلمانوں کو قوم اور نیشن کے مفہوم کی من مانی تشریحات اور تعبیرات میں الجھا کر متحدہ ہندوستانی قومیت میں پھانس لیا جائے۔ اس کے لیے مذہبی فتووں اور علمائے کرام کا سہارا بھی لیا گیا اور مسلمانوں کو مذہبی دلائل کی بنیاد پر متحدہ ہندوستانی قومیت پر ایمان لانے کے مشورے دیے جانے لگے۔
ان حالا ت میں ڈاکٹر محمد اقبال سینہ سپر ہوکر عقلی استدلال کے ساتھ سامنے آئے اور انہوں نے خطبۂ الٰہ آباد (1930ء) میں دوٹوک اعلان کیا کہ مسلمان جدید معنوں میں ایک الگ قوم ہیں۔ جدید معنوں میں یوں کہ جدید تصورِ قومیت کے مطابق قومیں جغرافیائی اشتراک سے نہیں بلکہ روحانی یگانگت سے وجود میں آتی ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات اور مطالبے کی روشنی میں صوبوں کو خوداختیاری دی گئی اور صوبائی محکمے وزراء کے حوالے کردیے گئے۔
اسی مہم کے نتیجے میں سندھ کو صوبہ بمبئی سے نکال کر علیحدہ مکمل صوبے کا درجہ دے دیا گیا اور سرحد میں دیگر صوبوں کی طرح سیاسی اصلاحات نافذ کردی گئیں۔
1937ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ کی کوشش تھی کہ برصغیر کے عظیم تر مفاد میں کانگریس کے ساتھ سمجھوتا ہوجائے۔ اسی خیال سے ان انتخابات میں مسلم لیگ نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کیا۔
اس الیکشن کے نتیجے میں کانگریس نے گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں اپنی وزارتیں قائم کیں۔ مسلم لیگ اپنے اشتراک کی بدولت یہ سمجھ رہی تھی کہ کانگریس اسے بھی وزارتوں میں شریک کرے گی۔ مگر ایسا نہ ہوسکا اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد کانگریس ہندو ذہنیت کے زیراثر آگئی اور مسلم لیگ سے عجیب و غریب مطالبہ کیا کہ ہم اسی صورت میں مسلم لیگ کو اقتدار میں شریک کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی شناخت ختم کرکے کانگریس میں ضم ہونے کا اعلان کردے۔
کانگریس کی اقتدار میں آنے کی ہوس کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں اس کو اکثریت حاصل تھی وہاں اس نے کسی کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا گوارا نہیں کیا۔ اور جہاں اکثریت نہیں تھی وہاں دوسروں کی مدد سے حکومت بنائی۔ اس طرح کی صورت حال کانگریس کو آسام اور صوبۂ سرحد میں پیش آئی۔
کانگریس متعصبانہ طرزعمل اور متکبرانہ سوچ کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی۔ اسی نشے میں اس نے ایسے اقدامات تسلسل کے ساتھ جاری رکھے جن سے مسلمانوں کی دل آزاری اور ہتک ہورہی تھی۔ بندے ماترم کو قومی ترانہ قرار دیا جاچکا تھا، جبکہ یہ ہندو گیت سراسر مسلم دشمنی پر مبنی کتاب سے ماخوذ تھا۔ یو پی کے مسلمان پڑھے لکھے تھے، اس لیے سرکاری ملازمتوں پر فائز تھے۔ وہاں سے ان کو بے دخل کرنے اور رکاوٹیں ڈالنے کا کام کیا گیا۔ اردو کو ختم کرکے ہندی کو فروغ دیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ جو تعلیمی منصوبہ نافذ ہوا اس کو ’’ودیا مندر‘‘ کہا گیا۔ مسلمان بچوں کو اسکولوں میں بندے ماترم گانے اور گاندھی کی تصویر کو پوجنے کا حکم دیا جاتا۔
کانگریس کی اس متعصب سوچ نے ہندوستانی مسلمانوں کو کانگریس سے مایوس کردیا، اور ہندو راج کے اس کڑوے تجربے نے مسلمانوں کی بروقت آنکھیں کھول دیں۔
اس کے نتیجے میں مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے مجتمع ہونے لگے۔ اس طرح مسلم لیگ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن گئی اور قائداعظم کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔
سندھ علیحدہ صوبہ بن چکا تھا، 1938ء میں مسلم لیگ سندھ کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں مسلم حکومت قائم کی جائے۔
اس طرح مسلمانوں کی قیادت جو اب تک محض آئینی تحفظات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کررہی تھی، پہلی مرتبہ مسلمانوں کی آزاد مملکت کے بارے میں سوچنے لگی۔
دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا، تب کانگریسی وزارتیں مستعفی ہوگئیں۔ اس فیصلے پر مسلم لیگ نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے دسمبر 1939ء میں یوم نجات منانے کا اعلان کیا۔
اب آل انڈیا مسلم لیگ ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوچکی تھی۔ کانگریس کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہندوستان میں رہنے والی مسلم اکثریت کیا سوچ رہی ہے؟ گھاس میں پانی کی طرح پھیلتے ہوئے مسلم لیگ کی عوامی تائید روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔
1939ء میں میرٹھ میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا گیا جس میں آئینی تجاویز کو قابلِ عمل بنانے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کی سربراہی قائداعظم محمد علی جناح کے حصے میں آئی۔ کمیٹی نے دن رات ان تجاویز کو قابلِ عمل بنانے کے لیے کام جاری رکھا اور بالآخر 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تاریخی جلسے کا اعلان کیا۔ پورے ہندوستان کے چپے چپے میں 23 مارچ کا انتظار کیا جانے لگا۔ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے صاحبِ مقدرت لاہور پہنچنا شروع ہوچکے تھے۔ قرب و جوار کے لوگ پہلے سے ہی اپنے عزیز رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہوگئے، اور اس طرح آخرکار 23 مارچ 1940ء کی صبح امید و یقین کی کرنوں کے ساتھ ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئی۔
( جاری ہے )

حصہ