(ماں تو ماں ہے(افشان نوید

480

وہ منظر بھی کیسا دلخراش ہوگا جب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ سیدہ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں، آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ جاری وساری ہے۔ شفقتِ پدری سے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ فرمایا: ’’فاطمہؓ دنیا کی زندگی کا صبر سے خاتمہ کر اور آخرت کی کبھی نہ ختم ہونے والی خوشیوں کا انتظار کر، اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا سے نوازے گا۔‘‘
ایک موقع پر سیدہ کی زرد رنگت دیکھ کر آپؐ نے انہیں خود سے قریب کیا، اپنی ہتھیلی ان کے سینے پر رکھی اور فرمایا:’’ اے رب بھوکے پیٹ کو بھر دے، اے حاجتوں کو پورا کرنے والے اور گرے ہوؤں کو بلند کرنے والے، فاطمہؓ بنتِ محمد ؐ کو بھوکا نہ رکھ۔‘‘ حضرت فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ بابا جان کی اس دعا کے بعد سے مجھے کبھی بھوک نے نہ ستایا۔
ان روایتوں کی روشنی میں خود اپنا اور اپنے سماج کا جائزہ لیں۔ ہم میں سے کسی کے پاس اسبابِ دنیا کم ہو اور کسی کے معاشی حالات ٹھیک نہ ہوں تو معاشرے میں اس گھرانے کو قابلِ رحم گردانا جاتا ہے۔ ہم میں سے کم ہی کوئی کسی کی ایمانی حالت کی فکر کرتا ہے۔ ہمارا سارا زور جسم کی خواہشوں کی تکمیل پر ہے۔ اور معیارِ زندگی کو بلند کرنا ہم نے زیست کا حاصل سمجھ لیا ہے، چاہے معیارِ بندگی کتنی ہی نچلی سطح پر ہو۔ معاشرے میں شرف واکرام کا پیمانہ ہی معاشی خوش حالی قرار پایا ہے، اور اس خوش حالی کے حصول کے لیے ہم سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں۔۔۔!!
دوسری جانب تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ انتہائی کم اسبابِ دنیا رکھنے کے باوجود ایثار وسخاوت کی جو مثالیں ان عظیم ہستیوں نے پیش کیں وہ اس حقیقت کو آشکارا کرتی ہیں کہ ان پر دنیا کی حقیقت واضح تھی اور وہ اس دنیا کو مسافر خانے اور سرائے سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔
کیا آج کے معاشرے میں ہم اس بات کا تصور کرسکتے ہیں جس کی طرف یہ روایت اشارہ کرتی ہے کہ قبیلہ بنو سلیم کے بوڑھے آدمی نے اسلام قبول کیا جو انتہائی مسکین تھے۔ ان کی خوراک کے بندوبست کا مسئلہ درپیش ہوا۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے دروازے پر دستک دی کہ مسکین کی خوراک کا بندوبست کردیجیے۔ سیدہؓ کے دروازے پر سوالی آئے اور خالی چلا جائے یہ تو ان کے باپ کی سنت نہ تھی۔ آبدیدہ ہوگئیں اور فرمایا: ’’اے سلمان! خدا کی قسم آج گھر میں فاقے کا تیسرا دن ہے، دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن سائل کو خالی نہ جانے دوں گی۔ جاؤ میری یہ چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اور اس سے کہو فاطمہؓ بنتِ محمد ؐکی یہ چادر رکھ لو اور اس کے عوض مسکین کو کچھ غلہ دے دو۔‘‘
سلمان فارسیؓ نے یہودی کو چادر تھماتے ہوئے سارا ماجرا بیان کیا۔ سب کچھ سن کر شمعون کے دل کو ایسا جھٹکا لگا کہ دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہ حیران رہ گیا کہ دنیا میں ایسی عظیم ہستیاں بھی موجود ہیں۔ یقیناًیہ جس مذہب کے پیروکار ہیں اس مذہب کی اتنی اعلیٰ تعلیمات ہیں۔ وہ بے اختیار بولا:’’اے سلمان! خدا کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے۔ تم گواہ رہنا میں فاطمہؓ کے باپ پر ایمان لایا۔‘‘ اس کے بعد غلہ حضرت سلمانؓ کے حوالے کرکے ان کی چادر بھی انہیں واپس لوٹا دی کہ جگر گوشۂ رسولؐ کی اس چادر کی تقدیس اس پر عیاں ہوچکی تھی۔ حضرت سلمانؓ نے واپس آکر چادر اور غلہ دونوں سیدہؓ کے حوالے کیے۔ انہوں نے عجلت میں وصول کیا۔ فوراً غلہ پیسا، جلدی سے روٹیاں حضرت سلمانؓ کے حوالے کیں کہ نومسلم اعرابی جو بھوک سے نڈھال ہے اس کے حوالے کردیں۔ حضرت سلمانؓ کو علم ہوچکا تھا کہ ان کے تو اپنے گھر میں فاقہ ہے، اس لیے عرض کیا: ’’میرے آقا کی لختِ جگر کچھ بچوں کے لیے بھی رکھ لیجیے۔‘‘ سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں: ’’سلمان جو چیز میں راہِ خدا میں دے چکی ہوں وہ میرے بچوں کے لیے جائز نہیں ہے۔‘‘ حضرت سلمانؓ نے روٹیاں لے جاکر خدمتِ اقدسؐ میں پیش کردیں۔ آپؐ نے اعرابی کو دیں اور سیدہ فاطمہؓ کے گھر تشریف لائے۔ ان کے سر پر ہاتھ رکھا، آسمان کی سمت دیکھا اور رب سے التجا کی کہ ’’باری تعالیٰ! فاطمہ تیری کنیز ہے، اس سے راضی رہنا۔‘‘ اللہ سیدہ فاطمہؓ سے ایسا راضی ہوا کہ انہوں نے ’’بتول‘‘ کے لقب کی عملی تفسیر بن کر دکھایا دنیا کو۔ وہ ہر حال میں راضی رہیں اور اللہ رب کریم نے انہیں اپنی رضا کے راستوں پر چلنے کا شرف عطا فرمایا۔
اعلیٰ ظرفی کی انتہا
ساری رات باغ کو سینچ کر حضرت علیؓ کو اجرت بھی کیا ملی تھی، ایک صاع بھر جَو بھی نہ تھے۔ جو کچھ ملا تھا، لاکر شریک حیات کے حوالے کردیا کہ بچوں کی بھوک مٹانے کا اہتمام کریں۔ اسے پیس کر اور پکا کر کھانے بیٹھے تھے کہ سائل نے آواز دی کہ ’’بھوکے کا پیٹ بھر دو۔‘‘ سیدہ تڑپ اٹھیں کہ قیامت کے دن اللہ حساب نہ طلب کرلے کہ بھوکا دروازے پر آیا اور تم نے خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ وہ روٹیاں اس کے حوالے کردیں، پھر جَو پیسے، پھر روٹی پکائی۔ ابھی لقمہ منہ تک نہ گیا تھا کہ پھر آواز آئی: ’’کوئی ہے جو یتیم کو کھانا دے۔‘‘ یتیم کبھی سیدہ کے دروازے سے بھوکا نہیں جاسکتا تھا۔ اِس بار کھانا اس کے حوالے کردیا۔ پھر غلہ پیس کر پکا کر کھانے کے لیے بیٹھیں تو ایک مشرک قیدی نے دروازے پر اپنی بھوک کی کیفیت بیان کی۔ اب آخری بار کا غلہ اس مشرک قیدی کی بھوک مٹانے کے کام آگیا۔ اہلِ خانہ کے نصیب میں اس روز کھانا تو نہ لکھا تھا مگر یہ مبارک آسمانی ندا لکھی تھی:
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَام عَلیٰ حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا(سورۃ الدھر)
ترجمہ: اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔
کتنی پسند آئی سیدہ کی یہ قربانی ربِ کائنات کو، اور کیسی سند اتری ان کے لیے قبولیت کی۔ اقبال نے کہا:
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمیؐ
جس رسول کی قوم ترکیب میں خاص ہے اس کے اہلِ بیت تو خاص الخاص تھے، پہاڑی کے روشن چراغ تھے، آسمانوں کے وہ چمکتے ستارے تھے جن کی ضوفشانیوں سے آج بھی کائنات منور ہے۔ جو اپنے لیے عزیمت کی راہیں چنتے ہیں اور دوسروں کے لیے رخصت کی راہیں۔
سیدہ سے پوچھا جاتا ہے کہ چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہوگی؟ اگر وہ اس کا فقہی جواب دے دیتیں کہ ’’ایک اونٹ‘‘ تو یہ معمول کا مکالمہ ہوتا۔ مگر انہوں نے جو جواب دیا وہ رہتی دنیا تک امت کو سوچنے پر بھی مجبور کرتا رہے گا اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ترازو بھی تھما رہا ہے کہ عزیمت کے راستوں کا راہی بننا ہے یا فقہا سے اپنے لیے آسان ترین راستہ دریافت کرنا ہے۔ اسلام تو سہولتیں مہیا کرتا ہے مگر عزیمتوں کا راستہ اس راہ کے راہی اپنے شوق سے چنتے ہیں۔ سنیے، سیدہ فاطمہؓ کا جواب، فرماتی ہیں کہ: ’’چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ تمہارے لیے تو ایک ہوگی، مگر میرے لیے چالیس، کہ میں سارے ہی راہِ خدا میں دے دوں گی‘‘ کہ یہی اہلِ بیتِ رسولؐ کے شایانِ شان ہے۔ یہی نقوشِ پا ہیں جو جنت کے راستوں کے نشان ہیں۔۔۔!!
شرم وحیا
صرف قناعت اور صبر و رضا ہی نہیں، جنت کی شہزادی سیدہ فاطمہؓ نے شرم وحیا میں بھی وہ اعلیٰ ترین نمونہ امت کو دیا جس کی ایک جھلک بھی معاشرے میں نظر آتی تو اس معاشرے کو بہت سے فتنوں سے بچایا جاسکتا تھا۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لاتے ہیں۔ آپؐ کے پیچھے نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ بھی آتے ہیں۔ سیدہ انہیں دیکھ کر چھپ گئیں۔ جب وہ چلے گئے تو آپؐ نے استفسار کیا کہ بیٹی چھپ کیوں گئیں، ابن مکتوم تو اندھے ہیں۔ فرماتی ہیں: ’’ابا جان وہ اندھے ہیں مگر میں تو نہیں، خوامخواہ کیوں نامحرم کو دیکھوں۔‘‘ اسی بنا پر وصیت فرمائی کہ میرا جنازہ رات کو اٹھایا جائے اور جنازے پر کھجور کی شاخیں رکھ دی جائیں تاکہ کسی نامحرم کی نظر نہ پڑے۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ’’عورت کی سب سے اچھی صفت کون سی ہے؟‘‘ انہوںؓ نے عرض کیا: ’’عورت کی سب سے اعلیٰ خوبی یہ ہے کہ وہ کسی غیر مرد کو نہ دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اسے دیکھے۔‘‘
ان روایات کو بیان کرتے وقت ہم اپنے گھروں، اپنی تقریبات اور اپنے سماج کا جائزہ لیں کہ ہم جو ہر نماز کے بعد جنت الفردوس کی دعا کرتے ہیں اور جو جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اُن کے نقشِ پا کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ واضح رہے کہ انہوں نے اہلِ بیت کی عورتوں کی صفت نہیں بتائی تھی کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں بلکہ انہوں نے قیامت تک کے لیے مسلمان عورتوں کی یہ صفت بیان فرمائی تھی کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریں گی تو ان کو ذاتی تزکیہ ہی حاصل نہیں ہوگا بلکہ ایک مسلمان عورت جب حیا داری اپناتی ہے، اپنی نظروں کی حفاظت کرتی ہے تو درحقیقت وہ ایک پاکیزہ سماج کی بنیاد رکھ رہی ہوتی ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہرہؓ نے امت کی عورتوں کے لیے جو کامل نمونہ چھوڑا ہے ضرورت ہے اس سے آگہی حاصل کرنے اور اپنی نسلوں کو بتانے کی۔ ایک مسلمان عورت کی ترجیحات آپؓ نے اپنی زندگی کے عملی نمونے سے طے کردیں۔ آپؓ خود بہت عابدہ، زاہدہ اور ذاکرہ خاتون تھیں۔ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے باندی کا سوال کرتی ہیں تو آپؐ تسبیح فاطمہ کی تاکید کرتے ہیں۔ جواب میں آپؓ یا آپؓ کے شوہر نامدار حضرت علیؓ یہ نہیں فرماتے کہ باندی کا نعم البدل ’’ذکر‘‘کیسے ہوسکتا ہے، بلکہ آپ دونوں پورے شرحِ صدر کے ساتھ واپس آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر وہ توانائی اور طاقت پیدا کرتا ہے کہ انسان ہر مشکل پر غالب آجاتا ہے۔ ذکر صرف وظیفۂ زبان بن کر نہ رہ جائے بلکہ ہمارے عمل کے لیے قوتِ محرکہ ثابت ہو۔ آپؓ نے اپنے اسوے سے ہمیں سکھایا کہ ایک مسلمان عورت کے لیے شوہر اور بچوں کی خدمت اور گھریلو امور کو خوش اسلوبی سے نبھانا عین عبادت ہے۔ جتنی قربانی دی جائے گی اتنا ہی اللہ کے ہاں درجات بلند ہوں گے۔ آپؓ کی سیرت کی روشنی میں مساواتِ نسواں اور تحریکِ آزادئ نسواں کے نعروں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
حضرت فاطمہؓ کے یہی اوصاف و خصائل تھے کہ ان کی ساس اور ان کی سوتیلی مائیں بھی ان کے کردار کی بلندی کی گواہی دیتی تھیں۔ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان کے اخلاقِ عالیہ کو بار بار فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی نے حضرت علیؓ سے حضرت فاطمہؓ کے حسنِ معاشرت کے بارے میں سوال کیا تو وہ آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا: ’’فاطمہ جنت کا ایک خوشبودار پھول تھی جس کے مرجھانے کے باوجود اس کی خوشبو سے اب تک میرا دماغ معطر ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں مجھے کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔‘‘
ان پاک باز ہستیوں کے کردار ہمیں عمل کی دعوت دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک آئینہ رکھ دیتے ہیں کہ اپنے عمل کا بے لاگ جائزہ لیں۔ اگر ابدی جنت کے خواہش مند ہیں تو اپنے کردار کو کچھ تو جنت کی عورتوں کی سردار شہزادی فاطمۃ الزہرہؓ کے قریب لانے کی کوشش کریں۔ کاش حضرت فاطمہؓ کا یہ مبارک ذکر ہمارے اندر اس احساس کو اجاگر کردے کہ
بتولِ باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے دیگری
(بتولؓ بن جا اور فاطمہؓ کی مانند زمانے کی نظروں سے چھپاکر رکھ تاکہ امام عالی مقام جیسے فرزند تیری آغوش میں پروان چڑھیں)
کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ
وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہؓ و فاطمہؓ کے نقشِ قدم
مادراں را اسوۂ کاملِ بتولؓ
(حکیم الامت علامہ اقبالؔ )
یہ روایات طبقات ابن سعد میں مزکور ہیں۔۔۔
مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ
مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ
(سیدہ بتول کی شان یہ ہے کہ وہ تسلیم ورضا کی کھیتی کا حاصل اور ماؤں کے لیے تقلید کا کامل اور بہترین نمونہ ہیں)
بہر محتاجے دلش آں گونہ سوخت
با یہودی چادرِ خود را فروخت
(ایک محتاج کی خاطر ان کا دل ایسے تڑپا کہ اس کی اعانت کے لیے ایک یہودی کے پاس اپنی چادر فروخت کردی)
نوری و ہم آتشی فرماں برش
گم رضا یش و رضائے شوہرش
(نوری بھی اور ناری بھی سب ان کے فرماں بردار تھے، انہوں نے شوہر کی رضا میں اپنی رضا گم کردی)
آں ادب پروردۂ صبر و رضا
آسیا گردان و لب قرآں سرا
(انہوں نے صبر ورضا کے ایسے ماحول میں پرورش پائی تھی کہ چکی چلاتی رہتی تھیں اور لبوں پر قرآن کی تلاوت جاری رہتی تھی)
گریہ ہائے او زبالیں بے نیاز
گوہر افشاندے بد امانِ نماز
(ان کا گریہ تکیہ سے بے نیاز تھا، وہ اپنے آنسوؤں کے موتی جا نماز پر گرایا کرتی تھیں)
اشک او پر چید جبریل امیں
ہم چو شبنم ریخت بر عرشِ بریں
(ان کے آنسو جبریلِ امین زمین سے چنتے تھے اور قطراتِ شبنم کی طرح انہیں عرشِ بریں پر ٹکادیتے تھے)
رشتۂ آئین حق زنجیر پاست
پاس فرمانِ جناب مصطفی ست
(میرے پاؤں میں شریعت کی زنجیر پڑی ہوئی ہے اور جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا پاس ہے)
ورنہ گرد ترتبش گردید مے
سجدہ ہا بر خاکِ او پاشید مے
(ورنہ میں ان کی تربت کا طواف کرتا اور اپنے سجدے اس کی خاک پر نچھاور کرتا)

حصہ