(معافی مانگنا اور معاف کرنا اعلیٰ ظرفی ہے(افروز عنایت

3104

معافی مانگنا اور معاف کرنا اعلیٰ ظرفی ہے افروز عنایت
آمنہ: خیریت، بہت اداس لگ رہی ہو۔
ذکیہ: بس ایسے ہی (تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد)، بہو نے معمولی بات پر بڑی بدتمیزی سے بات کی، میں نے بڑے صبر سے کام لیا ورنہ۔۔۔
آمنہ: اچھی بات ہے، ورنہ اگر تم بھی غصے میں کہہ دیتیں کچھ، تو بدمزگی بڑھ جاتی۔ لیکن تم نے کہا کیا تھا؟ ورنہ تو وہ بچی بھی ایسی تو نہیں لگتی۔ پڑھی لکھی سمجھ دار لگتی ہے۔
ذکیہ: بس معمولی بات تھی، میں نے اسے یہ کہا کہ بچے کو اب سنبھالو، مجھے دوسرا کام ہے۔ بس شروع ہوگئی الٹی سیدھی باتیں کرنے۔ میں تو حیران ہوگئی اُس کے اس انداز سے۔ میری آنکھیں نم ہوگئیں اُس کے اس انداز گفتگو پر۔ صرف اتنا کہہ کر میں اُس کے کمرے سے باہر آگئی کہ بیٹا میں تمہاری ماں کی جگہ ہوں۔ یہ تم کس طرح مجھ سے بات کررہی ہو! پھر سارا دن اُس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ آج صبح میرے کمرے میں آکر مجھ سے معافی مانگی کہ مجھے نامعلوم کیا ہوگیا تھا کہ آپ کے ساتھ بدتمیزی کر بیٹھی، مجھے معاف کردیں۔
آمنہ: یہ تو اچھی بات ہے، اُس نے اپنی غلطی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اعتراف کے ساتھ ساتھ تم سے معافی بھی مانگی، لہٰذا اب تم بھی اُس کی طرف سے اپنا دل صاف کرلو۔ ورنہ تو آج کل لوگ اپنی غلطی ہونے کے باوجود معافی مانگنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور کسی طرح جھکنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اُس کی اعلیٰ ظرفی کی تمہیں قدر کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے اور آپ سب بھی اس سے متفق ہوں گے کہ لوگ اگر دوسرے کے ساتھ زیادتی کے بعد یا کوئی غلطی سرزد ہوجانے کے بعد سامنے والے کے آگے اپنی غلطی کا اعتراف کریں یا معافی مانگیں تو نہ صرف انہیں خود سکونِِ قلب محسوس ہوگا بلکہ سامنے والے کے دل میں بھی اُن کی عزت و محبت بڑھ جائے گی۔ پھر یہ بھی کہ اگر کوئی غلطی، کوتاہی یا کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی کے آپ مرتکب ہورہے ہیں تو معافی اور اعتراف کے بعد کوشش کریں کہ یہ غلطی دوبارہ نہ ہو۔ یعنی اپنی تصحیح کرنا بھی لازمی ہے کہ دیکھیں کہ کہاں اور کیا غلطی ہوئی ہے، اب اسے کس طرح درست کیا جائے۔
بچپن سے ایک محاورہ سنتے آرہے تھے کہ ’’جو ڈالی جھکنا نہ جائے وہ ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔ ماہ و سال بیتتے گئے، زندگی کے رموز و اوقاف سے آگہی ہوتی گئی تو اس محاورے کو سمجھنے کا ادراک بھی حاصل ہوتا گیا۔ آس پاس دیکھا، لوگوں سے واسطہ پڑا، تجزیہ مشاہدہ ہوا تو اندازہ ہوا بلکہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اپنی غلطی کا احساس کرنا اور اس کا اعتراف کرنا اعلیٰ ظرفی کی علامت ہے۔ تعلقات میں، خصوصاً رشتوں اور بندھنوں میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر دوسرے فریق سے معافی مانگنے سے خوشگوار تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ دوسرے فریق کو بھی فراخ دلی سے اس کی معافی کو سراہنا چاہیے، اسے عزت دینی چاہیے۔ بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک بندہ اپنی غلطی کا اعتراف کرکے معافی مانگتا ہے، دوسرے کے دل میں مزید بغض آجاتا ہے کہ دیکھا میرا اندازہ صحیح نکلا، اس نے میرے ساتھ برا کیا ہے، آئندہ بھی اس سے مجھے احتیاط کرنی چاہیے۔ یعنی دونوں طرف سے فراخ دلی کا مظاہرہ تعلقات میں بہتری لائے گا۔ کیونکہ بندہ گناہ کرتا ہے اور جب اسے اپنے گناہ کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی طلب کرتا ہے تو مہربان رب اپنے بندے کا بڑے سے بڑا گناہ معاف کردیتا ہے۔ پھر وہ بندہ رب کی رضا کی خاطر آئندہ اس گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اس مثبت عمل سے بندہ اپنے رب کے قریب ہوجاتا ہے۔ یہی صفت بندوں میں بھی ہونی چاہیے۔ اپنے رب کی خوشنودگی کے لیے بندوں کی معافی کو قبول کرکے نہ صرف انہیں معاف کرنا چاہیے بلکہ ان کے لیے اپنے دلوں کو بھی صاف رکھنا چاہیے۔
ہمارے سامنے آپؐ کی مثالِ عظیم موجود ہے۔ بڑے سے بڑے دشمن کو معاف کردیتے۔ اسی معاف کرنے کی عادت کی بنا پر آپؐ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا۔ یہ عمل صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں بھی نظر آتا ہے۔ انسان بندہ بشر ہے، اس سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں، کچھ صحابہ کرامؓ سے غلطیاں سرزد ہوئیں تو انہوں نے اپنی غلطی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ سزا کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ تاریخِ اسلام میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات نظر آتے ہیں۔ اپنی غلطی پر معافی نہ مانگنا تکبر اور اکڑ پن ہے۔ اپنی غلطی کو تسلیم نہ کرنا اور ضد پر قائم رہنا ایسی خصلت ہے جس کی وجہ سے سوائے دوریوں کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک خاتون جس کا اکلوتا بیٹا ہے، اُس نے اس بڑھاپے میں ماں باپ کو تنہا چھوڑ کر بیوی بچوں کے ساتھ جاکر الگ گھر بسا لیا ہے، وجہ صرف یہ کہ نہ بیٹے کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس ہے کہ ماں باپ سے معافی مانگے، نہ باپ کا دل اتنا کشادہ ہے کہ وہ بیٹے کی غلطیوں پر درگزر سے کام لے۔ اور اس سارے واقعے سے سب سے زیادہ متاثر وہ بوڑھی ماں ہوئی ہے جو بیٹے کے لیے ترستی ہے۔
***
ایک خاتون نے بتایا کہ ’’میں اپنے سسرال والوں کے ناروا رویّے کو یاد کرکے آج بھی اذیت محسوس کرتی ہوں لیکن اللہ نے ہمیشہ میرے دل کو وسیع کیا اور میں کہتی تھی کہ میں نے انہیں معاف کیا، رب العزت میں نے تیری رضا کی خاطر انہیں معاف کیا‘‘۔ اللہ نے ایسے وسائل پیدا کیے کہ نہ صرف اسے ذہنی سکون عطا کیا، آسودگی دی، بلکہ ایک دن ایسا بھی آیا کہ سسرال والوں نے اس کا مثبت رویہ دیکھ کر اس سے معافی بھی مانگی کہ ہماری طرف سے ہمیشہ تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے، ہمیں معاف کردو۔ اس خاتون نے کہا: میں نے تو تم سب کو پہلے ہی معاف کردیا تھا، ’’وہ سب‘‘ میرے لیے ماضی کا قصہ ہے۔ اس طرح دونوں طرف سے حسنِ سلوک کی وجہ سے خوبصورت تعلقات استوار ہوگئے اور دوریاں سمٹ گئیں۔۔۔ اور معاف کرنے اور معافی مانگنے سے بندھن مضبوط ہوگئے۔
***
آپ کا اپنی غلطی کے اعتراف میں بیان کیا گیا ایک جملہ بعض اوقات ’’مرہم‘‘ بن جاتا ہے دوسروں کے لیے۔
نازیہ کی شادی ہوئی تو اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اپنے (سسرال) گھر والوں کے رویّے کو دیکھ کر۔ ان کا سخت رویہ، روکھا پن، ہر بات پر مخالفت اور برا بھلا کہنا اس کی برداشت سے باہر تھا، کیونکہ وہ ایک خوشگوار ماحول میں زندگی گزار کر یہاں تک پہنچی تھی۔ شروع میں تو شوہر بھی ایک ’’خاموش تماشائی‘‘ کی طرح ہر بات کو دیکھ کر چشم پوشی سے کام لے رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد اُس نے بیوی کی شرافت، خدمت گزاری، اعلیٰ ظرفی کا مشاہدہ کیا تو اسے بیوی کی قدر ہوئی، لیکن دوسری طرف بھی اس کے والدین تھے، بہن بھائی تھے، ان کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا تھا، لہٰذا اس نے ایک دن بیوی کو بٹھاکر کہا: مجھے تمہارا احساس ہے، میں دوسروں کو نہیں بدل سکتا، نہ ان کی مخالفت کرسکتا ہوں، نہ ان کو چھوڑنا مجھے گوارا ہوگا، ہاں البتہ ایک بات پر مجھے اختیار ہے، تم میری بیوی ہو میری وجہ سے ’’یہ سب‘‘ تم برداشت کرو اور درگزر سے کام لو۔ میاں کے کہے اس ایک جملے نے بیوی کے اندر ایک ایسی قوت و طاقت پیدا کردی کہ وہ کہتی ہے: ساس یا نندوں کی کوئی بھی زیادتی میرے لیے اب ناقابلِ برداشت نہیں۔ میرے شوہر کے اس جملے نے میری شخصیت اور ہستی میں تقویت پیدا کردی ہے، وہ ایک جملہ میرے لیے ’’ٹانک‘‘ سے کم نہیں ہے۔
آج ہمیں اپنے چاروں طرف ظلم و سفاکی کی داستانیں سنائی دیتی ہیں۔ لوگوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جا رہا ہے، دوسروں کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔ اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ظالم کو اپنے ظلم کا احساس بھی نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے ضمیر مُردہ ہوچکے ہیں جہاں ان کے دل میں رحم کی کوئی کرن نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ حقوق اللہ کی تو معافی رب کی طرف سے مل جائے گی (شرک کے علاوہ)، لیکن حقوق العباد کی معافی تب تک نہ ملے گی جب تک بندہ اُس شخص سے جس کو اُس نے ظلم کا نشانہ بنایا ہے، معافی نہ مانگ لے اور مظلوم اسے معاف نہ کردے۔
صحابہ کرامؓ میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے کفر کی حالت میں کسی سے زیادتی کی تھی یا کسی پر ظلم کیا تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد اپنی غلطی اور ظلم پر روتے تھے اور رب کے حضور گڑگڑاتے تھے۔ حالانکہ وہ ظلم ان سے کفر کی حالت میں سرزد ہوئے۔
یہاں مجھے اُن صحابی کا واقعہ یاد آگیا ہے جنہوں نے کفر کی حالت میں اپنی بیٹی کو ’’زندہ درگور‘‘ کردیا تھا۔ وہ آپؐ کے سامنے اکثر روتے اور اس کا ذکر کرتے۔ آپؐ انہیں تسلی دیتے کہ کفر کی حالت میں تم سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے، اللہ سے توبہ استغفار کرو، یقیناًوہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
مکہ میں ’’مقبرہ شبکیتہ‘‘ وہ مقام ہے جہاں کفارِ مکہ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے، یہاں جب مفتی صاحب نے ہمیں ایسے چند واقعات بتائے تو ہم سب حجاج کرام کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ کسی کے ساتھ بھی چاہے رشتہ دار، دوست احباب ہو، ماتحت یا ملازم ہو، زیادتی اور ناانصافی نہ ہو۔ اگر ہوجائے تو معافی مانگنا افضل ہے۔ یعنی اپنی زندگی میں ہی لوگوں سے معافی مانگ لیں، یہ نہ ہو زندگی وفا نہ کرے اور یہ غلطی آخرت میں رسوائی کا سبب بن جائے، اللہ کی ناراضی کا موجب بن جائے۔ اس طرح آپ کے اس چھوٹے سے عمل سے نہ صرف لوگوں کا دل آپ کی طرف سے صاف ہوجائے گا بلکہ آپس میں خوبصورت تعلقات استوار ہوجائیں گے، آپ کا یہ عمل سامنے والے کے دل کے زخموں پر مرہم اور پھائے کا کام کرے گا، رشتوں اور ناتوں میں مضبوط بندھن پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ اور سامنے والے کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ فراخ دلی سے معافی مانگنے والے کو معاف کرے اور اس کے ساتھ خوش دلی کا مظاہرہ کرے، اس کے اس مثبت عمل اور رویّے کو سراہے۔ اس طرح ہی خوبصورت تعلقات استوار ہوسکتے ہیں، کیونکہ جہاں معاف کرنے سے خوشگوار نتائج اور اچھائی کا امکان ہوتا ہے وہیں بدلہ لینے کی خواہش یا بغض دلوں میں رکھنا ظلم ہے اپنے ساتھ بھی اور سامنے والے کے ساتھ بھی۔ مختصر یہ کہ یہ خوبی بھی اسلامی معاشرے کو مضبوط کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ ہمیں اسلامی معاشرے کو پائیدار کرنے کے لیے ان تمام خوبیوں سے آراستہ کرے، آمین۔
nn

حصہ