(ایمان اور آزمائش(عابد علی جوکھیو

1077

ایمان اور آزمائش لازم ملزوم ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ضرور آزماتا ہے تاکہ حقیقی ایمان اور ناشکروں کو چھانٹ کر الگ کردے، یہی ایمان کی کسوٹی ہے۔ اللہ کی جانب سے آزمائش کا عمل عام ہے، لازمی نہیں کہ آزمائش صرف اللہ کے باغیوں کی ہو، بلکہ اصل آزمائش تو ایمان والوں کی ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اِتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالانکہ ہم اْن سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘ (العنکبوت 2-3) یہی اللہ کی سنت ہے کہ وہ لوگوں کو مخلتف اوقات اور طریقوں سے آزما کر ان کے ایمان کا جائزہ لیتا ہے، تا کہ اس مصیبت پر صبر کرنے والوں کے درجات میں اضافہ کیا جائے۔ ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے، ترجمہ: ’’اور ہم ضرور تمہیں خوف وخطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جا نا ہے،‘‘ انھیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے ر ب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ (البقرہ 155-156)
آزمائش کی صورت میں دو ہی صورتیں سامنے آتی ہیں، ایک یہ کہ بندہ آزمائش میں واویلا مچائے اور اللہ سے شکایت کرتا رہے، اور دوسری صورت یہ کہ بندہ اس آزمائش پر صبر کرے اور اللہ سے اس سے بہتر بدلے کی توقع رکھے۔ ان دونوں میں صورتوں میں کامیاب وہی ہے جو اس حالت میں صبر کرے اور اللہ سے اس کے بدلے کا طالب ہو۔ صبر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت کہا گیا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی آدمی کو صبر سے بڑی اور بہتر نعمت کبھی نہیں دی گئی۔‘‘ (متفق علیہ) صبر کے حوالے سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اصل صبر تو پہلے صدمے کے موقع ہے۔ (متفق علیہ) یعنی آزمائش اور ابتلاء پہنچتے ہی بندے کی زبان سے جو الفاظ اور دل میں احساس جاری ہوں وہیں اصل کیفیت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ وابستہ ہے، (جتنی بڑی آزمائش ہوگی اتنا ہی بڑا بدلہ ہوگا) اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے، اسے آزمائش میں ڈالتا ہے، پھر جو اس آزمائش پر راضی ہو جائے، اسے رضا ملتی ہے اور جو بے صبری دکھائے، اسے ناراضگی ملتی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ، ترمذی)
انسان پر آزمائش کئی صورتوں میں نازل ہوتی ہے، عامر محمد ہلالی نے اپنی کتاب ’’مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں‘‘ میں آزمائش کی درج ذیل اقسام بیان کی ہیں:
1۔ بیماری کے ساتھ آزمائش۔
2۔ قید و بند کے ساتھ آزمائش۔
3۔ استہزاء و تمسخر کے ساتھ آزمائش۔
4۔ گالم گلوچ کے ساتھ آزمائش۔
5۔ اذیت، مار پیٹ اور سزا کے ساتھ آزمائش۔
6۔ خوف اور بے چینی کے ساتھ آزمائش۔
7۔ فقر و فاقہ، مال اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ آزمائش۔
8۔غم اور فکر کے ساتھ آزمائش۔
9۔ جلاوطنی کے ساتھ آزمائش۔
10۔ دشمن کے تسلط اور غلبے کے ساتھ آزمائش۔
11۔ حاسدوں اور منافقوں کے پروپیگنڈوں کے ساتھ آزمائش۔
12۔ قریبی رشتے دار کی موت اور دوست کی گمشدگی کے ساتھ آزمائش۔
13۔ بھوک کے ساتھ آزمائش۔
14۔ رسوائی، تہمت، احساسات کے مجروح ہونے اور شہرت کے خراب ہونے کے ساتھ آزمائش۔
15۔ ظالموں کی طرف سے حملے، دھمکی اور ان کے ہاتھوں خوف زدہ ہونے کے ساتھ آزمائش۔
16۔ اپنے گھر والوں کے متعلق اس خوف کے ساتھ آزمائش کہ انھیں اس کی وجہ سے کوئی اذیت پہنچے اور وہ اس اذیت کو اْن سے دْور کرنے کی طاقت بھی نہ رکھے۔
17۔ بیوی بچوں پر نازل ہونے والی تکالیف کے ساتھ آزمائش۔
درج بالا اور ان کے علاوہ بھی کئی آزمائش کی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ لیکن آزمائش کے موقع پر اصل کامیاب وہی ہے جو اس پر صبر کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آزمائش کو بندے اعمال کی بلندی کا ذریعہ بھی بنایا ہے کہ جب بندہ آنے والی آزمائش پر صبر کرتا ہے اور اللہ سے کوئی شکایت نہیں کرتا تو اللہ اس کے درجات کو بلند کردیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے ہاں بندے کے لیے ایک مرتبہ مقرر ہوتا ہے جہاں تک وہ اپنے عمل کی بدولت نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ اسے اس مرتبے تک پہنچا دے۔‘‘ (ابن حبان)
آزمائش کا نازل ہونا درحقیقت انسان کے سنبھلنے کے لیے ایک موقع ہوتا ہے کہ انسان اس آزمائش سے اپنی اصلاح کرلے، اس کے علاوہ علما نے آزمائش کی کئی وجوہات بیان کی ہیں۔ اگر کوئی کسی آزمائش کا شکار ہو تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں اس کے کوئی گناہ یا غلط کام تو سرزد نہیں ہوتا۔ اگر اس کے ایسا کوئی کام ہوا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ فوراً اپنے گناہ کی معافی مانگ کر اپنی اصلاح کرے۔ اور اگر اس شخص کو اپنی کوئی غلطی یا گناہ نظر نہ آئے تب بھی اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس آزمائش پر صبر کے ذریعے اللہ سے اپنے لیے اعلیٰ مرتبے کی بھی امید کرے۔ ہمیں اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت بھی صالح لوگ مختلف آزمائشوں کا شکار ہوجاتے ہیں، کبھی بیماری کی صورت میں، کبھی گھر کی طرف سے تو کبھی معاش کی فکر۔۔۔ الغرض مختلف قسم کی پریشانیوں میں گھرے رہتے ہیں، درحقیقت یہی وہ افراد ہوتے ہیں جو اللہ کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور اللہ ان آزمائشوں کے ذریعے ان کے درجات بلند اور اپنا قرب دینا چاہتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندے پر اللہ خوب انعامات کرتا ہے، یہاں تک ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ بندہ اپنے رب کو بھول جاتا ہے، ایسے میں بھی اللہ آزمائش میں مبتلا کرکے اپنے بندے کو اپنی طرف متوجہ کراتے ہیں، یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ وہ خود اپنے بندے کو اپنی طرف متوجہ کرکے اسے اصلاح کا موقع فراہم کرتے ہیں، وگرنہ ایسے میں کئی لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جن کو اللہ اس بات کو توفیق ہی نہیں دیتا کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہوکر اپنی مغفرت کرواسکیں۔
درحقیقت یہ مختلف قسم کی آزمائشیں ہمارے درجات کی بلندی کے لیے ہی ہیں، لیکن یہ ہماری کوتا نظری ہے کہ ہم اس کا ادراک ہی نہیں کرپاتے، وگرنہ ان پر صبر کرکے ہم اپنے مرتبے بلند کرواسکتے ہیں۔ لوگوں کو مصیبت میں دیکھ کر ان کی مدد کرنا بھی درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر رحم کیا ہوا ہے اور ہمیں کسی آزمائش میں مبتلا نہیں کیا تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ جو لوگ آزمائشوں کا شکار ہیں ان کی مدد کریں، اس کے اصلاح احوال کی فکر کریں، اس ان کو مشکلات اور مصائب سے نکالنے کی کوشش کریں۔ یہاں آزمائش سے صرف جانی یا مالی آزمائش نہ لی جائے بلکہ آزمائش کی درج بالا تمام صورتوں سے نکلنے کے لیے اللہ کے بندوں کی مدد کرنا مراد ہے۔ اگر کوئی استہزا و تمسخر، گالم گلوچ، بے چینی یا حسد کی آزمائش کا شکار ہے تو اس حالت سے نکالنا بھی اس کی مدد ہے۔

حصہ