(نوجوان نسل کو برباد کرنے والے ڈرامے کون روکے گا؟ (قدسیہ مدثر

361

نجی ٹی وی پر ایک ڈراما دیکھا۔ دوخواتین کی دوستی دکھائی گئی اور جب ان میں سے کسی ایک کی شادی ہوجاتی ہے تو دوسری اس کے شوہر سے تعلق بناکر دوست کا دل میاں سے خراب کرتی ہے، پھر وہ ناراض ہوکر دوبارہ اسی دوست کے پاس آجاتی ہے۔ ڈرامے کے آغاز سے اختتام تک دوعورتوں کے آپس میں تعلقات دکھائے گئے۔ یہ چیز پہلی بار کسی ڈرامے میں واضح بتائی گئی۔ ایک عورت کا دوسری عورت سے ایسے تعلقات بنانا جو کہ اس کے شوہر کے تھے، ہم جنس پرستی کہلاتی ہے۔ ہم جنس پرستی کی تحریک کو کھلے عام ڈراموں کے ذریعے پاکستان کے ہر گھر میں پہنچانا کسی خاص ایجنڈے کی طرف پیش قدمی ہے، جو اسلامی تعلیمات کے منافی فعل ہے۔
یہ روشن خیال اور سیکولر لابی اپنے بھیانک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان ڈراموں اور اشتہارات کا سہارا لے کر ہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ موجودہ نسل ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے تجربات کو معاشرے میں وقوع پزیر ہوتے دیکھ رہی ہے، خواہ وہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں سرِ عام محبت اور اس کے انجام تک کا سفر ہو۔ کم سن بچے کا استانی سے محبت کی پاداش میں خودکشی کرلینا، نکاح کو مشکل اور زنا کو چند ٹکوں میں ہوتے دیکھنا، طلاق جیسے ناپسندیدہ فعل کا ڈراموں کے ذریعے ترغیب دیا جانا۔۔۔ وہاں اس ڈرامے کو نشر کرنا دراصل ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر منظر پر لایا گیا ہے کہ دیکھا جائے یہ بے حس عوام ٹھنڈے پیٹوں ان ایشوز کو بھی ہضم کرنے کی صلاحییت رکھتے ہیں یا نہیں اور اگر عوام میں یہ صلاحیت پائی گئی تو یقیناًکچھ ہی دنوں میں اس سے بڑھ کر کوئی نیا آئٹم منظرعام پر آئے گا۔
جس طرح پہلے بسوں میں بے ہودہ گانوں کا رواج آیا، جب ڈرائیور حضرات نے دیکھا کہ عوام کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا تو گانوں کی جگہ وی سی آر نے لے لی، جو کھلی فحاشی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ دراصل، پہلے اس طرح کے ایشوز کو منظرعام پر لاکر ٹیسٹ بنایا جاتا ہے اور ردعمل کا انتظار کیا جاتا ہے اور اگر ردعمل سامنے نہ آئے تو اس سے بڑھ کر چیز لانے کی پلاننگ کی جاتی ہے۔
کیا کبھی سوچا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟ صرف اور صرف ہماری غفلت کی وجہ سے۔ اگر ہم یوں ہی خاموش رہیں گے تو یقیناًکشتی کے نیچے والے جب کشتی میں سوراخ نکالیں گے تو کشتی پوری کی پوری ہی ڈوبے گی۔ ہمیں اس وطن عزیز کی کشتی میں سوراخ نکالنے والوں کو منع کرنا چاہیے۔ ایسے موضوعات پر آواز اٹھائیں اور حکومت کی کبوتر کی طرح بند آنکھوں پر سہارے مت تلاش کریں۔ پیمرا کو اس کی ذمے داری کا احساس دلایا جائے کہ ٹی وی چینلز کو اصول وضوابط کا پابند بنائے۔ ہر ڈرامہ سنسر بورڈ کے ذریعے پاس کروا کر نشر کیا جانا چاہیے۔ کسی چینل کو اسلامی و ملّی تعلیمات اور ہماری اقدار کو پامال کرنے کی جرأت نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رکھیں اگر ایسا نہ ہوا تو اللہ نہ کرے ہمارا حال بھی قوم لوط جیسا ہو، جو ہم جنس پرستی کے گھناؤنے فعل کے سبب اللہ کے عذاب کا نشانہ بنی۔
nn

حصہ