332

جہیز ارم فاطمہ
چل چل کے پھٹ چکے ہیں قدم اس کے باوجود
اب تک وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں
دنیا کی دیگر اقوام اور ان کی تہذیبیں ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی زندگی کے ثمرات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے اسلاف کی تابندہ روایات اور کام یابیوں کو لے کر آج بھی اس مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں دنیا کے بہترین مذہب اسلام کی سہل اور آسان تعلیمات کو بھلا کر غیروں کی معاشرت اور ثقافت کے رنگوں سے اپنے معاشرے کو تنزلی کی سمت دھکیل رہے ہیں۔
ہم کیسے انسان ہیں؟ برسوں سے ہر سمت سے اٹھتی اصلاحِ معاشرہ کی آوازوں میں آواز ملا دیتے ہیں مگرایک قدم آگے بڑھ کر خود اپنے عمل سے معاشرے کی دیمک زدہ دیوار کو تھام کر سہارا نہیں دیتے۔ کہتے ہیں بے عمل کوشش اُس خالی برتن کی طرح ہوتی ہے جو آواز تو کرتا ہے مگر جب تک اس کو قدم بڑھا کر پانی سے نہ بھرا جائے یہ کسی کی پیاس نہیں بجھا سکتا۔ صالح معاشرہ افراد کے باہمی سلوک اور ایک دوسرے کے لیے رواداری کے جذبات سے وجود میں آتا ہے۔
اس عمل پر قرآن پاک میں کئی مقامات پر مدد کا وعدہ دوہرایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو ہم تمہاری مدد کریں گے اور تمہارے قدموں کو استقامت بخشیں گے‘‘۔ لیکن ہم اپنے فرائض سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے کی برائیوں کے خاتمے کی ابتدا دوسرے کی ذات اور اُس کے گھر سے ہو۔ ہر طرح کی تبدیلی کا آغاز کوئی اور کرے۔ یہ خیال شاید ہی کسی کو آتا ہو کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کا فریضہ ہم پر بھی عائد ہوتا ہے۔
اسلام نے نہایت سادہ انداز میں ضابطۂ حیات پیش کیا، مگر ہم نے اپنے خودساختہ تصورات اور خواہشات کی حرص میں زندگی کو نہایت مشکل سے مشکل بنادیا ہے۔ اب نکاح کو ہی لے لیجیے، نکاح ایک ایسا معاملہ ہے کہ جس کے پاس ایک پیسا بھی نہ ہو، وہ بھی نکاح کرسکتا ہے اور سنت پوری کرسکتا ہے۔ مگر آج معاشرے میں اس سے جڑی اور جا بہ جا پھیلی رسموں کو دیکھ کر لگتا ہے یہ محض ایک سنت نہیں بلکہ نمود و نمائش کا ذریعہ ہے۔
اس سے جڑی ایک لعنت اور سماجی برائی جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، وہ جہیز کی پھیلتی وبا ہے، جس کے قدم اس قدر گہرائی تک گڑے ہیں کہ اس نے ہر احساس کو مادیت پرستی اور حرص میں چھپادیا ہے۔
ولیمہ سنت ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق کیا جاتا ہے۔ قرآن، سیرتِ رسولؐ اور سیرتِ صحابہؓ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جہیز اور اس کے تمام اخراجات جن کا بوجھ لڑکی کے والدین پر پڑے، وہ جائز نہیں، اس لیے برصغیر کے سوا کہیں یہ تصور موجود نہیں۔ عرب معاشرے میں لڑکی اور اس کا ولی ہونے والے شوہر اور داماد سے خطیر رقم کا مطالبہ کرتے تھے، اور یہ رواج آج بھی خلیجی ممالک میں موجود ہے۔
ہندوستان کے ہندو معاشرے میں جہیزکا تصور ملتا ہے۔ ان کے نزدیک شادی کے بعد لڑکی کا خاندان سے رشتہ باقی نہیں رہتا، اس لیے شادی کے موقع پر ہی کچھ دے کر رخصت کردیا جاتا ہے۔ اسے وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ اسلامی شریعت میں ماں کو اپنی اولاد سے، بیٹی کو اپنے باپ سے ترکے میں اور بیوی کو اپنے شوہر کے ترکے میں میراث ملتی ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے ہندو معاشرے سے متاثر ہوکر جہیز کی غلط رسم کو اختیار کرلیا اور دوسری طرف عورتوں کو وراثت کے حق سے محروم کرنے لگے۔ ان غیر اسلامی رسوم اور خرافات کا نتیجہ ہے کہ آج کے دور کے مسلمان دورِ جاہلیت کے عربوں کی طرح لڑکی کی پیدائش پر اس فکر میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اس کے جہیز کی تیاری میں کیسی مشکلات کا سامنا ہوگا؟
ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ مذہب میں اختلاف ہونے پربات بحث و تکرار اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ لوگوں کی دین سے محبت کا ثبوت ہے، مگر جہاں بات ان احکامات کی آتی ہے جن کا تعلق ضمیر سے ہے، جیسے رشوت، اسراف، جھوٹ، بددیانتی، خیانت۔۔۔ وہاں لوگ ایسے جواز پیدا کرلیتے ہیں کہ یہ مذہب کے علَم بردار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
جہیز کا لین دین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہم سبھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ معاشرے کی بدترین برائی ہے، لیکن پھر بھی یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے جسے ہم اپناتے ہیں اور عمل کرتے ہیں اور اس کے شکنجے میں جکڑے زندگی کو مشکل سے مشکل بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف آواز بَلند نہیں کرتے، بلکہ جواز دیتے ہیں:
1۔ قرآن و حدیث میں جہیز لینے سے کہاں منع کیا گیا ہے؟
2۔ لوگ اپنی بیٹی کو خوشی سے دیتے ہیں اور اس صورت میں لینے میں کیا برائی ہے؟
3۔ جہیز دراصل تحفہ ہے، تحفہ لینا سنت ہے۔
4۔ شادی کے دن کھانا کھلانا مہمان نوازی ہے اور یہ جائز ہے۔
5۔ اس رسم کو مٹانا ناممکن ہے۔ اور جب سبھی ایسا کررہے ہیں، جہیز لے رہے ہیں اور ہم بھی لے رہے ہیں، تو کون سا برا کام کررہے ہیں!
یہ محض ان کی کم علمی اور جہالت ہے کہ قرآن میں اس بارے میں احکامات نہیں ملتے۔ وہ قرآن جو زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، وہاں عائلی زندگی اور اس کے احکامات نہ ملتے ہوں؟ بات غورو فکر کی ہے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔
سورہ النسا کی آیت 92 کا ترجمہ ہے: ’’اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضامندی سے‘‘۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکی کے باپ کی مشکل یہ کہہ کر آسان کردی جائے کہ آئیں چلیں سادگی سے نکاح کرلیتے ہیں۔ اس سے بڑی مدد اور کیا ہوسکتی ہے، لیکن وہ یہ جانتے ہیں کہ چاہے مجبوری سے یا معاشرے میں عزت بنانے کی خاطر جو کچھ وہ اپنی بیٹی کو دیں گے وہ بالآخر ان کی امانت ہے، کیوں کہ وہ بیٹے کے باپ ہیں۔
معاشرے کے ہر فرد کی سوچ اس قدر مادیت پرست ہوچکی ہے کہ ہر خاندان، لڑکی اور اُس کے گھر والوں کی دینی عادات اور اخلاق و اطوار کو نظرانداز کرکے اپنے بیٹے کا رشتہ وہیں جوڑنا چاہتا ہے، جہاں جہیز کے نام پر بڑی رقم مل سکے۔ اس سودے بازی میں بدنام صرف لڑکے والے ہی نہیں ہیں، یہ سودا لڑکی والے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ بیرونِ ملک جاب کا لالچ، گرین کارڈ ہولڈر لڑکی، خود کا اپنا بزنس سیٹ کروانے کا لالچ، یا پھر اپنے بزنس میں شراکت داری۔۔۔ یہ تمام آفرز معاشرے کو لالچ کی سمت دھکیل رہی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ نادار گھرانوں کی سلیقہ شعار لڑکیوں کی بڑی تعداد بن بیاہی اپنی عمر کی منزلیں ماں باپ کی چوکھٹ پر ہی گزار دیتی ہے، کیوں کہ ان کے والدین جہیز نہیں دے سکتے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک جہیز کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر باپ اپنی بیٹی کو اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اسے ہدیہ یا تحفہ سمجھ کر ہنسی خوشی قبول کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو کہا تھا ہمیں لڑکی کے سوا کچھ نہیں چاہیے، جو آپ دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے۔ یہ بھی ایک طرح کا دھوکا اور فریب ہے جو معاشرے میں عام ہے۔ اس پر عمل کرنے والے ڈھونڈتے ہی ایسے گھرانوں کو ہیں جہاں آس ہوتی ہے کہ بہت کچھ ملے گا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہدیہ اور تحفہ عین شادی والے دن ہی کیوں مانگا جاتا ہے۔ کبھی فہرستیں بناکر دی جاتی ہیں، کبھی اس شرط پر رشتے بنائے جاتے ہیں کہ ابھی شادی ہوجائے، بعد میں سارے مطالبات پورے کردیے جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ ماں باپ اپنی خوشی اور استطاعت کے مطابق دے دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی مقصد ہوتا ہے کہ کہیں سسرال میں ان کی بیٹی کوطعنے سننے کو نہ ملیں۔ مگر یہ بھی ان کی سادہ لوحی ہے۔ جہیز کی آس پوری ہونے تک ان کی لاڈلی بیٹی کو کیا کیا سننا اور برداشت کرنا پڑتا ہے، یہ صرف اس کا دل ہی جانتا ہے۔
تبدیلی کا عمل خود سے شروع کریں۔ اس تبدیلی کا راستہ یہ ہے کہ بارش کے پہلے قطرے کی مانند آپ اپنے گھر کی شادی اسلامی شریعت کے مطابق کریں۔ یہ مثال آپ کے خاندان والوں اور دوست احباب کو سوچنے پر مجبور کردے گی کہ اگر آپ معاشرے کے رواجوں سے ہٹ کر راہ بنانے کی ہمت کرسکتے ہیں تو پھرمعاشرے کا ہر فرد جہیز کے خلاف اپنی زبان اور عمل سے جہاد کا آغاز کرسکتا ہے۔ ایسی تمام شادیوں کا بائیکاٹ کریں جہاں یہ غیر اسلامی رسوم اور حرام کام کیے جاتے ہیں۔ انقلاب کا راستہ خودبخود کھل جائے گا۔ جہیز کو مٹانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ لوگ اتنے بزدل ہیں کہ ایک طرف تو اقرار کرتے ہیں کہ جہیز لینا اور دینا غلط ہے، لیکن عمل کے وقت ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
یہی ایک بات معاشرے کے زوال اور انحطاط کا سبب ہے کہ ابتدا کون کرے؟ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد مدنی کا ایک واقعہ نظر سے گزرا۔ ’’ایک بار مولانا ٹرین سے سفر کررہے تھے۔ ساتھ والی نشست پر سوٹ میں ملبوس ایک صاحب تشریف فرما تھے۔کچھ بات چیت ہوئی۔ ان صاحب کو مولانا کچھ دقیانوس سے لگے اس لیے زیادہ بات نہ ہوسکی۔ ان صاحب کو بیت الخلا جانے کی حاجت ہوئی، مگر دروازہ کھولتے ہی انہوں نے ناک پر رومال رکھ لیا اور واپس سیٹ پر آکر بیٹھ گئے۔ کئی مرتبہ ارادہ کیا مگر ہمت نہ ہوئی۔ اب مولانا حسین احمد اٹھے اور لوٹا لے کر بلاجھجک اندر داخل ہوگئے اور دروازہ بند کرلیا۔ ان سوٹ والے صاحب نے مولانا کی بے حسی پر منہ بنایا۔ دس پندرہ منٹ بعد مولانا باہر آئے اور ان سے کہا: واقعی آپ کا جانا بہت مشکل تھا۔ اندر بے حد غلاظت تھی، مگر آپ کی ضرورت دیکھ کر میں رہ نہ سکا، میں نے اچھی طرح صفائی کردی ہے، اب آپ اطمینان سے جاسکتے ہیں‘‘۔
بات یہی ہے کہ ہر شخص معاشرے میں پھیلی غلط روایات کو دیکھ کر منہ بناتا ہے، اُن کی غلاظت سے ناک پہ رومال رکھتا ہے، مگر آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش نہیں کرتا کہ میں غلاظت کو ختم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھاتا ہوں۔ اتنا بڑا کام اور اس کی تکمیل ایک آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یہ احساس تو ہے کہ معاشرے کو تبدیلی کی ضرورت ہے، مگر لوگ یہ نہیں جانتے کہ تبدیلی کس طرح لائی جائے اور اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ بہت سے افراد اداروں سے توقع لگائے بیٹھے ہیں یا پھر کسی غیبی امداد کے منتطر ہیں۔
قرآن کریم، احادیث اور سیرتِ رسول پاکؐ کی سند کے بعد کیا کوئی دلیل شادی بیاہ کی فضول رسموں اور جہیز کے حق میں باقی رہ جاتی ہے؟ اوّل تو اس کا آغاز اپنے گھر سے کریں اور پھر معاشرے میں اصلاح کا کام شروع کریں تو حالات میں بہتری ضرور آئے گی۔ جب آپ کسی کی بیٹی کے لیے زندگی میں آسانی کی راہ کھولیں گے تو کوئی اور آپ جیسا آپ کی بیٹی یا بہن کے لیے پہلا قدم اٹھائے گا اور تبھی شاید وہ وقت بھی آئے کہ باپ کی نگاہیں بیٹی پر پڑیں تو تفکرات اور پریشانی کے بجائے اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ ہو۔ تب زندگی آسان ہوجائے گی اور معاشرہ بہتری کی راہ پرگامزن ہوجائے گا!!

حصہ