(یہ وقت حسن بیاں کا نہیں(صبا چودھری

279

آج کے دور میں والدین شکوہ کناں ہیں کہ ان کی تعلیم و تربیت کی تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہیں تو دوسری طرف اساتذہ کرام کا بھی یہی رونا ہے کہ طلبا میں تربیت کا فقدان ہے ۔اداروں کے ماحول کو پاکیزہ اور علم کے حصول کے لیے سازگار بنانے کی تمام تر سعی نقش بر آب ثابت ہورہی ہیں۔ اس صورت حال سے تنگ آکراساتذہ کرام طلبا کو ان کے حال پر چھوڑ کر بری الذمہ ہو گئے ہیں اور شاکی ہیں کہ ان کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو اساتذہ کے شایان شان ہوا کرتا تھا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان ادب و احترام کا رشتہ مفقود ہوگیا ہے ۔معاشرہ استاد کو تنخواہ دار ملازم سے زیادہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں۔آخر اس معاشرتی اور اخلاقی زوال کا سبب کیا ہے؟
کیا آج کے اساتذہ کرام ماضی کے اساتذہ کرام سے زیادہ فعال نہیں، جن کے جوتے اٹھانے کو خلیفہ کے بیٹے جھگڑتے تھے۔۔۔اساتذہ کی ناقدری اور بے وقعتی کا سبب کہیں خود ان کے قول و فعل میں تضاد تو نہیں؟
آج ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم اصلاح کا محتاج دوسروں کو سمجھتے ہیں اور اپنی حالت زار پر توجہ نہیں دیتے۔ اساتذہ کرام کا عمل خود ان کے قول کی نفی کر رہا ہوتا ہے ۔استاد طلبا کو وقت کی قدر کا درس دے رہا ہوتا ہے اور خود ان کے وقت کو اپنے ذاتی کاموں میں ضائع کررہا ہوتا ہے ۔طلبا کو خیانت سے دور رہنے اور ایمان داری کو اپنانے کی صلاح دے رہا ہوتا ہے، اس کے بر عکس وہ خود درس و تدریس کے وقت میں اپنے ذاتی کام ( اخبار پڑھنا ، تسبیح گھمانا یا موبائل کا استعمال وغیرہ ) کر کے خیانت کررہا ہوتا ہے۔
ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ ایسے استاد کی کہی بات کی نا قدری کیسے نہ ہو۔ ان حالات میں ہم صرف بچوں کو تربیت کی کمی کا ذمے دار نہیں ٹھہرا سکتے ۔ دراصل، ہم دوسروں کی اصلاح میں اپنی اصلاح بھول گئے ہیں، جب کہ قرآن پاک میں اس عمل کی نشان دہی کے ساتھ خوف ناک وعید بھی آئی ہے۔
’’ کیا حکم کرتے ہو تم دوسرے لوگوں کو نیکی کے کام کا اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو حالاں کہ تم تو تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی، پھر تم کیوں نہیں سوچتے۔‘‘ (البقرہ ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شب معراج میرا گزر کچھ لوگوں پر ہوا، جن کے ہونٹ اور زبانیں آگ کی قینچیوں سے کترے جا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا: ’’ یہ کون لوگ ہیں ؟‘‘ جبرئیل نے فرمایا کہ یہ آپ کی امت کے دنیا دار واعظ ہیں جو لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرتے تھے، مگر اپنی خبر نہ لیتے تھے ۔(ابن کثیر )
کہتے ہیں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ کہ کیا ہمارے دل سے نکلی ہوئی اس قدر اثر انگیز ہے؟ ضرورت کردار کے غازی بننے کی ہے، گفتار کے غازی تو دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ضرورت اپنی اصلاح کی ہے۔ اپنے اسلاف پر نگاہ دوڑائیے، آخر ان کے قول میں ایسی کیا تاثیر تھی کہ لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جاتے تھے اور آج کے مبلغین کے ہزاروں بیانات بھی کوئی اثر نہیں رکھتے۔ اپنے اقوال و افعال کو قرآن و سنت کے تابع کر لیں گے تو ہماری سادہ سی بات میں بھی وہ اثر ہوگا، جو کسی عظیم مبلغ کے مسجع و مقفی بیان میں نہ ہوگا ۔
آئیے، آغاز اپنی اصلاح سے کرتے ہیں۔ اپنے کردار میں اپنے اسلاف کے سے اوصاف پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ زندگی کے رخ باتوں سے نہیں بلکہ جدوجہد سے بدلا کرتے ہیں، اسی لیے اللہ نے قرآن کو کافی نہیں سمجھا بلکہ عمل کے طریقے سکھانے کی لیے انبیاکرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اپنے عمل کو کڑی نگاہ سے پرکھ کر انبیا کرام علیہ السلام کی سنت پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح اگر والدین بچوں کی اچھی تربیت کے خواہاں ہیں تو انہیں اپنے عمل سے بچوں کے لیے روشن مثال بننا ہوگا، ورنہ اصلاح کی ہر کوشش یونہی رائیگاں جاتی رہے گی!!

حصہ