(صحافت پر حملے ،کب کیا ہوا(مہوش کنول

248

صحافت دنیا کا ایک معتبر اور مقدس پیشہ ہے۔ سیاست داں سے لے کر عام آدمی تک صحافت کے مختاج ہیں، لیکن بدقسمتی کہ ملک کے باقی تمام شعبوں کی طرح صحافت بھی ایک ایسا ہی شعبہ ہے جس پر آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ٹوٹتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک دھماکا ہوا۔ گزشتہ دنوں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جب کراچی کی فائیو اسٹار چورنگی کے قریب پولیس کی بکتر بند پر ایک کریکر حملہ ہوا اور اس کی کوریج کے لیے جانے والی سما ٹی وی کی ڈی ایس این جی وین کو کے ڈی اے چورنگی کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ کچھ نا معلوم افراد کی جانب سے کی گئی فائرنگ سے اسسٹنٹ انجینئر تیمورگردن میں لگنے والی گولی اور ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کے باعث جاں بحق ہوگئے۔پھر لاہور میں بھی دھماکا ہوا جس میں آج نیوز کے ڈی ایس این جی مکمل طور پر تباہ ہوئی اورسننے میں آیا کہ یہ واقعہ کسی چینل کے خلاف نہیں بلکہ میڈیا کے خلاف لگتا ہے، کیوں کہ نشانہ بنائی گئی ڈی ایس این جی پر کسی چینل کا نام نہیں تھا۔ تمام اداروں اور سیاست دانوں کی جانب سے اس واقع کی پر زور مذمت کی گئی اور ایف آئی آر بھی درج کی گئی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں صحافت پر کیاجانے والا یہ پہلا جان لیوا حملہ نہیں تھا، اس سے قبل بھی متعدد صحافیوں کو شہید کیاجاچکا ہے۔
2016 میں کوئٹہ کے سول اسپتال میں وکلا کے مظاہرے کی کوریج کے دوران خود کش حملے میں 2 کیمرا مین جاں بحق ہوئے۔ اس کے علاوہ میڈیا سے وابستہ 16 افراد اپنے ابلاغی اداروں کے لیے کوریج دیتے ہوئے زخمی ہوئے اور ایک میڈیا ایگزیکٹو کو پشاور میں اغوا بھی کیا گیا۔ 8 ستمبر 2015 کو کراچی میں جیو نیوز کی ڈی ایس این جی پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ڈی ایس این جی آپریٹر ارشد علی جعفری ہلاک اورایک ڈرائیور زخمی ہوگیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ جنگ میڈیا گروپ سے وابستہ نام ور صحافی حامد میر کو 19اپریل2014 کو دہشت گردوں نے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔
17 جنوری 2014 کو دہشت گردوں نے میٹرک بورڈ آفس کے قریب ایکسپریس نیوزکی ڈی ایس این جی وین پر فائرنگ کر کے ٹیکنیشن وقاص، گارڈ اصغر اور ڈرائیور خالد کو شہید کردیا تھا اور یوں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران یہ افراد موت کی وادیوں میں گم ہوگئے۔ پے در پے ہونے والے ان واقعات کے لیے کچھ لوگ حکومت کوذمے دار ٹھہراتے ہیں اور کچھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس کا قصوروار گردانتے ہیں، لیکن یہ ادارے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اپنے فرائض سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔۔۔اور پھر ایسے واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہوتے ہی جاتے ہیں۔
اس سے قبل بھی2 دسمبر2013 کو ایکسپریس گروپ کے کراچی آفس پرکریکر بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک گارڈ زخمی ہوگیا تھا، جب کہ اگست 2013 میں ہونے والے حملے میں ایک خاتون کارکن اور گارڈ زخمی ہوئے تھے۔پاکستان پریس فاونڈیشن (پی پی ایف) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق2002 سے اب تک پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے وابستہ 185 اراکین زخمی، 88 زدوکوب، 22 اغوا اور 42 حراست میں لیے گئے۔ اس سے قبل 31 مئی2011 کو اسلام آباد کے ایک صحافی سلیم شہزاد کو نامعلوم افراد کی جانب سے اغوا کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ حملہ صحافت پر ہو یا آزادی صحافت پر، صحافی برادری پر گراں ہی گزرتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک کی تاریخ میں کچھ ایسے باب بھی دفن ہیں، جب صحافت اور آزادی صحافت کو کھلے عام نشانہ بنایا گیا۔
کچھ صحافتی تنظیموں نے صحافیوں کو منظم کرنے اور ان کے پیشہ وارانہ مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ضرور اقدام کیے تھے، تاہم ریاستی جبر کا سامنا کرتے ہوئے ناکام ہوتے گئے۔ ملک کے صحافیوں کو نظریاتی طور پر تقسیم کردیا گیا، یعنی اعلان تو یہ کیا گیا کہ اختلاف کی اصل وجہ عقیدہ اور اخلاقیات کا فرق ہے، لیکن نظریے کی بنیاد پر صحافیوں کے اتحاد پر چوٹ لگانے والوں نے ملک کی آمرانہ حکومت کا ساتھ دیا۔ اس طرح، صحافت میں ذاتی مفاد اور حرص کو متعارف کروانے کا رواج ڈالا گیا۔ صحافت دائیں اور بائیں بازوں میں بٹ گئی، جس میں صحافیوں کو سزائیں بھی ہوئیں اور جیلیں بھی کاٹنی پڑیں۔ جہاں آمریت نے صحافت کو بہت نقصان پہنچایا، وہیں جمہوریت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جمہوری حکومتوں نے بھی صحافیوں کے انتشار سے فائدہ اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ ان حکومتوں کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو صاحب سیکولر تھے، لبرل تھے۔ ’’قائد عوام‘‘ تھے بلکہ ’’قائد ایشیا‘‘ تھے، مگر ان سے کوئی اور کیا روزنامہ جسارت تک برداشت نہ ہوا۔ ان کے دور میں جسارت کے مدیر اور ناشر ایک سے زیادہ مرتبہ گرفتار ہوئے اور جسارت کو بالآخر بند کردیا گیا۔ 2000 کی دہائی میں الیکٹرانک میڈیا منظر عام پر آنے تک مالکان کے کمرشل مفادات تمام میڈیا ہاؤسز کو اپنی گرفت لے چکے تھے۔ ورکنگ جرنلسٹ نہ تو اپنے حالات کار بہتر کروانے کے لیے اقدام کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی وہ مل کر صحافت کی آزادی کے لیے کوئی حصار بنانے میں کام یاب ہوسکے۔
ماضی میں مقامی اخباروں پر منظم حملے، رپورٹروں کی پٹائی روزانہ کا معمول تھا اور آج بھی پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک بن چکا ہے۔ حکومت اور ابلاغی اداروں کے مالکان کو چاہیے کہ وہ صحافیوں کے خلاف جرائم کے مقدمات کی قانونی پیروی کریں اور صحافیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قدم آگے بڑھائیں، ورنہ ایسے ہی ایک کے بعد ایک کیس فائل ہوتے جائیں گے، لیکن ان کی شنوائی کوئی نہیں ہوگی۔ ان سب مشکلات کے باوجود بھی سچے صحافیوں کی ہمت گھٹے گی نہیں اور وہ ہر قید و بند کی صعوبت اُٹھانے کے بعد بھی اپنے کام کو بخوبی انجام دیتے رہیں گے۔۔۔بقول حبیب جالب:
ایسے دستور کو صبح بے نُور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
تم نے چُوسا ہے صدیوں ہمارا لہو
اب نا ہم پہ چلے گا تمہارا فَسوں
ظُلم کی رات کو، جَہل کی بات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

حصہ